ویسٹ انڈیز کے ’تھری ڈبلیوز‘ جن کے ریکارڈ آج بھی قائم ہیں
ویسٹ انڈیز کے ’تھری ڈبلیوز‘ جن کے ریکارڈ آج بھی قائم ہیں
ہفتہ 24 اگست 2024 6:58
یوسف تہامی، دہلی
یہ تینوں کھلاڑی 1950 کی دہائی میں ویسٹ انڈیز کی بیٹنگ میں ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے تھے۔ (فوٹو: سینٹ پیٹرز بے)
خواہ آپ کرکٹ کے مداح ہوں یا نہیں لیکن آپ میں سے اکثر نے وسیم اکرم اور وقار یونس کا نام ضرور سنا ہو گا۔ انھیں پاکستانی کرکٹ کا ’ٹو ڈبلیوز‘ یعنی وسیم اور وقار کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں نے پاکستان ٹیم کے لیے بولنگ کے شعبے میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔
لیکن کیا آپ کو پتہ ہے کہ انھیں ’ٹو ڈبلیوز‘ کیوں کہا جاتا ہے؟ دراصل ویسٹ انڈیز کرکٹ جب اپنے عروج کی طرف بڑھ رہی تھی تو اس ٹیم میں ایسے تین بیٹسمین تھے جن کے نام انگریزی کے حرف ’ڈبلیو‘ سے شروع ہوتے تھے اور انھوں نے ویسٹ انڈیز کی ٹیم کو متواتر کامیابیوں سے ہم کنار کیا تھا۔
انھیں دنیائے کرکٹ نے ویسٹ انڈیز کے ’تھری ڈبلیوز‘ کے نام سے یاد کیا۔ یہ تھے فرینک واریل، کلائیڈ والکوٹ اور ایورٹن ویکس یعنی واریل، والکوٹ اور ویکس۔ واریل سب سے بڑے تھے اور سنہ 1924 میں پیدا ہوئے جبکہ ویکس سنہ 1925 اور والکوٹ سنہ 1926 میں پیدا ہوئے تھے۔
یہ تینوں 1950 کی دہائی میں ویسٹ انڈیز کی بیٹنگ میں ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ اگر ایک ناکام ہوا تو دوسرا کامیاب ہو گا اور دوسرا بھی ناکام ہوا تو تیسرا تو ضرور کامیاب ہو گا۔
ان میں اور بھی قدر مشترک تھیں۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ نہ صرف یہ تینوں ایک ساتھ ایک دہائی تک ٹیم میں کھیل رہے تھے بلکہ ان تینوں کا تعلق ویسٹ انڈیز کے بارباڈوس میں جنوب مغربی پیرش سینٹ مائیکل سے تھا اور یہ تینوں ہی چند میل کے دائرے میں پیدا ہوئے تھے۔ یہاں تک یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تینوں کی پیدائش ایک ہی دائی کے ہاتھوں ہوئی تھی۔
ویسٹ انڈیز کے معروف آل راؤنڈر سر گارفیلڈ سوبرز نے پیٹ گبنس سے بات کرتے ہوئے ان کے بارے میں ایک بار کہا تھا کہ پہلی بار جب انھوں نے ’تھری ڈبلیوز‘ کی اصطلاح سنی تھی تو وہ ان سے واقف نہیں تھے لیکن وہ تینوں بعد میں ان کے آئیکون بنے۔
وہ زمانہ ریڈیو پر کمنٹری کا تھا اور انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ٹیسٹ میچ جاری تھا جس میں ایک آواز نے سوبرز کا ان تینوں سے تعارف کرایا تھا۔
ان کے مطابق ایک آواز نے ان کا تعارف کراتے ہوئے کہا: ’ووریل اس قدر نزاکت کے ساتھ بیٹنگ کر رہے تھے کہ گیند آگے آگے فیلڈر سے پہلے باؤنڈری تک پہنچ جاتی تھی اور فیلڈر ان کا پیچھا کرتے کرتے تھک جاتے تھے۔ والکاٹ ویسٹ انڈیز کی بیٹنگ کے ’بُلی بیف‘ تھے جو بال کو اتنی طاقت سے مارتے کہ فیلڈر چاہ کر بھی گولی کی رفتار سے جاتی ہوئی گیند سے ہاتھ ہٹا لیتا تھا۔ جبکہ ویکس کا فٹ ورک اتنا اچھا اور خوبصورت تھا کہ جب وہ شاٹ لیتے تو سامنے کھڑے فیلڈرز صرف کھڑے ہو کر ان کے سٹروک پلے کی تعریف کر سکتے تھے۔‘
بعد میں سوبرز بھی ان کے ساتھ تقریباً نصف دہائی تک کھیلے اور وہ آج تک کے سب سے بہتر ٹیسٹ آل راؤنڈر تصور کیے جاتے ہیں۔
آج بھی ان ’تھری ڈبلیوز‘ کا کرکٹ ریکارڈ کسی سے کم نظر نہیں آتا۔ اگر واریل نے 51 میچز میں تقریباً 50 کے اوسط سے 3860 رنز بنائے تو والکوٹ نے 57 کے اوسط سے 44 میچز میں 3798 رنز بنائے جس میں 15 سینچریاں اور 14 نصف سینچریاں شامل تھیں، جبکہ ویکس نے 48 میچز میں 59 کے اوسط سے 4455 رنز بنائے اور اس میں انھوں نے 15 سینچریاں اور 19 نصف سینچریاں سکور کیں۔
تینوں نے ڈبل سنچریاں بھی لگائيں۔ اگر آج کے تناظر میں دیکھا جائے تو سوائے واریل کے والکوٹ اور ویکس کی اوسط کرکٹ کا ’بھگوان‘ کہے جانے والے انڈین بیٹسمین سچن تنڈولکر سے بھی بہتر ہے۔ اور ان تینوں نے کل 39 سینچریاں اور 55 نصف سینچریاں بنائیں تو اس اعتبار سے دیکھا جائے تو انھوں نے ساتھ میں جتنے میچز کھیلے اس میں ایک نہ ایک کامیاب ضرور رہا۔
وارل اچھی بولنگ بھی کر لیتے تھے اور انھوں نے اپنے مختصر کیریئر میں 60 سے زیادہ وکٹیں بھی حاصل کیں اور سب سے زیادہ 15 سالوں تک ویسٹ انڈیز کی نمائندگی کی۔
فرینک واریل
واریل کو سنہ 1951 میں وزڈن کرکٹر آف دی ایئر قرار دیا گیا۔ انھوں نے انگلینڈ کے خلاف شاندار ڈبل سینچری (261) سکور کی تھی اور ان کی اس اننگز کی وجہ سے ان کی ٹیم کو ناٹنگھم میں 10 وکٹوں سے فتح ملی تھی۔ وارل چار میچوں میں 539 رنز کے ساتھ سیریز میں سب سے زیادہ سکور کرنے والے کھلاڑی کے طور پر سامنے آئے اور ان کی بیٹنگ کی بدولت ویسٹ انڈیز نے سیریز 1-3 سے جیت لی جو کہ انگلینڈ کے خلاف اس کی سرزمین پر اس کی پہلی جیت تھی۔
اس کے بعد فرینک وارل کی قیادت میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم ایک دہائي بعد سنہ 61-1960 میں آسٹریلیا کے دورے پر گئی جہاں آسٹریلوی، واریل سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے ٹرافی کو ان کے نام کر دیا۔ آج بھی آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ٹیسٹ سیریز کے فاتح کو فرینک واریل ٹرافی سے نوازا جاتا ہے۔
سر کلائیڈ والکوٹ
والکوٹ نے سنہ 1948 میں انگلینڈ کے خلاف اپنی سرزمین پر اپنا ڈیبیو کیا۔ انھوں نے دو سال بعد انگلینڈ کے خلاف 1950 کی سیریز میں جس میں واریل سب سے زیادہ رنز سکور کیے تھے، لارڈز کے میدان پر ناقابل شکست 168 رنز بنائے، اور ان کی وجہ سے ان کی ٹیم کو ٹیسٹ میچز میں انگلیںڈ کی سرزمین پر اپنی پہلی جیت ملی۔
انھیں اپنے کیریئر کے آخر میں یعنی 1958 میں وزڈن کرکٹر آف دی ایئر قرار دیا گیا تھا۔
چند تنازعات کی بنیاد پر انہوں نے 1960 میں بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا حالانکہ ان کی کافی کرکٹ باقی تھی۔ وہ 1973 سے 1988 تک ویسٹ انڈیز میں سلیکشن کمیٹی کے چیئرمین رہے اور 1975 اور 1979 میں ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیموں کو منظم کیا۔ سنہ 1997 میں وہ آئی سی سی کے پہلے سیاہ فام چیئرمین بنے۔ انھوں نے اس وقت انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی جانب سے دنیائے کرکٹ میں در آنے والے میچ فکسنگ کے الزامات کی تحقیقات کی نگرانی کی۔
سر ایورٹن ویکس
دنیائے کرکٹ میں وسیع پیمانے پر ان تینوں بلے بازوں میں سے ویکس کو سب سے بہتر سمجھا گیا۔ انھیں واریل کے ساتھ ہی وزڈن کرکٹر آف دی ايئر میں شامل کیا گیا تھا۔ لیکن انھوں نے والکاٹ کے ساتھ ٹیسٹ ڈیبیو کیا تھا۔ جبکہ واریل نے ان کے بعد اگلے ٹیسٹ میں ڈبیو کیا تھا۔ اس سال انھوں نے لگاتار پانچ ٹیسٹ سینچریاں سکور کیں اور محض 12 اننگز میں 1000 ٹیسٹ رنز بنائے، یہ سر ڈان بریڈمین سے ایک اننگز کم تھی۔ لیکن انھوں نے نو ٹیسٹ کی 12 اننگز میں یہ ریکارڈ بنایا تھا جبکہ بریڈ مین نے سات میچز کی 13 اننگز میں ہزار رنز بنائے تھے۔
ان کا مقابلہ بجا طور پر آسٹریلیا کے عظیم اور دنیا کے کرکٹ اب تک کے سب سے بہترین بلے باز سر ڈونلڈ بریڈمین کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ سابق آسٹریلوی کرکٹر اور معروف کرکٹ کمنٹیٹر رچی بینو نے ایک بار کہا تھا کہ ویکس ایک ایسے بلے باز تھے جن کا انداز اور کلاس بریڈمین کے سب سے قریب تھا۔
خیال رہے کہ ان تینوں نے سنہ 1948 میں انگلیںڈ کے خلاف ہوم سیریز میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا اور ایک دہائی تک ایک ساتھ کھیلتے رہے جس دوران ویسٹ انڈیز نے اپنی صلاحیت کا دنیا میں لوہا منوایا۔ اب تینوں اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن جب بھی کسی جوڑی کی بات ہوتی ہے تو ان تینوں کا نام سرفہرست آتا ہے۔