Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان میں پولیو سے تین بچوں کی موت، جعلی ویکسینیشن کا انکشاف

بلوچستان میں محکمہ صحت کے حکام نے صوبے میں انسداد پولیو کی جعلی ویکسینیشن  کا انکشاف کیا ہے اور بتایا ہے کہ پولیو ورکرز اور بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے انکاری والدین گٹھ جوڑ کر کے حکومت کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جعلی ویکسینیشن میں ملوث پانچ سو سے زائد پولیو ورکرز کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔
رواں سال پاکستان بھر سے رپورٹ ہونے والے پولیو کے 80 فیصد کیسز آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے چھوٹے صوبے بلوچستان میں سامنے آئے ہیں۔ دو سال تک  پولیو سے پاک رہنے والے اس صوبے میں پولیو کا موذی مرض دوبارہ کیوں سر اٹھا رہا ہے اور اس مرض کا  شکار ہونے والے بچوں کی اموات کیوں ہو رہی ہے ہیں؟
حکام اس پر سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں اور نئی حکمت عملی پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔
پولیو کے سب سے زیادہ کیسز بلوچستان کے ہائی رسک ایریا میں
محکمہ صحت کے مطابق پاکستان میں رواں سال اب تک پولیو کے 15 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں سے 12 صوبہ بلوچستان سے سامنے آئے ہیں۔ باقی تین کیسز میں سے دو صوبہ سندھ اور ایک پنجاب سے رپورٹ ہوا ہے۔ صوبہ پنجاب میں تین سال بعد پہلا کیس رپورٹ ہوا ہے۔
انسداد پولیو کے لیے بنائے گئے ایمرجنسی آپریشن سینٹر(ای او سی ) کے بلوچستان میں کوآرڈینیٹر انعام الحق کے مطابق سب سے زیادہ سات کیسز کوئٹہ بلاک میں رپورٹ ہوئے ہیں جو ملک کے سب سے ہائی رسک ایریا میں شامل ہے۔
کوئٹہ بلاک کے ضلع قلعہ عبداللہ سے پانچ جبکہ کوئٹہ شہر اور چمن سے ایک ایک کیس رپورٹ ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پولیو کے باقی پانچ کیسز ڈیرہ بگٹی، جھل مگسی، ژوب، قلعہ سیف اللہ، خاران سے رپورٹ ہوئے ہیں۔ خاران میں پہلی مرتبہ پولیو کا کوئی کیس سامنے آیا ہے۔
بلوچستان میں گزشتہ دس سالوں میں پولیو کے اب تک 66 کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔ ایک سال میں سب سے زیادہ 26 کیسز 2020 میں سامنے آئے تھے جس کے بعد اس مرض  سے متاثرہ بچوں کی تعداد میں کمی آنا شروع ہوگئی۔

جعلی ویکسینیشن میں ملوث 500 سے زائد ورکرز کے خلاف کارروائی ہوئی۔ فوٹو: اے ایف پی

سال2021 میں صرف ایک کیس رپورٹ ہوا تھا جبکہ اگلے دو سال یعنی 2022 اور 2023 میں بلوچستان پولیو سے پاک رہا۔
ستمبر 2023 میں ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی موجودگی کا انکشاف
2024 میں اچانک اس مرض کے دوبارہ سر اٹھانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے انعام الحق نے بتایا کہ 28 ماہ تک بلوچستان پولیو فری رہا اور اس دوران نہ ماحول میں وائرس کے نمونے موجود تھے اور نہ ہی کوئی کیس رپورٹ ہوا، لہٰذا یہ اطمینان تھا کہ پولیو وائرس ختم ہونے جا رہا ہے۔
’اس دوران حکومت بہت سے دوسرے مسائل میں الجھی ہوئی تھی اور باقی چیزوں پر زیادہ توجہ دی گئی۔ انتخابات چل رہے تھے، انتقال اقتدار ہو رہا تھا اور گزشتہ سال غیرملکیوں کا انخلاء بھی   ہوا تھا جس کی وجہ سے شاید پولیو مہم کا معیار وہ نہیں رہا جو ہونا چاہیے تھا اور یہ مرض دوبارہ نمودار ہو گیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ستمبر 2023 میں ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی موجودگی رپورٹ ہوئی اور اس سال فروری سے کیسز سامنے آنا شروع ہو گئے۔ اب تک صوبے کے 8 اضلاع اس مرض سے متاثر ہو چکے ہیں۔
سب سے بڑی وجہ والدین کا قطروں سے انکار ہے، صحافیوں کو بریفنگ
انسداد پولیو کے لیے کام کرنے والے اداروں کی جانب سے کوئٹہ میں صحافیوں کو ایک بریفنگ میں پولیو کے مرض کے خاتمے کی کوششوں میں ناکامی کی کئی وجوہات بتائی گئی ہیں ان میں والدین کی جانب سے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے انکار، نقل انسداد پولیو مہم کے دوران اپنے بچوں کو ٹیموں سے چھپانے کے علاوہ سکیورٹی مسائل، دور دراز علاقوں تک رسائی، نقل مکانی، افغانستان سے غیر روایتی راستوں سے آمد و رفت وغیرہ شامل ہیں۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ سرحد کے دوسرے پار افغانستان میں پولیو مہم کے معیار پر سمجھوتہ کیا گیا ہے اور 2018 سے جنوبی افغانستان میں گھر گھر ویکسینیشن پر پابندی  ہے۔ افغانستان سے طویل سرحد رکھنے کی وجہ سے بلوچستان بھی خطرے سے دو چار ہے۔
بریفنگ میں مزید بتایا گیا کہ صوبے میں پولیو کا ابتدائی وائرس بھی افغان صوبہ قندھار سے چمن منتقل ہوا، اگرچہ اس وقت سرحد بند ہے مگر اب بھی غیر روایتی رواستوں سے آمد و رفت جاری ہے جو سرحد پار سے بلوچستان میں وائرس کی منتقلی کی وجہ بن رہی ہے۔

بلوچستان کے ہائی رسک ایریا میں پولیو کے سب سے زیادہ کیسز آئے۔ فوٹو: اے ایف پی

بریفنگ میں یہ بھی بتایا گیا کہ اضلاع میں ڈپٹی کمشنرز اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسران کے مسلسل تبادلے سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ کچھ قبائلی عمائدین  حکومت سے اپنے مطالبات منوانے کے لیے پولیو  کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ چمن میں دس ماہ سے زائد تک جاری رہنے والے احتجاجی دھرنے کے قائدین کی مخالفت کی وجہ سے چمن اور قلعہ عبداللہ میں انکاری والدین میں اضافہ ہوا۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ پولیو کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ تمام بچوں کی ہر مہم میں ویکسینیشن کی جائےکیونکہ پولیو سے بچاؤ کی ویکسین بچوں کی انتڑیوں میں  صرف ایک ماہ تک رہتی ہے اور اس کے بعد انہیں نئی ویکسین کی ضرورت ہوتی ہے۔
قطرے پلائے بغیر بچوں کی انگلیوں پر نشانات لگائے جانے کا انکشاف
ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے کوآر ڈینیٹر انعام الحق کے مطابق بلوچستان ملک کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے اور دور دراز علاقوں میں بعض اوقات رسائی کے مسائل پیش آتے ہیں لیکن اس کے باوجود ٹیمیں تندہی سے کام کر رہی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے بھی پولیو کے خاتمے میں چیلنجز کا سامنا ہے جبکہ پچھلے دس سالوں میں آٹھ پولیو ورکرز کا قتل ہوچکا ہے۔ گزشتہ سال پولیو ٹیموں کی حفاظت پر مامور کئی پولیس اہلکاروں کا قتل ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں پولیو کے کیسز میں اضافے کی بڑی وجوہات میں حفاظتی ٹیکہ جات کی مکمل کوریج نہ ہونا بھی ہے جس کی وجہ سے بچے کی قوت مدافعت متاثر ہوتی ہے اور وہ پولیو کا بھی آسانی سے شکار ہوجاتے ہیں۔
’صوبے میں لوگوں کی نقل مکانی سے بھی پولیو وائرس ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو رہا ہے۔ قلعہ عبداللہ کا ایک متاثر بچہ کراچی سے آیا تھا۔ سب سے بڑی وجہ انکاری والدین ہیں جو اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہیں پلاتے۔ یہ بچے نہ صرف خود پولیو وائرس کا شکار بلکہ منتقلی کا ذریعہ بھی بن جاتے ہیں۔ والدین نے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانےسے انکار کے نئے طریقے اپنا لیے ہیں۔ بعض والدین نے پولیو ورکرز کے ساتھ  گٹھ جوڑ کیا ہے۔‘
’ہم نے کچھ ایسی ٹیمیں پکڑی ہیں جو جعلی ویکسینیشن میں ملوث تھے یعنی قطرے پلائے بغیر بچوں کی انگلیوں پر نشانات لگائے گئے۔ اس کے بارے میں قومی اور صوبائی سطح پر عدم برداشت کی پالیسی ہے۔ پانچ سو سے زائد ایسے کیسز رپورٹ ہوئے جس میں ملوث  تمام 74 پولیو ورکرز کو ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ مجموعی طور پر 500 سے زائد اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کارروائی کی گئی۔‘

