سابق گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان نے اس منصوبے میں خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے ابتدائی طور پر زعفران کی کاشت چترال میں کی تھی۔ صوبے کی 9 لاکھ ایکڑ اراضی اس منصوبے اور زعفران کی کاشت کاری کے لیے موزوں قرار دی گئی۔
ابتدائی طور پر چترال کے علاقے دروش میں زعفران کی کاشت شروع ہوئی جس کا باقاعدہ افتتاح سابق گورنر شاہ فرمان نے 2021 میں اپنے دورے کے دوران کیا تھا۔
سابق گورنر نے مقامی فصل کا معائنہ کرنے کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ صوبے میں اس کی کاشت سے ایک ہزار ارب روپے آمدنی حاصل ہو سکتی ہے۔
اس حوالے سے انہوں نے مزید کہا تھا کہ چترال موسمیاتی اعتبار سے زعفران کی کاشت کے لیے کسی جنت سے کم نہیں ہے۔
شاہ فرمان نے زعفران کے تخم اور پیداوار کو عالمی مارکیٹ میں متعارف کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ خصوصی فنڈز جاری کرکے زعفران کی کاشت کو بڑھانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
زعفران کی کاشت کاری کا منصوبہ کامیاب رہا
چترال میں محکمہ زراعت کی جانب سے زعفران کے پودے لگانے کا منصوبہ کامیاب رہا، تاہم فنڈز جاری نہ ہونے کی وجہ سے یہ منصوبہ پائلٹ پروجیکٹ سے آگے نہ بڑھ سکا۔
مقامی شہری حاجی سلطان نے اردو نیوز کو بتایا کہ زعفران کی کاشت کے بعد سابق گورنر کی جانب سے ایک فیصد بھی فنڈز جاری ہوئے اور نہ ہی محکمہ زراعت نے اس میں کوئی دلچسپی ظاہر کی۔
’سابق گورنر شاہ فرمان نے وعدے کے باوجود زعفران کی کاشت کے لیے فنڈز نہیں دیے‘ (فائل فوٹو: ریڈیو پاکستان)
انہوں نے کہا کہ ’پائلٹ پروجیکٹ میں ہماری تقریباً ایک مرلہ زمین پر زعفران کاشت کی گئی، محکمہ زراعت نے جنجریت کے علاقے میں مزید کاشت کاری کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن پھر کسی نے اس طرف مُڑ کر بھی نہیں دیکھا۔‘
حاجی سلطان کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں کچھ افراد کئی برسوں سے اپنے ذاتی وسائل سے زعفران کی کاشت کر رہے ہیں جس سے فائدہ بھی ہو رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت اس سلسلے میں مقامی کاشت کاروں کے ساتھ تعاون کرے تو زرِمبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔
محکمہ زراعت کا موقف
چترال میں محکمہ زراعت کے سینیئر ریسرچ افسر ڈاکٹر محمد نصیر کا موقف تھا کہ سابق گورنر کی ہدایت پر تجرباتی بنیادوں پر زعفران کے پودے لگانے کا تجربہ کامیاب رہا تھا۔
’شاہ فرمان خود ان پھولوں کو دیکھنے بھی آئے تھے، تاہم پھر فنڈز مہیا نہ ہونے کی وجہ سے اس حوالے سے کوئی منصوبہ شروع نہ ہوسکا۔‘
انہوں نے بتایا کہ زعفران کی کاشت کے لیے زمین کے ساتھ پھولوں کی نشوونما کے لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال ہو رہی ہے جس کے لیے فنڈز درکار ہیں۔
وٹامن اے اور وٹامن سی کی وجہ سے ادویات میں زعفران کا استعمال زیادہ ہوتا ہے (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)
ڈاکٹر محمد نصیر کے مطابق زعفران کے لیے زیادہ زرخیز زمین درکار نہیں ہوتی، زمین زیادہ سخت بھی نہ ہو اور اس میں پانی بھی زیادہ دیر تک نہ ٹھہرتا ہو، اسی وجہ سے چترال کا علاقہ اس کے لیے موزوں سمجھا جاتا ہے۔
زعفران کیا ہے؟
زعفران کا پودا پیاز کی مانند زمین سے ڈیڑھ فٹ اُونچا ہوتا ہے، پتے گہرے سبز پیاز کی طرح لمبے اور گھنے ہوتے ہیں اور اُن کا رُخ زمین کی جانب زیادہ ہوتا ہے۔
زعفران بنیادی طور پر جامنی پھولوں کا زردانہ یا سٹگما ہوتا ہے جسے پھولوں کی پتیوں کو الگ کر کے نکال لیا جاتا ہے۔
یہ ہی زردانہ بازار میں زعفران کے طور پر فروخت کیا جاتا ہے، جو بعدازاں کھانوں، بیوٹی کریموں اور ادویات میں استعمال ہوتا ہے۔
زعفران کے فوائد
زعفران میں وٹامن اے، وٹامن سی، پوٹاشیم، میگنیشیم، فاسفورس اور زِنک پایا جاتا ہے۔ یہ دل اور دماغ کے لیے نہایت مفید سمجھا جاتا ہے اور اسی وجہ سے ادویات میں اس کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔
زعفران کی کاشت کب ہوتی ہے؟
پشاور میں افغانستان کا زعفران چار لاکھ روپے فی کلوگرام کے حساب سے فروخت ہو رہا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
محکمہ زراعت کے ریسرچ افسر ڈاکٹر محمد نصیر کے مطابق اکتوبر اور نومبر میں زعفران کی کاشت کی جاتی ہے اور چند ہی دنوں بعد اِس کے پھول بھی نکل آتے ہیں۔
’اس کے بعد اپریل تک اس کے پتے نکل آتے ہیں، زعفران کے پودے اُن علاقوں میں اُگتے ہیں جہاں نہ زیادہ گرمی ہو نہ ہی زیادہ بارش، موسم سخت ہو تو یہ مُرجھا جاتے ہیں یا اِن کو فنگس لگ جاتا ہے۔‘
خیبر پختونخوا میں زعفران کی پیداوار کن علاقوں میں زیادہ ہے؟
پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر کے بعد خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں زعفران کی کاشت کی جاتی ہے، تاہم اس کی پیداوار افغانستان کے مقابلے میں کم ہے۔
محکمہ زراعت کے مطابق سوات اور دیر کے علاوہ ضم قبائلی اضلاع باجوڑ، کرم اور وزیرستان کے بعض علاقوں میں بھی زعفران کی کاشت سے آمدنی حاصل کی جاتی ہے۔
اس وقت پشاور کی بیشتر مارکیٹوں میں افغانستان کے شہر ہرات کا زعفران دستیاب ہے جو چار لاکھ روپے فی کلوگرام کے حساب سے فروخت ہو رہا ہے۔