گیری سوبرز نے سنہ 1958 میں پاکستان کے خلاف ٹیسٹ میچ میں 365 رنز بنا کر لین ہٹن کا ریکارڈ توڑ دیا۔ (فوٹو: وزڈن)
چند دن پہلے میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ اس وقت ماضی کے جو ٹیسٹ کرکٹر ہمارے درمیان موجود ہیں ان میں عظیم ترین ٹیسٹ کرکٹر کون ہے؟ تھوڑی سوچ بچار کے بعد ذہن میں گیری سوبرز کا نام آیا۔ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں اتنے گنوں کا حامل کوئی کرکٹر نہیں آیا۔ سوبرز اعداد وشمار کے لحاظ سے بھی کسی سے ہیٹے نہیں لیکن اس جنجھٹ میں پڑے بغیر ہم ان کی عظمت دوسرے پیمانوں سے جانچتے ہیں۔
کرکٹ کے عظیم کھلاڑیوں کی طرف سے کم ہی کسی اور کرکٹر کو سوبرز کے برابر سراہا گیا ہو گا۔ ویسٹ انڈین کرکٹ کی عظمت اگر کسی ایک شخص میں مجسم دیکھنی ہو تو وہ گیری سوبرز کی شخصیت ہی ہو سکتی ہے۔
گذشتہ دنوں آسٹریلیا کے سابق کپتان اور نامور کرکٹ مبصر آئن چیپل کی دلچسپ کتاب Chappelli: Life, Larrikins & Cricket پڑھنے کا موقع ملا جس میں عظیم آسٹریلین آل راؤنڈر کیتھ ملر کے اپنے بیٹے کے ساتھ کرکٹ میچ دیکھنے کا ایک واقعہ بیان ہوا ہے۔ دورانِ میچ، ٹی وی سکرین پر بیٹنگ کے بارے میں اعدادو شمار ابھرے۔ ظاہری بات ہے اس گورکھ دھندے میں بریڈمین کو کون پچھاڑ سکا ہے، سو کمنٹیٹر نے انہیں کرکٹ کی تاریخ کا عظیم ترین کھلاڑی قرار دیا۔ کیتھ ملر نے بیٹے کے سامنے اس بیان کی تصحیح کرنا ضروری خیال کیا :
’آل ٹائم عظیم ترین بلے باز: سر ڈان بریڈمین
آل ٹائم عظیم ترین کرکٹر: سر گیری سوبرز‘
دلچسپ بات ہے بریڈمین خود بھی سوبرز کی عظمت کے بڑے قائل تھے۔ ان کی متنوع خوبیوں کی بنیاد پر انہیں فائیو ان ون کہا کرتے تھے۔
سنہ 1972 میں ورلڈ الیون کے کپتان کی حیثیت سے سوبرز نے آسٹریلیا کی مضبوط بولنگ کے خلاف 254 رنز کی شاندار اننگز کھیلی، یہ ڈینس للی کے عروج کا زمانہ تھا جبکہ سوبرز کا کیریئر اختتام کی طرف گامزن تھا۔ للی گذشتہ میچ کی ایک اننگز میں آٹھ تو دوسری میں چار وکٹیں لے چکے تھے۔ میلبورن ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں انہوں نے سوبرز کو صفر پر پویلین کی راہ دکھائی۔ اس ناکامی کی کسر سوبرز نے دوسری اننگز میں 254 رنز(ناٹ آؤٹ) بنا کر نکالی۔
اس اننگز کو بریڈمین نے آسٹریلین سرزمین پر بلے بازی کا بہترین مظاہرہ قرار دیا۔ اس سے بڑھ کر کسی کے کھیل کے اور کیا تعریف ہو سکتی ہے۔
سوبرز کی عظمت کی یہ گواہیاں تو غیروں نے دی ہیں۔ اب ذرا اپنوں کی بات ہو جائے۔ سائمن لسٹر نےFire in Babylon میں بتایا ہے کہ سنہ 1963 کے دورۂ انگلینڈ میں، ویسٹ انڈین کپتان فرینک وورل نے کھلاڑیوں پر رات 10 بجے کے بعد کمرے سے نکلنے پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔
اس ’کرفیو‘ سے سوبرز کو استثنا حاصل تھا، جس پر دوسرے کھلاڑی ناخوش تھے۔ ایک دن یہ ’باغی‘ کپتان کے پاس گئے اور کہا کہ یہ غلط بات ہے کہ سوبرز جس وقت تک مرضی باہر رہے اور ہمیں 10 بجے سونے کا پابند کیا جائے۔ اس پر کپتان نے ’باغیوں‘ میں شامل باسل بوچر سے کہا ’اچھا ٹھیک ہے، تم اور دوسرے کھلاڑی پانچ وکٹیں، شارٹ لیگ پر دوعمدہ کیچ اور سینچری بناکر دکھاؤ تو پھر تمہیں بھی میری طرف سے یہ اجازت ہو گی کہ جب تک چاہو باہر گھومو پھرو۔‘
اس بات کا شکایتی کھلاڑیوں کے پاس کوئی شافی جواب نہیں تھا اس لیے وہ بے نیل مرام واپس لوٹ آئے۔
گیری سوبرز کے کرکٹ میں بہت سے کارنامے ہیں۔ ان کا پہلا کارنامہ ہی بڑا عظیم اور تاریخی تھا۔ سنہ 1958 میں پاکستان کے خلاف ٹیسٹ میچ میں انہوں نے لین ہٹن کے سب سے زیادہ انفرادی سکور 364 کا ریکارڈ، ناقابل شکست 365 رنز بنا کر توڑ دیا۔ یہ ٹیسٹ میں ان کی پہلی سینچری تھی۔ اس وقت ان کی عمر 23 برس تھی۔ یہ ریکارڈ 36 برس ان کے پاس رہا۔ سنہ 1994 میں برائن لارا نے 375 رنز بنا کر اسے توڑا۔
سوبرز نے جس سیریز میں ریکارڈ قائم کیا اسی سیریز میں حنیف محمد نے 337 رنز کی عظیم اننگز کھیلی۔ حنیف محمد نے اپنی کتاب ’پلینگ فار پاکستان ‘میں سوبرز کو شاندار لفظوں میں خراج تحسین پیش کیا ہے اور انہیں فور ان ون قرار دیا ہے۔
سوبرز عظیم بلے باز تھے۔ 93 ٹیسٹ میچوں میں 57.78 کی اوسط سے 8032 رنز بنائے اور 235 وکٹیں حاصل کیں۔ لیفٹ آرم سپن بولنگ کے ساتھ ساتھ میڈیم پیسر کی حیثیت سے بھی کارگر تھے۔ ساتھ ہی باکمال فیلڈر بھی تھے۔ 39 ٹیسٹ میچوں میں قیادت کی۔ کپتان کی حیثیت سے 58.80 کی اوسط سے رنز بنائے، اس معاملے میں ڈان بریڈمین ہی ان سے آگے ہیں۔ سنہ 1975 میں انہیں سر کا خطاب ملا۔
گیری سوبرز کی ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کو 50 برس ہونے کو ہیں لیکن ان کا نام ذہنوں سے محو نہیں ہوا۔ مختلف حوالوں سے ان کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے۔آج ٹی20 کا دور دورہ ہے۔ ماضی کے کھلاڑیوں پر مبنی ٹی20 کی ایک تصوراتی ورلڈ الیون بنائی جائے تو اس میں سوبرز ضرور شامل ہوں گے۔ بہترین اور جارح بلے باز، عمدہ بولر، باکمال فیلڈر، بے مثال فٹنس، قائدانہ صلاحتییں الگ ۔ایسا پہلو دار کرکٹر ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا۔ ان کا میدان میں ہونا شرط تھا وہ کسی بھی حیثیت سے شائقین کو محظوظ کر سکتے تھے۔
ان کی متنوع خوبیوں کی بنا پر سنیل گواسکر نے کہا کہ وہ کرکٹ کی فیلڈ میں سب کچھ کر سکتے تھے۔
ٹی20 میں چھکے ہی چھکے جدید دور کا قصہ ہے۔ سوبرز نے سنہ 1968 میں ناٹنگھم شائر کی طرف سے کھیلتے ہوئے گلیمورگن کے میلکم ناش کے اوور کی چھ کی چھ گیندوں کو باؤنڈری لائن سے باہر پھینک کر فرسٹ کلاس کرکٹ میں ایک اوور کی تمام گیندوں پر چھکے مارنے والے پہلے کھلاڑی بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
کرک انفو نے سنہ 2020 میں کرکٹ ماہرین کا چار رکنی پینل بنا کر ماضی کے کھلاڑیوں پر مشتمل ٹی20 کی ڈریم ٹیم بنائی۔ اس کے لیے اینڈریو ملر، شامیا داس گپتا، احمر نقوی اور رونق کپور نے کھلاڑیوں کی کارکردگی کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا۔ ان میں خاصی رد و کد ہوئی لیکن دلچسپ بات ہے کہ جس واحد کھلاڑی کو متفقہ طور پر چنا گیا وہ گیری سوبرز تھے۔
کھلاڑی ہی نہیں ٹیم کی کپتانی کے لیے بھی انہی کا انتخاب ہوا۔ جس طرح ناصر کاظمی نے کہا تھا کہ ’ہر دور کی غزل میں میرا نشاں ملے گا‘، اسی طرح کرکٹ کوئی بھی روپ اختیار کر لے، اس میں رنگ بھرنے کے لیے گیری سوبرز کی طرح کے عظیم کھلاڑی کی ضرورت ہمیشہ رہے گی۔