پولیو کی سب سے بڑی وجہ والدین کا قطرے پلانے سے انکار کرنا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

بلوچستان میں پولیو سے بچوں کی اموات
انسداد پولیو مہم کے ٹیکنیکل آفیسر ڈاکٹر آفتاب کاکڑ نے بتایا کہ بلوچستان میں رواں سال اب تک پولیو سے متاثرہ بارہ میں سے تین بچوں کی موت ہو چکی ہے۔ تینوں کی عمریں دو سال سے کم تھیں۔ ان میں سے دو لڑکیوں کا تعلق کوئٹہ اور قلعہ سیف اللہ کے علاقے مسلم باغ جبکہ ایک بچے کا تعلق خاران سے تھا۔
کوآرڈینیٹر انعام الحق کا کہنا ہے کہ 9 ستمبر سے بلوچستان کے تمام اضلاع میں پولیو کی خصوصی مہم  چلائی جائے گی جس میں 26 لاکھ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کی ویکسین دینے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مہم کے دوران انکاری والدین پر خصوصی توجہ دی جائے گی اور اس سلسلے میں حکمت عملی کو بہتر کیا جائےگا۔
وزیراعظم کی فوکل پرسن برائے پولیو عائشہ رضا فاروق نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’گذشتہ سال بلوچستان میں ہمیں پولیو مہم کے انعقاد میں چیلنجز کا سامنا رہا جس کی وجہ سے بہت سے بچے پولیو ویکسین سے محروم رہے۔ بدقسمتی سے پولیو مہمات میں خلل کا نقصان اب بچوں کو ہو رہا ہے۔‘
افغانستان کے ساتھ مل کر مہم چلانے کا فیصلہ
فوکل پرسن عائشہ رضا فاروق نے کہا کہ صوبائی ٹیمز کے ساتھ مل کر انسداد پولیو مہم کی تیاریاں کی جا رہی ہیں اور مقامی چیلنجز کے مقامی حل پر غور کیا جا رہا ہے تاکہ پولیو اور حفاظتی ٹیکوں کی شرح میں اضافہ کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ پولیو پروگرام نے گذشتہ ہفتوں میں تمام صوبوں کے ساتھ مل کر حکمت عملیوں پر غور کیا ہے اور ایک جامع روڈ میپ اپنا رہے ہیں جس کی مدد سے وائرس کی منتقلی کو روکا جائے، خاص طور پر بلوچستان، خیبر پختونخوا اور سندھ کے ہائی رسک اضلاع میں۔

بلوچستان میں پولیو ٹیم کی حفاظت پر مامور کئی پولیس اہلکار قتل ہوئے۔ فوٹو: اے ایف پی

نیشنل ایمرجنسی آپریشنز سینٹر کے کوآرڈینیٹر انوار الحق کا کہناہے کہ ستمبر میں افغانستان کے ساتھ ملکر بیک وقت دونوں ملکوں میں انسداد پولیو مہم چلائی جائے گی تاکہ سرحد کے دونوں جانب پولیو کے خلاف بچوں کی قوت مدافعت میں اضافہ ہو۔
ان کا کہنا تھاکہ ’پولیو وائرس 59  اضلاع میں پھیل چکا ہے اور ہماری ترجیح ہے کہ ہم اس کو روک سکیں تاکہ بچوں کو اس سے محفوظ رکھا جائے۔‘

شیئر: