Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانوی شہریت کے حصول کی مدت کم کرنے پر زور، سب سے زیادہ فائدہ پاکستانیوں کو ہوگا

مختلف تنظیموں نے برطانیہ کی تارکین وطن کو شہریت دینے کی سکیم کو نسل پرستانہ قرار دیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
برطانیہ پر ملک میں مستقل سکونت اختیار کرنے والوں کے لیے امیگریشن کا 10 سال کا ویزا رُوٹ (سکیم) کو ختم کرنے اور امیگریشن کی تمام سکمیوں کی مدت کو زیادہ سے زیادہ پانچ سال تک محدود کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
برطانوی اخبار ’دا گارڈین‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق مخلف تنظیموں نے برطانیہ کے تارکین وطن کو شہریت دینے کی طویل اور مہنگی سکیم کو نسل پرستانہ قرار دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق تجزیے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ’10 سالہ‘ سکیم کے تحت مستقل سکونت کے خواہش مندوں، جن کا خیال ہے کہ انہیں اس سکیم کے تحت درخواست دینے پر مجبور کیا گیا، کی غالب اکثریت غیر سفید فام ہے۔
امیگریشن کی 10 سال کی سکیم کا لاکھوں افراد اس لیے انتخاب کرتے ہیں کیونکہ وہ کم آمدنی اور پیشہ ورانہ قابلیت میں کمی کی وجہ سے دوسری کیٹیگریز کے لیے کوالیفائی نہیں کرتے۔
ان میں سے کئی ایک صفائی یا گھریلو ملازمتیں کرتے ہیں۔ دیگر سکیموں کے تحت برطانیہ کی شہریت حاصل کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ پانچ برس درکار ہوتے ہیں۔
رامفل نامی ادارے کی جانب سے فریڈم آف انفارمیشن کے تحت حاصل کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 10 برس کی سکیم کے تحت برطانیہ میں سکونت کے خواہش مندوں کی تعداد دو لاکھ 18 ہزار 110 ہے۔
ہوم آفس کے اعداد و شمار کے مطابق 10 سال کی سکیم کے لیے اپلائی کرنے پر مجبور ہونے والے 10 ممالک میں سے نو ممالک کے شہریوں کی غالب اکثریت غیر سفید فام ہے۔
10 سال کی سکیم کے تحت شہریت کے لیے اپلائی کرنے والوں میں سے 86 فیصد افراد ایشیائی یا افریقی ہیں جب کہ صرف 6 فیصد کا تعلق یورپ سے ہے۔
اس سکیم کے تحت درخواست دینے والے زیادہ تر افراد کا تعلق پاکستان، نائجیریا، انڈیا، گھانا اور بنگلہ دیش سے ہے۔
10 سال کی سکیم کے تحت شہریت کے حصول کے خواہش مندوں کو ہر 30 ماہ کے بعد ہوم آفس کے پاس موجود اپنی درخواست کی تجدید کرانا پڑتی ہے، جس کا مطلب ہے 10 سال میں چار مرتبہ تجدید کرانا ہے۔
ایک تجدید کی فیس پانچ ہزار 95 ڈالرز ہے۔ ہوم آفس کے پاس اختیار ہے کہ وہ تجدید کی فیس معاف کرے لیکن اکثر درخواستوں کو رد کردیا گیا۔

10 سال کی سکیم کے تحت شہریت کے لیے اپلائی کرنے والوں میں سے 86 فیصد ایشیائی یا افریقی ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

گریٹر مانچسٹر امیگریشن ایڈ یونٹ، تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ فار پبلک پالیسی اور خیراتی ادارے پریکزس کی رپورٹ کے مطابق درخواست یا تجدید کی فیس کے حصول کے لیے تارکین وطن عموماً قرض لیتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق فیس یا درخواست کی تجدید کی فیس کی ادائیگی کے لیے حاصل کیے گئے قرضوں کی وجہ سے لوگ طویل عرصے تک مقروض رہتے ہیں اور زندگی کی بنیادی ضروریات کے لیے ادائیگی بھی ان کے لیے مشکل ہو جاتی ہے۔
جی ایم آئی اے یو کے ترجمان کے مطابق ’یہ اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ 10 سال کی سکیم کے تحت اپلائی کرنے والے افراد پہلے سے جانتے ہیں کہ یہ ایک نسل پرستانہ پالیسی ہے۔ لوگوں کو قرضوں میں جکڑا جاتا ہے اور ان کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ یا تو ہزاروں پاؤنڈ ادا کرکے اپنا امیگریشن سٹیس بحال رکھیں یا اپنے خاندان والوں کو کھلائیں اور سردی سے بچائیں۔‘
’کسی کے لیے مستقل سکونت حاصل کرنے کے لیے 10 سال کا انتظار بہت طویل عرصہ ہے۔ اس رُوٹ (سکیم) کو ختم کیا جانا چاہیے۔ اور یہ ایک اچھا آغاز ہوسکتا ہے اگر تمام سکیموں کی زیادہ سے زیادہ مدت کو 5 سال تک محدود کیا جائے۔‘
رامفل کے نِک بیلیز کا کہنا ہے کہ ’10 سال کی سکیم ایک مخالفانہ ماحول کی یادگار ہے۔ کنزرویٹیوز کی دیگر دوسری پالیسیوں کی طرح اس کا بھی اصل مقصد واضح ہے جس کے ذریعے اکثر جنوبی ایشیائی اور افریقی باشندوں (شہریت کے حصول کے لیے) کو طویل اور مشکل مرحلے سے گزرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔‘

شیئر: