ریپ میوزک اور مزاحمت، نیویارک میں جنم لینے والی ہِپ ہاپ ثقافتی تحریک
ریپ میوزک اور مزاحمت، نیویارک میں جنم لینے والی ہِپ ہاپ ثقافتی تحریک
جمعہ 21 جون 2024 7:18
علی عباس۔ لاہور
نیویارک سے شروع ہونے والی ہِپ ہاپ تحریک نے ریپ میوزک کو جنم دیا۔ فوٹو: بریٹانیکا
پانچ دہائیوں قبل کا ذکر ہے جب امریکی شہر نیو یارک کے علاقے برونکس میں غربت اور تشدد سے فرار کے لیے ایک ایسی ثقافتی تحریک نے جنم لیا جس نے آنے والے برسوں میں ثقافتی منظرنامے اور بالخصوص موسیقی پر دور رَس اثرات مرتب کیے۔
یہ ہِپ ہاپ تحریک تھی جس نے ابتدا میں سیاہ فام اور لاطینی امریکہ کے نوجوانوں کی توجہ حاصل کی مگر کچھ ہی عرصے میں یہ ثقافتی تحریک نیویارک میں مقبولیت حاصل کر چکی تھی۔
ریپ میوزک کی ابتدا کیسے ہوئی؟
لوگ اکثر ہپ ہاپ کو ریپ کے ساتھ خلط ملط کر دیتے ہیں۔ ریپ موسیقی کا ایک انداز ہے جس میں موسیقی کی دھن پر جملوں کو ایک خاص آہنگ کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے۔ ہپ ہاپ مگر موسیقی سے بڑھ ایک ثقافت ہے اور ریپ موسیقی اس کا ایک جزو ہے کیوں کہ بریک ڈانسنگ، ڈسک جاکنگ اور گرافٹی آرٹ بھی اس کے اہم اجزا ہیں۔
امریکن ریپر کے آر ایس ون نے سال 1993 میں کہا تھا، ’ریپ گائیکی کچھ ایسا ہے جو آپ پرفارم کرتے ہیں جبکہ ہپ ہاپ کو آپ گزارتے ہیں۔‘
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، ’ہپ ہاپ تحریک کے ابتدائی دنوں میں گلیوں میں موسیقی بجانا یا باسکٹ بال کے کورٹ کو ڈانس فلور میں تبدیل کر دینا لطف اندوز ہونے اور پارٹی کرنے کے سادہ سے طریقے دکھائی دے سکتے ہیں لیکن یہ غربت زدہ علاقوں میں سماجی اور معاشی نا انصافی کے خلاف ایک ردعمل تھا۔ یہ وسائل اور دولت کے بغیر خوشی اور تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کا ایک طریقہ تھا۔‘
امریکی ثقافت میں ہپ ہاپ اور ریپ موسیقی نے تیزی کے ساتھ اپنی جگہ بنائی اور انٹرٹینرز اسے اپنی ذاتی زندگی کی حقیقتوں کو بیان کرنے کے لیے استعمال کرنے لگے۔ آنے والے برسوں میں بہت سے ریپرز نے ایسے گیت گائے جن میں سیاہ فاموں کو درپیش مشکلات کو بیان کیا گیا تھا۔
ریپ موسیقی کا افریقہ سے کیا تعلق ہے؟
مغربی افریقہ کی لوک روایات کو بیاں کرنے کے انداز اور ریپ گائیکی میں موجود مماثلت کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ ہپ ہاپ یا ریپ موسیقی سے صدیوں قبل مغربی افریقہ کے لوک فنکار ڈرم کی تھاپ پر کہانیاں سنایا کرتے تھے جسے ریپ موسیقی کی ابتدا قرار دیا جا سکتا ہے۔
’بلیوز‘ موسیقی، جس کی ابتدا احتجاج اور غلامی کے دنوں میں ہوئی، سیاہ فام امریکیوں نے پہلی بار اس وقت تخلیق کی جب یکم جنوری 1863 میں امریکی صدر ابراہم لنکن کے صدارتی حکم سے خانہ جنگی کے دوران 35 لاکھ سے زیادہ سیاہ فام افریقی امریکی غلاموں کو آزاد کر دیا گیا تھا۔
موسیقی کے اس انداز کو 1940 کی دہائی میں مذہبی گیت گانے والے سیاہ فاموں کے ایک امریکی گروپ ’دی جوبالیریز‘ نے اختیار کیا اور آیات کو اس آہنگ سے گایا کہ اسے ’ریپ‘ موسیقی کی ابتدا قرار دیا گیا۔ اسی گروپ کا سال 1946 کا گیت ’نوح‘ کا ذکر اکثر و بیش تر پہلے ریکارڈڈ ریپ گیت کے طور پر کیا جاتا ہے۔
ریپ اور ہپ ہاپ موسیقی پر اعتراضات
ہپ ہاپ اور ریپ موسیقی کے ابتدائی زمانے میں موسیقی کی اس صنف کو ایک وقتی جنون خیال کرتے ہوئے نظرانداز کر دیا گیا۔ اس کے باوجود ریپرز نے شکست نہیں مانی اور وہ اسے مرکزی دھارے کی موسیقی کے امریکی اور آنے والے برسوں میں عالمی منظرنامے کا حصہ بنانے میں کامیاب رہے۔
آسٹریلوی ویب سائٹ ’دی کنزرویشن‘ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا، ’ہپ ہاپ فنکار دہائیوں سے پولیس تشدد کے خلاف احتجاج کرتے رہے ہیں۔ 80 کی دہائی کے اوآخر اور 90 کی دہائی کے شروع میں امریکہ کے مختلف حصوں سے ریپرز نے اس ظلم اور پولیس کے متعصبانہ حربوں کو بیان کیا جن کا وہ سامنا کرتے رہے تھے۔‘
مشہور زمانہ ریپر این ڈبلیو اے کا پولیس کے حوالے سے گیت اس باب میں مقبول ترین ہے۔ اس گیت میں عام ثقافت سے ہٹ کر کھلے بندوں سیاسی پیغام دیا گیا تھا۔ ہپ ہاپ موسیقی نے کچھ یوں استحصال کے نظام کے خلاف اور سیاسی موضوعات پر مکالمے کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔
امریکہ کی ڈیوک یونیورسٹی سے منسلک شعبہ افریقہ اور افریقن امریکن سٹڈیز کے پروفیسر اور مصنف مارک انتھونی نیل نے ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا تھا، ’امریکہ متشدد رہا ہے اور زیادہ اہم یہ ہے کہ یہ سیاہ فاموں کے حوالے سے متشدد رہا ہے۔ ہپ ہپ نے دنیا کے مسائل کو بیاں کرنے کی کوشش کی اور کچھ یوں ایک عظیم آرٹ تخلیق کیا۔‘
تاہم، ہپ ہاپ کو بارہا اس غلط فہمی کا سامنا کرنا پڑا ہے کہ اس کی شاعری تشدد کو ابھارنے کے علاوہ منشیات کا حوالہ دیتی ہے۔ اس غلط فہمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ریپ موسیقی میں علمیت سے زیادہ کمرشل ازم کا رنگ غالب آ چکا ہے۔
انقلاب اور ریپ موسیقی
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، ’دنیا بھر میں ہپ ہاپ موسیقی کا اثر و رسوخ احتجاج، مزاحمت اور سیاسی اختلاف رائے میں نمایاں ہوا ہے۔ بہار عرب سے لے کر فلسطین کی جنگ آزادی اور فیمینزم کی تحریک سے لے کر طبقاتی جدوجہد تک ریپ موسیقی عوام کو متحرک کرنے کا مقبول عام طریقہ ہے۔‘
امریکی سیاسی حقوق کی تحریک کے سرگرم کارکن الفریڈ چارلس شرپٹن جونیئر اس وقت 18 برس کے تھے جب ان کے شہر نیویارک میں ثقافتی تحریک ہپ ہاپ نے مقبولیت حاصل کرنا شروع کی۔ وہ کہتے ہیں،’یہ ہپ ہاپ کلچر کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکا کہ سال 2008 میں امریکی عوام نے اپنا پہلا سیاہ فام صدر منتخب کیا۔‘
انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے جب شہریت کا متنازعہ ترمیمی بل منظور کیا تو اس کے خلاف دہلی کے علاقے شاہین باغ میں 2019-20 میں احتجاج کا آغاز ہوا۔
اس وقت جامعہ ملیہ اسلامیہ میں صحافت کے طالب علم شمریز نظر نے کیرالہ کے اظہار العلوم عربی کالج میں زیرتعلیم منوش کوچی کے ساتھ مل کر ریپ ٹریک گایا جس نے مظاہرین کا لہو گرمانے میں اہم کردار ادا کیا۔
