Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پاکستانی سیاست کی گاڑی مولانا کے دھکے کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی‘

جے یو آئی کی اسمبلی میں 8 جبکہ سینیٹ میں 5 نشستیں ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
ایک زمانہ تھا جب پاکستان کی سیاست میں کوئی بھی اہم پیش رفت گجرات کے سینیئر سیاستدان چوہدری شجاعت کے مرہون منت ہوتی تھی۔ کوئی جوڑ توڑ کرنا ہو، حکومت بنانی یا گرانی ہو، کوئی قانون منظور کروانا ہو تو چوہدری شجاعت متحرک ہوتے تھے اور مطلوبہ نتائج مل جاتے تھے۔
پھر جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے اتنی مناسب تعداد میں نشستیں حاصل کرنا شروع کر دیں کہ وہ ایوانوں میں ایک فیصلہ کن قوت بن کر ابھرے اور اہم مواقع پر اپنے سیاسی وزن کے حساب سے اہمیت اور فوائد دونوں حاصل کرتے رہے۔
یہی وجہ ہے کہ وہ 2002 میں پرویز مشرف کے زیر سایہ بننے والی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بنے تو اس کے بعد آنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت، پھر نواز لیگ کی حکومت اور 2022 میں بننے والی پی ڈی ایم کی حکومت کا اہم حصہ رہے۔
بلکہ درحقیقت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور پی ڈی ایم حکومت کی تشکیل میں کامیابی کا سہرا بھی انہی کے سر جاتا ہے۔  
رواں سال 8 فروری کو انتخابات ہوئے تو مولانا فضل الرحمان مطلوبہ تعداد میں نشستیں حاصل نہیں کر سکے تھے۔ انہوں نے اپنے روایتی اتحادیوں مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ حکومت نہ بنائیں کیونکہ ان کے خیال میں ان سے زیادہ نشستیں حریف جماعت تحریک انصاف کے پاس تھیں۔
تاہم مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے مل کر حکومت بنا لینے کے بعد بظاہر یوں لگ رہا تھا کہ اب مولانا فضل الرحمان حکومتی سیاست سے علیحدہ ہو کر کسی حد تک پس منظر میں رہیں گے۔
لیکن حکومت کی طرف سے حالیہ آئینی ترمیم لانے کے فیصلے کے بعد ان کی پاکستانی سیاست میں اہمیت ایک مرتبہ پھر بڑھ گئی اور وہ پھر سے سیاسی سرگرمیوں کا محور بن گئے۔

مولانا فضل الرحمان 2022 کی پی ڈی ایم حکومت کا اہم حصہ رہے۔ فوٹو: اے ایف پی

حکومت کو کیونکہ آئینی ترمیم منظور کروانے کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے، جس کا مطلب ہے کہ انہیں قومی اسمبلی میں 224 اور سینیٹ میں 64 اراکین کی حمایت درکار ہے اور مولانا فضل الرحمان اپنے 8 اراکین اسمبلی اور 5 سینیٹرز کے ساتھ ترپ کا پتہ ثابت ہو رہے ہیں۔
حکومت ان کی حمایت کے بغیر یہ آئینی ترمیم منظور نہیں کروا سکتی اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں سے صدر آصف زرداری سے وزیراعظم شہباز شریف تک حکومتی اتحاد کا ہر اہم شخص مولانا کے گھر کے چکر لگا رہا ہے۔
ایسی صورتحال میں اپوزیشن جماعت تحریک انصاف کی بھی کوشش ہے کہ مولانا کم از کم اس آئینی ترمیم پر حکومت کا ساتھ نہ دیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ یہ ترمیم منظور ہونے کی صورت میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی ممکنہ توسیع اور سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد میں اضافہ سیاسی طور پر ان کے حق میں نہیں ہو گا۔
اس لیے وہ بھی بار بار مولانا سے خصوصی ملاقاتیں کر رہے ہیں تا کہ ان کو حکومت کی حمایت سے روکیں۔ حکومت اور اپوزیشن کی مولانا فضل الرحمان کی حمایت حاصل کرنے کی اس بے چینی نے انہیں ایک مرتبہ پھر پاکستانی سیاست کی فیصلہ کن شخصیت بنا دیا ہے اور اب مستقبل قریب کے سیاسی ماحول کی کنجی ان کے ہاتھ آ گئی ہے۔
اور تو اور پاکستان کے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی جن کی عوام پاکستان پارٹی ابھی پارلیمینٹ میں موجود بھی نہیں ہے، انہوں نے بھی گذشتہ رات مولانا فضل الرحمان کے گھر جا کر موجودہ سیاسی صورتحال پر ان سے تبادلہ خیال کیا ہے۔
سینیئر صحافی نصرت جاوید نے اس آئینی ترمیم کے تناظر میں مولانا کو ملنے والی اہمیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’اب چلے گا مولانا فضل الرحمان فارمولا۔ نہ قاضی فارمولا نہ منصور فارمولا۔‘

آئینی ترمیم کے لیے مولانا فضل الرحمان کی حمایت کی ضرورت ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

کئی روز کی مشاورت اور ملاقاتوں کے بعد بھی مولانا فضل الرحمان نے حکومت کی حمایت کا اعلان نہیں کیا اور اتوار کی شب ہونے والی پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی میں انہوں نے واضح کر دیا کہ یہ ترمیم عجلت میں نہیں ہو سکتی جس کے بعد حکومت کو اپنی پیش قدمی روکنا پڑی۔
اس کے بعد مسلم لیگ نواز کے سینیئر رہنما اور وزیر دفاع خواجہ آصف کو اعتراف کرنا پڑا کہ ’مولانا فضل الرحمان کی حمایت نہ ملنے کی وجہ سے حکومت کے نمبر پورے نہیں ہو سکے۔‘
دوسری طرف سوشل میڈیا تبصروں میں بھی مولانا فضل الرحمان چھائے ہوئے ہیں اور صارفین دلچسپ تبصروں میں ان کو پاکستانی سیاست کا ایک ناگزیر حصہ قرار دے رہے ہیں۔
مبصرین کے مطابق پاکستانی سیاست کی کوئی بھی گاڑی مولانا فضل الرحمان کے دھکے کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔  

شیئر: