Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کا ملٹری ٹرائل زیرِغور ہے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ نے وضاحت طلب کر لی

مسلم لیگ ن کے کچھ رہنماؤں کی جانب سے عمران خان کے ملٹری ٹرائل کے مطالبات بھی سامنے آئے تھے (فائل فوٹو: روئٹرز)
اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہونے یا نہ ہونے سے متعلق وضاحت طلب کر لی ہے۔
جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج میاں گل حسن اورنگزیب نے عمران خان کے ممکنہ ملٹری ٹرائل کے خلاف پی ٹی آئی کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے پوچھا ’بتائیں کیا عمران خان کے ملٹری ٹرائل کا معاملہ زیرِ غور ہے؟‘
جج میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا ‘اگر ایسا کچھ نہ ہوا تو یہ درخواست غیرمؤثر ہو جائے گی بصورت دیگر ہم کیس سن کر فیصلہ کریں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ‘اگر ایسا کچھ نہ ہوا تو یہ درخواست غیرمؤثر ہو جائے گی بصورت دیگر ہم کیس سن کر فیصلہ کریں گے۔‘
سماعت کے دوران جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ ’وزراء کی طرف سے بانی پی ٹی آئی کے ملٹری ٹرائل کی دھمکی دی گئی ہے۔ بانی پی ٹی آئی ایک سویلین ہیں۔ سویلین کا ملٹری ٹرائل درخواست گزار اور عدالت کے لیے باعثِ فکر ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’درخواست گزار کے وکیل کہتے ہیں کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے بیان آیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو فیڈریشن کی طرف سے واضح موقف آنا چاہیے۔ آج ہم کہہ دیں کہ ابھی کچھ نہیں کل آپ ملٹری ٹرائل کا آرڈر لے آئیں پھر کیا ہو گا؟ وفاقی حکومت سے ہدایات لے کر پیر کو عدالت کو واضح آگاہ کریں۔‘
اس کے بعد عدالت نے حکومت سے جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 16 ستمبر تک ملتوی کر دی ہے۔

عدالت نے حکومت سے جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 16 ستمبر تک ملتوی کر دی ہے (فائل فوٹو: اے پی پی)

واضح رہے کہ پانچ ستمبر کو پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ترجمان کی پریس کانفرنس کے دوران پوچھے گئے ایک سوال کے بعد عمران خان کے ممکنہ ملٹری ٹرائل پر نئی بحث کا آغاز ہوا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر سے سوال کیا گیا کہ جیسے لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی آگے بڑھ رہی ہے تو پی ٹی آئی رہنماؤں کی طرف سے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ عمران خان کو فوجی تحویل میں لیا جا سکتا ہے، یا ان کے خلاف بھی ملٹری ایکٹ کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے؟
انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ کیس عدالت میں ہے، اور آپ کا سوال مفروضے پر مبنی (ہائپوتھیٹیکل) بھی ہے، لیکن میں آپ کو یہ ضرور کہوں گا کہ فوجی قانون کے مطابق کوئی بھی شخص کسی بھی فرد کو یا افراد کو جو آرمی ایکٹ کے تابع ہوں ان کو اپنے ذاتی یا سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرے اور اس کے ثبوت و شواہد موجود ہوں تو قانون اپنا راستہ بنا سکتا ہے۔‘
اس سے قبل بھی ٹی وی کے سیاسی ٹاک شوز میں حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کے کچھ رہنماؤں کی جانب سے عمران خان کے ملٹری ٹرائل کے مطالبات بھی سامنے آئے تھے۔

شیئر: