Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیانات ’غیردوستانہ عمل‘، حسینہ واجد کو انڈیا میں چُپ رہنا ہو گا: محمد یونس

محمد یونس کا کہنا تھا کہ ’یہ ہمارے لیے یا انڈیا کے لیے اچھا نہیں ہے۔ اس حوالے سے بے چینی ہے۔‘
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے کہا ہے کہ حسینہ واجد کی جانب سے انڈیا میں بیٹھ کر سیاسی بیانات دینا ’غیر دوستانہ عمل‘ ہے۔
انڈین نیوز ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں محمد یونس کا کہنا تھا کہ ’حسینہ واجد کو بنگلہ دیش اور انڈیا دونوں کو پریشانی سے بچانے کے لیے اس وقت تک خاموش رہنا چاہیے جب تک بنگلہ دیش ان کی ملک بدری کا مطالبہ نہ کریں۔‘
’اگر انڈیا حسینہ واجد کو ملک میں رکھنا چاہتا ہے تو اس کی شرط ہے کہ بنگلہ دیش کی جانب سے ان کی ملک بدری کے مطالبہ تک ان کو خاموش رہنا ہوگا۔‘

محمد یونس کا کہنا تھا کہ وہ انڈیا کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں تاہم ’انڈیا کو بھی اس بیانیے سے آگے جانا ہوگا کہ عوامی لیگ کے سوا تمام پارٹیاں اسلامسٹ ہیں اور شیخ حسینہ واجد کے بغیر بنگلہ دیش افغانستان بن جائے گا۔‘

’انڈیا میں بیٹھ کر وہ جو موقف اپنا رہی ہیں اس سے کوئی بھی خوش نہیں کیونکہ ہم چاہتے ہیں ان کو واپس بنگلہ دیش بھیجا جائے تاکہ ان پر مقدمہ چلایا جاسکے۔ وہ انڈیا میں ہیں اور کئی مرتبہ وہ بیانات دے رہی ہیں جو کہ  ایک مسئلہ ہے۔ اگر وہ خاموش ریتیں تو ہم انہیں بھول چکے ہوتے، لوگ بھول چکے ہوتے اور وہ اپنی دنیا میں ہوتیں۔ لیکن انڈیا میں بیٹھ کر وہ بات کر رہی ہیں اور ہدایات دے رہی ہیں جس کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔‘
محد یونس حسینہ واجد کے 13 اگست کے بیان کی طرف اشارہ کر رہے تھے جس میں انہوں نے حالیہ ’دہشت گردی‘ اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات میں ملوث افراد کو سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
محمد یونس کا کہنا تھا کہ ’یہ ہمارے لیے یا انڈیا کے لیے اچھا نہیں ہے۔ اس حوالے سے بے چینی ہے۔‘
جب محمد یونس سے پوچھا گیا کہ کیا انڈیا نے سرکاری سطح پر باضابطہ طور پر اپنا موقف انڈیا تک پہنچایا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش کے موقف کو زبانی طور پر پہنچایا گیا ہے اور سختی سے کہا گیا ہے کہ ان کو خاموش رہنا چاہیے۔
’ہر کوئی اس کو سمجھتا ہے۔ ہم نے بہت سختی سے کہا ہے کہ ان کو خاموش رہنا چاہیے۔ یہ ہمارے ساتھ ایک غیر دوستانہ رویہ ہے۔ ان کو وہاں پناہ دی گئی اور وہ وہاں بیٹھ کر مہم چلا رہی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ معمول کے دورے پر وہاں گئی ہیں بلکہ وہ عوامی بیداری کی مہم کے بعد بھاگ کر وہاں  گئی ہیں۔‘

انڈیا کی جانب سے بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر حالیہ حملوں کے حوالے سے تشویش کے بارے میں محمد یونس کا کہنا تھا یہ ایک بہانہ ہے۔

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عبوری حکومت بنگلہ دیش کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کے خلاف انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے اور انصاف کا تقاضہ ہے کہ ان (حسینہ واجد) کو واپس لایا جائے۔
’جی، ان کو واپس لانا ہوگا ورنہ بنگلہ دیش کے لوگ آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔ جس طرح کے مظالم انہوں نے کیے ہیں، ان پر یہاں سب کے سامنے مقدمہ چلنا چاہیے۔‘
انڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے محمد یونس کا کہنا تھا کہ انڈیا کو اس بیانیے کو ترک کرنا ہوگا کہ صرف حسنیہ واجد کی قیادت بنگلہ دیش میں استحکام کو یقینی بناسکتی ہے۔
’انڈیا کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ یہ ہے کہ وہ اس بیانیے سے باہر آئیں۔ یہ بیانیہ کہ ہر کوئی اسلامسٹ ہے، بی این پی اسلامسٹ ہے اور عوامی لیگ کے علاہ سب اسلامسٹ ہیں اور ملک کو افغانستان بنائیں گے درست نہیں۔ اور بنگلہ دیش صرف اس صورت میں محفوظ ہاتھوں میں ہے جب اقتدار شیخ حسینہ واجد کے پاس ہو۔ انڈیا اس بنانیے کی سحر میں مبتلا ہے۔ انڈیا کو اس بیانیے سے باہر آنا ہوگا۔ بنگلہ دیش کسی اور ملک ہی کی طرح انڈیا کا ایک پڑوسی ہے۔‘
انڈیا کی جانب سے بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر حالیہ حملوں کے حوالے سے تشویش کے بارے میں محمد یونس کا کہنا تھا یہ ایک بہانہ ہے۔
’بنگلہ دیش میں اقلیتوں کی حالت کو اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کرنا بس ایک بہانہ ہے۔‘

رواں سال 5 اگست کو طلبہ تحریک کے نتیجے میں حسینہ واجد کی حکومت ختم ہوئی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر حملے ہوئے تھے اور ان کی جائیدادوں کو نقصان پننچایا گیا تھا۔
انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے 15 اگست کی تقریر میں کہا تھا کہ امید ہے کہ بنگلہ دیش میں حالات جلد معمول پر آئیں گے اور انڈیا کے ایک ارب 40 کروڑ لوگ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے تحفظ کے حوالے تشویش ہے۔
نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات کا کہنا ہے کہ انڈیا اور بنگلہ دیش کو اپنے حالیہ کشیدہ تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس تعلقات بہتر کرنے کے حوالے سے کیا اقدامات کیے جائیں تو محمد یونس کا کہنا تھا کہ ’ہمیں مل کر تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے کام کی ضرورت ہے جو کہ اس وقت بہت نچلے سطح پر اگٓئے ہیں۔‘

شیئر: