’سیاہ فام ہونے پر فخر‘، کملا ہیرس جنہوں نے اپنی نسلی شناخت کبھی نہیں چُھپائی
’سیاہ فام ہونے پر فخر‘، کملا ہیرس جنہوں نے اپنی نسلی شناخت کبھی نہیں چُھپائی
جمعہ 2 اگست 2024 6:41
کملا ہیرس کی والدہ انڈیا جبکہ والد جمیکا میں پیدا ہوئے تھے (فوٹو: اے ایف پی)
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی حریف کملا ہیرس پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ’سایسی فائدہ حاصل کرنے‘ کے لیے سیاہ فام ہونے کا دعویٰ کر رہی ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ کملا ہیرس کے والدین کے جمیکا اور انڈیا سے تعلق کی وجہ سے وہ پہلی سیاہ فام شخصیت تھیں جو امریکہ کی نائب صدر بنیں۔
کملا ہیرس 1964 میں کیلیفورنیا کے شہر اوکلینڈ میں ڈونلڈ ہیرس اور شیاملا گوپالن کے گھر پیدا ہوئیں۔ کملا ہیرس کی والدہ انڈیا جبکہ والد جمیکا میں پیدا ہوئے تھے۔
ڈونلڈ ہیرس معاشیات کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکہ آئے تھے جبکہ شیاملا گوپالن 19 برس کی عمر میں انڈیا سے غذائیات اور اینڈوکرائنولوجی میں ڈاکٹریٹ کرنے کے لیے امریکہ آئی تھیں۔
ان دونوں کی ملاقات یونیورسٹی آف کیلیفورنیا بارکلے میں ہوئی جو طلبہ کی سرگرمی کا ایک مرکز سمجھا جاتا تھا، یہاں وہ شہری حقوق کی تحریکوں میں حصہ لیتے تھے۔
بعض اوقات وہ ننھی کملا کو بھی مارچ میں شرکت کے لیے اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔
کینسر کے شعبے میں محقق اور شہری حقوق کی سرگرم کارکن شیاملا گوپالن کا 2009 میں انتقال ہو گیا۔
کملا ہیرس نے اپنی 2019 میں شائع ہونے والی کتاب ’دا ٹروٹھس وی ہولڈ‘ میں لکھا کہ جوڑے کی طلاق کے بعد شیاملا گوپالن نے کملا اور ان کی چھوٹی بہن مایا کی پرورش کی اور وہ اپنا آبائی تعلق جنوبی ایشیا سے ہونے پر فخر محسوس کرتی تھیں۔ وہ انہیں انڈیا کے دوروں پر لے جاتی تھی اور اکثر تامل زبان میں پیار یا دُکھ کا اظہار کرتی تھی تاہم شیاملا گوپالن نے اس بات کو بھی سمجھا کہ وہ دو سیاہ فام بیٹیوں کی پرورش کر رہی ہیں۔‘
کملا ہیرس نے 2019 میں ’دی بریک فاسٹ کلب‘ کے ریڈیو شو کو بتایا کہ ’میں سیاہ فام ہوں اور مجھے سیاہ فام ہونے پر فخر ہے‘ (فوٹو: اے پی)
کتاب میں کملا ہیرس نے مزید لکھا کہ ‘وہ جانتی تھیں کہ ان کا اپنایا ہوا وطن مایا (بہن) اور مجھے سیاہ فام لڑکیوں کے طور پر دیکھے گا اور وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پُرعزم تھیں کہ ہم پُراعتماد، قابلِ فخر سیاہ فام خواتین بنیں۔‘
کملا ہیرس نے 2019 میں ’دی بریک فاسٹ کلب‘ کے ریڈیو شو کو بتایا کہ ’میں سیاہ فام ہوں اور مجھے سیاہ فام ہونے پر فخر ہے۔ میں سیاہ فام پیدا ہوئی اور سیاہ فام ہی مروں گی۔‘
ڈیوک یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کی سربراہ کیری ہینی نے کہا کہ ’انہوں نے اپنے سیاہ فام ہونے اور اپنے انڈین ورثے کو بھی قبول کر لیا ہے۔‘
کملا ہیرس نے امریکہ میں کالج کی تعلیم حاصل کی اور چار سال ہارورڈ یونیورسٹی میں گزارے جو کہ ملک میں تاریخی اعتبار سے سیاہ فام کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔
انہوں نے جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خلاف مظاہروں میں شرکت کی۔
ہاورڈ کے بعد کملا ہیرس نے یو سی ہیسٹنگز کالج آف لا میں داخلہ لیا جہاں وہ بلیک لاء سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی صدر منتخب ہوئیں۔
وہ 2003 میں سان فرانسسکو کے لیے اعلی ترین ڈسٹرکٹ اٹارنی بن گئیں۔ اس کے بعد وہ امریکہ کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست کیلیفورنیا میں اعلی وکیل اور قانون نافذ کرنے والے اہلکار کی حیثیت سے ابھریں اور کیلیفورنیا کے اٹارنی جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والی پہلی خاتون اور پہلی سیاہ فام شخص منتخب ہوئیں۔
کچھ لوگوں نے انہیں ’خاتون اوباما‘ کا نام دیا کیونکہ باراک اوباما 2008 میں ملک کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوئے تھے۔