سوات میں جنگلات کی ’بے دریغ کٹائی‘ کی تصاویر، حقیقت کیا ہے؟
سوات میں جنگلات کی ’بے دریغ کٹائی‘ کی تصاویر، حقیقت کیا ہے؟
جمعرات 11 جولائی 2024 5:23
فیاض احمد، اردو نیوز۔ پشاور
فضل وہاب کے مطابق اگر درختوں کی کٹائی کی یہی صورتحال رہی تو ہمارا مستقبل بہت خوفناک ہو گا (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی کی خبریں زیر گردش ہیں۔ محکمہ جنگلات کے مطابق کسی سرکاری جنگل میں نہیں بلکہ لوگوں کے ذاتی جنگل میں درختوں کی کٹائی ہوئی۔
خیبر پختونخوا کا پرفضا سیاحتی مقام سوات قدرتی حسن کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔
سالانہ لاکھوں سیاح کالام، مالم جبہ اور گبین جبہ کے علاوہ دیگر مقامات میں سیر و تفریح کے لیے رخ کرتے ہیں مگر وقت کے ساتھ یہاں کی خوبصورتی ماند پڑتی جا رہی ہے جس کی بڑی وجہ درختوں کی کٹائی ہے۔
جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے نہ صرف یہاں کا قدرتی حسن متاثر ہو رہا ہے بلکہ موسمیاتی تغیر سے سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کا سامنا ہے۔
مقامی افراد کے مطابق سوات کے بالائی علاقوں میں جنگلات کی غیرقانونی کٹائی جاری ہے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر درختوں کو گرانے کی تصاویر اور ویڈیوز شئیر بھی کی جا رہی ہیں۔
دوسری جانب صوبائی وزیر جنگلات فضل حکیم کا تعلق سوات سے ہونے کی وجہ سے ان پر مقامی لوگوں کی جانب سے شدید تنقید ہو رہی ہے اور ناقدین ان سے درختوں کی کٹائی روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
کیا درختوں کی کٹائی ہو رہی ہے؟
سوات کی سماجی شخصیت فضل وہاب نے اردو نیوز کو بتایا کہ سوات میں بے درخت کاٹے جا رہے ہیں بالخصوص وہ جنگل جو لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہیں، وہاں کے درخت راتوں رات کاٹ دیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سوات کے سرسبز جنگل اب پتھریلے چٹانوں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔
فضل وہاب کے مطابق اگر درختوں کی کٹائی کی یہی صورتحال رہی تو ہمارا مستقبل بہت خوفناک ہو گا۔
ان کا دعویٰ ہے کہ سوات کے شہری علاقوں میں 10 ہزار سے زائد نئے پودے لگائے گئے ہیں۔ ان کا ارادہ ہے کہ وہ ایک لاکھ پودے لگائیں گے تاکہ سوات کا حسن برقرار رکھا جاسکے۔
فضل وہاب نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ جنگلات کی کٹائی کو روکے اور ملوث افراد کو سخت سے سخت سزا دے۔
ماہر ماحولیات محمد حنیف کے مطابق مالاکنڈ کے بیشتر علاقوں میں درختوں کی کٹائی ہو رہی ہے جن میں سوات بھی شامل ہے۔’دکوڑک، مانکیال بنجوٹ اور دیگر علاقوں میں پرانے درختوں کا صفایا کیا گیا ہے۔‘
محمد حنیف نے بتایا کہ مانکیال گاؤں پہلے ہی گلیشئیرز پگھلنے کی وجہ سے شدید متاثر ہے۔ وہاں آبادی کے ساتھ انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچ چکا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کلائمیٹ چینج کی بڑی وجہ جنگلات کا خاتمہ ہے لہٰذا پہاڑی علاقوں میں درخت اگانے کی ضرورت ہے تاکہ ماحول پر مثبت اثرات پڑیں۔
محکمہ جنگلات کا موقف
ڈسٹرکٹ فارسٹ افیسر سوات عثمان خان نے اردو نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ ’سوات میں کہیں بھی غیرقانونی درختوں کی کٹائی نہیں ہو رہی ہے اور اگر کوئی ایسا واقعہ رپورٹ ہوتا ہے تو فوراً کارروائی کی جاتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر جو تصاویر دکھائی جا رہی ہیں۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ’سوات میں پرائیویٹ لینڈ پر لوگوں کے ذاتی جنگلات موجود ہیں جو اپنے درختوں کی کٹائی کے لیے محکمہ جنگلات سے اجازت مانگتے ہیں۔‘
انہوں مزید بتایا کہ اس کے باوجود صرف 30 فیصد درختوں کی اجازت دی جاتی ہے۔
ڈی ایف او فارسٹ سوات کے مطابق جن درختوں کی عمر 80 سال یا زائد ہوجائے، ان کی کٹائی کی اجازت دی جاتی ہے جو لوگوں کے ذاتی جنگل ہوتے ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ ’سرکاری جنگلات میں کسی درخت کو کاٹنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔‘
’سوات میں ایک ایک درخت کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے اور ہم اپنی ڈیوٹی بخوبی نبھا رہے ہیں۔‘
دوسری جانب صوبائی وزیر جنگلات و ماحولیات فضل حکیم نے سوشل میڈیا کی خبروں پر نوٹس لیتے ہوئے پورے صوبے میں جنگلات کی کٹائی پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے جس کے تحت پرائیویٹ وڈ لاٹس رولز 2017 کے جاری سکیموں پر بھی لاگو ہو گا۔