الانا حدید کی پروڈکشن کمپنی جہاں ’فلسطینی اپنی کہانیاں سُنا سکتے ہیں‘
الانا حدید نے کہا کہ ’مجھے ہمیشہ سے فلسطینی ہونے پر فخر تھا‘ (فوٹو: اے پی)
سپور ماڈل جی جی اور بیلا کی بہن الانا حدید فلسطینیوں کی حمایت میں اپنی آواز بلند کر رہی ہیں اور اپنی پروڈکشن کمپنی کے ذریعے دنیا کی توجہ اس جانب مرکوز کرا رہی ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق الانا حدید کا یہ ایکٹیویزم صرف آن لائن پلیٹ فارمز تک ہی محدود نہیں ہے۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’اہم کہانیوں کو اجاگر کرنے کے لیے یہ گہری ذاتی وابستگی ہے۔ میں ہمیشہ ان شہروں اور قصبوں کے بارے میں کہانیاں سُنتی تھی جن کی تعمیر میں ان کے آباؤ اجداد نے مدد کی تھی۔ وہ زندگی جو وہ گزارتے تھے اور پناہ گزینوں کے طور پر ان کی زندگی اور پھر بالآخر امریکہ میں۔‘
الانا حدید نے کہا کہ ’ مجھے بہت فخر تھا، مجھے ہمیشہ سے فلسطینی ہونے پر فخر تھا۔ میں نے بچپن میں یہی سیکھا تھا۔‘
الانا حدید نے اپنی توجہ فلم سازی کی طرف مبذول کرتے ہوئے اپنے بھائیوں بدیع علی اور حمزہ علی کے ساتھ مل کر پروڈکشن کمپنی ’واٹر میلن پکچرز‘ کی بنیاد رکھی جس کا مشن زبردست، اثر انگیز کہانیاں تخلیق کرنا ہے۔
اس پروڈکشن کمپنی کے ذریعے الانا حدید فلسطینی عوام کی کہانیوں اور اُس بیانیے کو سامنے لا رہی ہیں جسے اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’مجھے یہ اعزاز حاصل ہوا کہ مجھے واٹر میلن پکچرز کا تخلیقی ڈائریکٹر بننے کے لیے کہا گیا۔ میرے خیال میں یہ حمزہ اور بدیع کے لیے نہ صرف ایک پرجوش منصوبہ ہے بلکہ یہ فلسطینیوں کے لیے ایک موقع ہے کہ اُن کے پاس ایک جگہ ہے جہاں اپنی کہانیاں سنا سکتے ہیں۔‘
الانا حدید نے مزید کہا کہ ’میں اس کے بارے میں جذباتی ہو جاتی ہوں۔ میرے خیال میں یہ سب سے خوبصورت چیزوں میں سے ایک ہے کہ لوگوں کے پاس ایک جگہ ہے جہاں وہ اپنی کہانیاں سُنا سکتے ہیں۔ اور ہم جانتے ہیں کہ ہمارے پاس اس کے لیے ایک محفوظ جگہ ہے۔‘
اس پروڈکشن کمپنی کا پہلا پروجیکٹ 2024 میں نشر ہونے والی دستاویزی فلم ’والڈ آف‘ تھی جس میں مقبوضہ علاقے میں لوگوں کی زندگی حقیقتوں کو بیان کیا گیا تھا۔
الانا حدید نے کہا کہ ’ہمارا سوشل میڈیا اور ہماری ویب سائٹ دیکھیں کہ اگلی فلم کون سی آ رہی ہے۔ لیکن ہمارے پاس بہت ساری کہانیاں ہیں۔ ہم نے یہ کہانیاں نہیں سُنی ہیں اور یہ کہانیاں اتنے عرصے سے سنسر ہیں۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’اسی لیے ہمارے پاس بےتحاشا فلمیں ہیں جو پہلے ہی بن چکی ہیں جنہیں واقعی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم فلسطینیوں کے لیے مرکز بننے پر بہت پرجوش ہیں۔‘