یہ سلسلہ یہیں پر نہیں رکا اور چنائے کے ایک گلوکار اریوو نے ریپ موسیقی میں گیت ریکارڈ کروایا تو کلکتہ کے سمت رائے کی آواز بھی اس احتجاج میں گونجی جب کہ بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں کرفیو اور لاک ڈاؤن لگایا گیا تو ریپر وین ایم نے کہا، ’آسام آج جل رہا، خون میرا کھول رہا۔‘
ان تمام ریپرز نے ہِپ ہاپ موسیقی کو احتجاج کا ایک ہتھیار بناتے ہوئے موثر طور پر استعمال کیا۔
بالی ووڈ کی 2019 میں ہی فلم ’گلی بوائز‘ ریلیز ہوئی تھی جو ممبئی کی کچی آبادی کے ریپرز سے متعلق تھی جس میں مرکزی کردار مراد (اداکار رنویر سنگھ) سے اس کا دوست اور مینٹور کہتا ہے، ’دنیا میں اگر سب کچھ آسان ہوتا تو پھر کوئی ریپ گاتا ہی کیوں؟‘
پنجاب میں ریپ میوزک
پنجابی گیتوں کی اولین ریپنگ 90 کی دہائی کے اوآخر اور گذشتہ ہزاریے کی آخری دہائی میں شروع ہوئی جب پنجابی نژاد کینیڈین گلوکار جیزی بی اور برطانوی پنجابی گلوکاروں سکشندر شندا اور ڈاکٹر ذیوس نے ہپ ہاپ گیت گائے۔ یہ پنجابی ہپ ہاپ موسیقی کی پہلی لہر تھی۔
گذشتہ دھائی کے دوران سدھو موسے والا پنجابی ہپ ہاپ کی نئی ویو کے اہم ترین گلوکار کے طور پر ابھرے جنہیں پنجابی کا عظیم ترین ریپر قرار دیا جاتا ہے۔
فائر برج میگزین اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے، ’سدھو نے اپنے گیت 295، جس میں تعزیرات ہند کی ایک شق کی جانب اشارہ کیا گیا ہے جو مذہبی عقائد کے تحفظ کو یقینی بنانے کے حوالے سے ہے، میں انڈین حکومت کے اس قانون کے نفاذ کے طریقہ کار پر غصے کا اظہار کر رہے ہیں، اس گیت کی شاعری سدھو کے اس یقین کو ظاہر کرتی ہے کہ یہ قانون آزادی اظہار پر بندش کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔‘
پنجابی میں اس وقت ریپرز کرن آہوجہ اور شبھ اگرچہ سدھو کی ہی پیروی کر رہے ہیں مگر وہ اپنے منفرد انداز میں ریپ گا رہے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف صدائے احتجاج
واشنگٹن ڈی سی میں جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نسل پرستانہ پالیسیوں کے خلاف سفید ماسک پہنے مظاہرین نے وائٹ ہائوس کے قریب احتجاج کیا تو انہوں نے سال 1989 کا معروف گیت 'فائٹ دی پاور' گایا۔ ملک کے دیگر حصوں میں بھی مظاہرین نے اسی نوعیت کے گیت گائے۔
اور جب مئی 2020 میں سیاہ فام جارج فلوئڈ کو سفید فام پولیس اہل کاروں نے تشدد کر کے ہلاک کیا تو ریپ موسیقی اس بہیمانہ قتل کے خلاف ہونے والے احتجاج میں مزاحمت کی آواز بن گئی۔
بہار عرب سے انڈیا میں نریندر مودی اور امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی نسل پرستانہ حکومتوں کے خلاف یہ ریپ موسیقی ہی تھا جس نے فن کے ذریعے لوگوں کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہ کیا۔ اس وقت اگرچہ ریپ موسیقی کی ایک کمرشل اہمیت بھی ہے مگر یہ مزاحمت کی ایک ایسی آواز بھی بن چکی ہے جس کی وجہ سے طاقت کے بہت سے ایوان لرز اٹھے۔ یہ درحقیقت احتجج کا وہ ذریعہ ہے جو ناانصافی کے خلاف سیاہ فاموں نے شروع کیا مگر یہ اب کسی ایک قومیت تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ محکوموں اور مظلوموں کی مزاحمت کا ایک ایسا تخلیقی اظہار ہے جس نے حقوق کی جدوجہد کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