Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حمایت حاصل کرنے کے لیے کملا ہیرس کو مزید کرنا ہوگا، عرب اور مسلم کمیونٹی کا مطالبہ

صدر بائیڈن کے انتخابی دوڑ سے دستبرداری کے بعد کملا ہیرس ڈیموکریٹس کی صدارتی امیداور ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
امریکی ریاست مشیگن سے ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک اہم رکن اور سینیٹ کے سابق امیدوار ناصر بیضون نے کہا ہے کہ عرب اور مسلمان امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار کملا ہیرس کی حمایت کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن انہیں کمیونٹی کے خدشات پر توجہ دینا ہوگی۔
عرب نیوز کے مطابق ناصر بیضون نے کہا کہ کئی برسوں سے عرب اور مسلمان امریکی روایتی طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کے حامی رہے ہیں لیکن کمیونٹی کے اندر غزہ میں امن کے حوالے سے بائیڈن اور ہیرس انتظامیہ کی ناکامی پر خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے۔  
رواں ہفتے عرب نیوز کے ’دی رے حنانیہ ریڈیو شو‘ میں شرکت کرتے ہوئے لبنانی نژاد امریکی ناصر بیضون نے کہا کہ عرب اور مسلمان امریکی کملا ہیرس کی حمایت کرنا چاہتے ہیں لیکن اس وقت تک کوئی وعدہ نہیں کر سکتے جب تک وہ فلسطینی ریاست کے قیام اور غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کے خاتمے کی حمایت میں ’واضح‘ بیان نہیں دیتیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر کملا ہیرس کچھ کرنا چاہتی ہیں تو وہ آئیں اور کہیں کہ جب میں صدر بنوں گی تو میں ایک سیاسی ریاست کی حمایت کروں گی اور جب دیگر ممالک ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے حوالے سے بات کریں گے تو میں اس کو ویٹو نہیں کروں گی۔‘
ناصر بیضون نے کہا کہ اس کے بجائے کملا ہیرس نے صرف اتنا کہا ہے کہ ’میں اسرائیل کے اپنے حق دفاع کے ساتھ کھڑی ہوں۔ ہمیں یرغمالیوں کو گھر پہنچانا ہے اور غزہ میں جنگ بندی کی ضرورت ہے۔ یہ کافی نہیں ہے۔ جب 40 ہزار افراد مارے جا چکے ہوں اور آپ کا ملک نسل کشی کی حمایت کر رہا ہو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ ہماری حمایت چاہتی ہیں تو آپ کو ہمارا ووٹ حاصل کرنے کے لیے یہ کرنا ہو گا۔ اب یہ نہیں رہا کہ آئیں تصویر لیں اور کچھ حُمص کھائیں اور آپ کے لیے ہمارا ووٹ ہے، وہ دن گزر گئے۔ مجھے امید ہے کہ اس ملک میں ہر عرب اور مسلمان امریکی کا یہی فلسفہ ہو گا۔ ہم ایک اچھی کمیونٹی ہیں اور ہم کافی عرصے سے بہت تابعدار رہے ہیں۔ بس بہت ہو چکا۔‘
’جب نسل کشی ہو رہی ہو اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل اس ملک کو ختم کر رہا ہو تو ہمیں کہنا پڑے گا کہ بس بہت ہو چکا اور ہم اس کو برداشت نہیں کریں گے۔ اگر کملا ہیرس ووٹ چاہتی ہیں تو میرا ووٹ حاصل کرنے کے لیے ان کو کچھ کرنا ہو گا۔‘

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک مرتبہ پھر صدارتی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے ریپبلکن کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ پر بھی سخت تنقید کی اور کہا کہ وہ عرب اور مسلمان امریکی ووٹرز کے لیے آپشن نہیں، ’وہ نہیں جانتے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سروے کے مطابق 60 فیصد امریکی غزہ میں جنگ بندی چاہتے ہیں اور امریکی اسرائیلی پبلک افیئر کمیٹی کی وجہ سے صرف سات فیصد کانگریس کے اراکین جنگ بندی کے لفظ کا تذکرہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ناصر بیضون چھ اگست کو پرائمری الیکشن میں حصہ لینا چاہ رہے تھے، انہوں نے کوالیفائی کرنے کے لیے کافی دستخط بھی حاصل کر لیے تھے لیکن تکینکی وجوہات کی بنا پر انتخابات سے باہر ہو گئے۔
انہوں نے کاغذی کارروائی کے لیے اپنے گھر کے پتے کی بجائے انتخابی مہم کے پوسٹ آفس کا پتہ درج کیا تھا۔

شیئر: