نئی عدالت کے قیام سمیت مجوزہ آئینی ترمیمی پیکج میں کیا کچھ ہے؟
پیر 16 ستمبر 2024 6:35
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
آئینی ترمیمی بل آج قومی اسمبلی میں پیش ہونے کا امکان ہے۔ (فائل فوٹو)
پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے مجوزہ آئینی پیکج، جسے عدالتی اصلاحات پیکج کا نام دیا جا رہا ہے، کی تفصیلات منظر عام پر آ چکی ہیں۔
اس پیکج میں آئینی عدالت کے قیام، اس کے دائرہ اختیار کے تعین، آرمی ایکٹ میں ترامیم کو آئینی تحفظ فراہم کرنے، ججوں کی تقرری کے طریقہ کار اور آئین کے آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کی تجاویز شامل ہیں۔
اردو نیوز کو دستیاب مسودے کے مطابق مجموعی طور پر 40 سے زائد ترامیم پیش کی گئی ہیں جن میں ججز کے متعلق اہم تبدیلیاں اور آرمی ایکٹ کو آئینی تحفظ دینے کی تجاویز شامل ہیں۔
خاص طور پر، آئین کے آرٹیکل 63 اے میں مجوزہ ترمیم یہ کہتی ہے کہ اگر کوئی رکن پارلیمانی پارٹی کی ہدایت کے برخلاف ووٹ دے گا تو اس کی رکنیت ختم ہو جائے گی، لیکن اس کا ووٹ شمار کیا جائے گا۔ یہ ایک بڑی تبدیلی ہے جو 2022 میں دیے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے کے برعکس ہے، جس میں ایسے ووٹ کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ، آئین کے آرٹیکل 17 میں ترمیم کی تجویز ہے جس کے تحت سپریم کورٹ کی بجائے ایک وفاقی آئینی عدالت تشکیل دی جائے گی۔ آئین کے آرٹیکل 175 اے میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، جس میں ججز کی تقرری کا نیا طریقہ کار شامل ہے۔
مجوزہ بل کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی تقرری کے لیے ایک کمیٹی، جو قومی اسمبلی کے آٹھ ارکان پر مشتمل ہو گی، تین سینیئر ججز میں سے ایک نام وزیراعظم کو بھیجے گی۔ یہ کمیٹی تمام پارلیمانی جماعتوں کی نمائندگی کے تناسب سے تشکیل دی جائے گی، اور چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے سات دن قبل اپنی سفارشات فراہم کرنے کی پابند ہو گی تاکہ بروقت تقرری ہو سکے۔
بل میں یہ بھی ترمیم بھی تجویز کی گئی ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال ہو گی، جبکہ سپریم کورٹ کے ججز کو وفاقی آئینی عدالت میں تین سال کے لیے تعینات کیا جائے گا۔ ان ترامیم سے ججز کے تبادلوں اور تقرریوں کے نظام میں نمایاں تبدیلیاں آئیں گی۔
ہائی کورٹس کے سوموٹو اختیار کو ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جس سے ہائی کورٹس کے اختیارات میں کمی آئے گی۔ ہائی کورٹ کے ججز کے تبادلے کے نظام کو بھی تبدیل کرنے کی تجویز شامل ہے تاکہ عدالتی نظام میں مزید نظم و ضبط اور شفافیت لائی جا سکے۔
آرمی ایکٹ میں کی گئی ترامیم کو آئینی تحفظ دینے کے لیے بھی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ مجوزہ بل کے تحت سروسز چیف کی تقرری اور ایکسٹینشن کے حوالے سے آرمی ایکٹ میں کی گئی ترامیم کو آئینی تحفظ فراہم کیا جائے گا، اور ان میں کسی بھی قسم کی تبدیلی صرف آئین میں ترمیم کے ذریعے ہی ممکن ہو گی۔ اس سے آرمی ایکٹ کو مزید مستحکم اور محفوظ بنایا جائے گا۔
خیال رہے کہ اس آئینی ترمیم پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلاف موجود ہے جسے دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