Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’این او سی کا جھنجھٹ‘، خیبرپختونخوا میں غیرملکی سیاح پریشان کیوں؟

خیبر پختونخوا محکمہ سیاحت کے مطابق سنہ 2024 میں 18 اگست تک 5094 غیرملکی سیاح صوبے کی سیر کے لیے آئے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
بلی اینڈک کا تعلق انڈونیشیا سے ہے اور وہ ایک سیاح ہیں۔ بلی ہر سال پاکستان کی سیر کے لیے آتے ہیں اور اپنے سفر کے دوران زیادہ وقت پشاور میں گزارتے ہیں مگر گذشتہ کچھ برسوں سے انہیں پشاور میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ان مشکلات کی وجہ سے بلی اپنا سفر ادھورا چھوڑ کر افغانستان جانے پر مجبور ہوئے۔ انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ پشاور میں ہوٹل انتظامیہ کی جانب سے انہیں رات گزارنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
’اندرون پشاور کے تقریبا تمام ہوٹل منیجرز نے مجھے کمرہ دینے سے انکار کیا، وجہ پوچھنے پر ہوٹل انتظامیہ نے وضاحت دی کہ پولیس کی جانب سے غیرملکی سیاحوں کو کمرہ دینے پر پابندی ہے۔‘
بلی اینڈک کا کہنا تھا کہ ہوٹل میں جگہ نہ ملنے پر انہیں مجبورا اپنے پاکستانی دوست کے گھر پر ٹھہرنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ وہ سیاحوں کا گروپ لے کر پشاور آتے ہیں مگر اب این او سی اور پابندیوں کی وجہ سے وہ کسی گروپ کو لانا نہیں چاہتے۔
’مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ویزا سمیت تمام سفری دستاویزات ہونے کے باوجود مجھے کمرہ نہیں دیا گیا جو تشویشناک بات ہے۔‘
بلی نے مزید بتایا کہ افغانستان میں حالات اس کے برعکس ہیں، وہاں غیرملکی سیاحوں کو سہولت دی جاتی ہے بالخصوص موجودہ حکومت نے سیاحوں کے لیے ویزا پالیسی میں بہت نرمی کی ہوئی ہے۔
صرف انڈونیشیا کے بلی اینڈک نہیں بلکہ پولینڈ کے فرنینڈ کو بھی اسی قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ فرنینڈ موٹر سائیکل پر سفر کر کے گلگلت بلتستان سے شندور کے راستے چترال میں داخل ہوئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ اپریل 2024 میں ملاکنڈ کی جانب سفر کر رہے تھے کہ انہیں جگہ جگہ روکا گیا اور سفری دستاویزات دکھانے کا کہا گیا۔ سوات کے انٹری پوائنٹس پر مجھے دو سے تین گھنٹے روک کر تفتیش کی گئی۔
’ہمیں سکیورٹی خدشات کا اندازہ ہے مگر سیاحوں کے لیے کچھ مقامات مختص ہونے چاہییں کہ وہ ایک ہی بار اپنی شناخت کروا سکیں تاکہ رجسٹریشن کا عمل جلدی مکمل ہو اور سیاحوں کو بھی آسانی ہو۔‘
فرنینڈ نے شکوہ کیا کہ پولیس اور انتظامیہ کی بلا ضرورت روک ٹوک کی وجہ سے انہیں اپنا سفر مختصر کر کے لاہور جانا پڑا۔

این او سی کی شرط سے سیاحت متاثر

ٹور آپریٹر عمران شاہ گذشتہ 20 برسوں سے غیرملکی سیاحوں کے ساتھ منسلک ہیں۔ انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پولیس اور انتظامیہ کی پابندیوں کی وجہ سے سیاحت کا شعبہ بہت متاثر ہوا ہے۔ غیرملکی سیاح سیاحتی ویزے پر مختصر ایام کے لیے آتے ہیں مگر یہاں اجازت اور این او سی کے جھنجھٹ میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔‘
انہوں نے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ بیرون ملک سے کچھ سیاح ملاکنڈ جا رہے تھے کہ انہیں چکدرہ کے مقام پر روک کر واپس بھیج دیا گیا حالانکہ سفارتی دستاویزات اور سفر کا اجازت نامہ ان کے پاس موجود تھا مگر ان کی ایک نہ سنی گئی۔

ٹور آپریٹر عمران شاہ کے مطابق ’پولیس اور انتظامیہ کی پابندیوں کی وجہ سے سیاحت کا شعبہ بہت متاثر ہوا ہے۔‘ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی ایکس)

عمران شاہ کا کہنا تھا کہ متعلقہ انتظامیہ کے ایسے اقدامات سے کتنا برا اثر پڑتا ہے اس کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا۔
’آج کل سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اگر کسی غیرملکی سیاح کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو وہ اسی وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہو جاتا ہے جس پر لاکھوں دوسرے افراد بھی تبصرہ کرتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام سٹیک ہولڈرز میں کوآرڈنیشن کو بہتر بنائے تاکہ ایک دفعہ این او سی کا اجرا ہو اور کسی جگہ روک ٹوک بھی نہ ہو۔

صرف خیبر پختونخوا میں پابندیاں کیوں؟

ٹور گائیڈ جلیل احمد کے مطابق غیرملکی سیاحوں کو پاکستان آنے میں کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا مگر پاکستان پہنچتے ہی انہیں مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔
’سب سے پہلے ایئرپورٹ پر قانون نافذ کرنے والے ادارے ان سے پوچھ گچھ شروع کر دیتے ہیں حالانکہ سیاحوں کے پاس تمام ضروری سفری دستاویزات موجود ہوتی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بیشتر غیرملکی سیاح اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترتے ہیں یا پھر لاہور سے آتے ہیں، ان میں سے 80 فیصد شمالی علاقوں کی سیر کرنے جاتے ہیں جن میں گلگت بلتستان سرفہرست ہے۔ اس کے بعد چترال، سوات اور دیگر پہاڑی علاقوں کے علاوہ پشاورکے اندرون شہر کو دیکھنا سیاحوں کے ٹور پلان میں شامل ہوتا ہے۔
ٹور گائیڈ نے بتایا کہ اسلام آباد میں غیرملکی سیاحوں کو تنگ نہیں کیا جاتا مگر خیبر پختونخوا پہنچتے ہی غیرملکی سیاحوں کی مشکلات شروع ہو جاتی ہیں۔
’پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے ہر ہوٹل میں رات گزارنے کے لیے این او سی کا مطالبہ کیا جاتا ہے جبکہ کچھ علاقوں میں نقل و حرکت کے لیے الگ سے پولیس سے اجازت طلب کرنی پڑتی ہے۔‘

ٹور گائیڈ جلیل احمد کے مطابق غیرملکی سیاحوں کے ایئرپورٹ پر اترتے ہی قانون نافذ کرنے والے ادارے ان سے پوچھ گچھ شروع کر دیتے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ محکمہ سیاحت اور محکمہ داخلہ کی جانب سے سیاحتی ویزے پر آنے والے سیاحوں کے لیے ایسی کوئی ہدایت نہیں دی گئی ہے لیکن اس کے باوجود کچھ ہوٹلوں میں غیرملکیوں کو رات گزارنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔
جلیل احمد نے مزید کہا کہ مقامی پولیس کی جانب سے بےجا تنگ کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے غیرملکی سیاح پریشان ہو جاتے ہیں، اور اکثر اوقات پشاور میں رات گزارے بغیر واپس اسلام آباد یا لاہور چلے جاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ چترال میں کوہ پیماؤں کو اجازت نہیں ملتی، اسی طرح بروغل وادی کی جھیل تک رسائی کے لیے مختلف اداروں سے این او سی لینا پڑتا ہے جو کہ کسی امتحان سے کم نہیں۔
’خیبر پختونخوا کے برعکس گلگت بلتستان میں سیر و تفریح کے لیے سیاحوں کو بہت سہولیات دی جاتی ہیں جس کی وجہ سے وہاں سیاحوں کا رش بھی زیادہ ہے۔‘

خیبر پختونخوا ٹورازم اتھارٹی کا مؤقف

خیبر پختونخوا کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی کے ترجمان سعد بن اویس نے اردو نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اتھارٹی کو غیر ملکی سیاحوں کی شکایات موصول ہوئیں جس کے بعد ان کے لیے فوکل پرسن مقرر کیا گیا ہے جو ان سیاحوں سے رابطے میں رہ کر ان کی سہولیات کو یقینی بنائے گا۔
ترجمان ٹورازم اتھارٹی کے مطابق غیرملکی سیاحوں کی سکیورٹی کے لیے ایس او پیز پر عمل کرنا پڑتا ہے تاہم انتظامیہ کی کوشش ہے کہ اس عمل کو پیچیدہ نہ کرے۔ 
ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں سیاحوں کی سہولت کے لیے ٹورازم پولیس کی تعداد میں اضافہ کیا جا رہا ہے جبکہ ٹورسٹ فیسلیٹیشن ڈیسک کو ڈیجیٹلائز کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں تاکہ سیاحوں کی بروقت مدد اور رہنمائی ہو سکے۔

گلگلت بلتستان حکومت کے ترجمان کے مطابق ٹورسٹ ویزے پر آنے والے سیاح کے لیے این او سی کی ضرورت نہیں ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

گلگت بلتستان میں غیرملکی سیاحوں کے لیے اقدامات

پاکستان آنے والے بیشتر غیرملکی سیاح گلگت بلتستان کی خوبصورت وادیوں کی سیر کو ضرور جاتے ہیں۔ اسی لیے ان سیاحوں کی بڑی تعداد ہنزہ، گلگت، نگر وادی، سکردو، راکا پوشی بیس کیمپ اور فیری میڈوز میں موجود رہتی ہے۔
گلگلت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض اللہ کے مطابق ٹورسٹ ویزے پر آنے والے سیاح کے لیے این او سی کی ضرورت نہیں ہے تاہم صرف داخلی پوائنٹ پر ویزا دیکھا کر شناخت ظاہر کروائی جاتی ہے تاکہ پولیس اور انتظامیہ کو پتہ لگ سکے، وہ بھی خدانخواستہ کسی ناخوشگوار واقعہ کے لیے معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اکثر غیرملکی سیاح کیمپنگ کرتے ہیں اور ان کے لیے کسی قسم کی پابندی یا روک ٹوک نہیں ہے بلکہ انتظامیہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ سیاحوں کے لیے آسانی پیدا کرے۔

2024 میں خیبر پختونخوا میں کتنے غیرملکی سیاح آئے؟

خیبر پختونخوا محکمہ سیاحت کے مطابق رواں سال 2024 میں جنوری سے 18 اگست تک پانچ ہزار 94 غیرملکی سیاح خیبر پختونخوا کی سیر کے لیے آئے۔ ان میں سب سے زیادہ دو ہزار 323 سیاحوں نے سوات مالم جبہ کا رخ کیا جبکہ دوسرے نمبر پر لوئر چترال کا ضلع رہا جہاں ایک ہزار 203 غیرملکی سیاح گئے۔ اسی طرح اپر چترال 574 ، ناران 506 اور اپر دیر میں 317 سیاح آئے۔

شیئر: