سرکار نے عدلیہ سے یا ججز نے سرکار کے ساتھ ٹھان رکھی ہے، یہ کوئی خبر نہیں رہی، سامنے کی بات ہے۔ ججز کے اختلافی نوٹ، ججز کا اکثریتی فیصلہ اور پھر جسٹس منصور علی شاہ کا تین صفحات پر مبنی خط۔
اب تو کہانی ڈھکی چھپی نہیں رہی، لیکن اس تناؤ سے برآمد کیا ہوگا؟ خیر کا پہلو تو بہر طور دکھائی نہیں دے رہا۔ بلاول بھٹو البتہ وفاقی آئینی عدالت کے قیام کا علم لیے بارز سے خطاب کر رہے ہیں، کہہ رہے ہیں کہ ججز اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام ہیں، آئینی عدالت ضروری ہے مجبوری ہے۔
مزید پڑھیں
-
آگے کنواں پیچھے کھائی مگر کس کے لیے؟ اجمل جامی کا کالمNode ID: 872736
-
کوئی بے بسی سی بے بسی ہے، اجمل جامی کا کالمNode ID: 875526
-
ڈوبتے ڈھاکہ نے پنڈی ڈبو دیا؟ اجمل جامی کا کالمNode ID: 877978
کچھ حکومتی رہنما رات کے اندھیروں میں ڈھکے چھکے انداز میں حالات کی انتہائی تاریک منظر کشی کرتے ہوئے ایمرجنسی تک کا نام لے دیتے ہیں۔
خیال ہے کہ یہ محض دھمکی ہی معلوم ہوتی ہے کیونکہ ایسی ساکھ کے ساتھ، ترامیم پاس کروانے میں اٹھائی ہزیمت کے ساتھ، اقتصادی ابتری کے ساتھ اور بیانیے کی عدم دستیابی کے ساتھ غالباً پھر یہی ایک دھمکی باقی بچتی ہے۔
چھ ججز کے خط کے بعد سے لے کر آج تک پیدا ہوئی صورت حال کے ہنگام خاکسار کی جانکاری ہے کہ اکتوبر چڑھتے ہی کچھ استعفے بھی سامنے آسکتے ہیں۔ یہ واک اوور ہوگا، عدم اعتماد یا پھر کمزوری، وقت ہی تعین کرے گا۔
سنگجانی جلسے میں گنڈاپور سرکار کی نو بال ہوئی تو پھر وہ لاہور بارات لے کر آنے کا پلان رکھتے تھے، گنڈاپور اڈیالہ اور نظام کے بیچ ایک ربط ہیں، لہٰذا فوراً معاملہ فہمی کی جانب رجوع کیا گیا۔
یہی وجہ ہے کہ لاہور میں جلسہ تو ہوا لیکن گنڈاپور اول تو پہنچے ہی تاخیر سے اور پھر انتہائی مختصر خطاب کر کے چلتے بنے، نو مئی کے بعد لاہور میں تحریک انصاف کا جلسہ برپا ہونا بذات خود ایک بہت اہم پیش رفت تھی۔
جلسہ کیسا ہوا کیوں ہوا، یہ کہانی بے معنی ہے۔ حکومت کے ہاں البتہ جلسہ ہی موضوع بحث رہا۔ یہی جلسے کی کامیابی کے لیے کافی تھا۔
خیال ہے کہ فی الفور فریقین کے بیچ برف پگھلنے کا کوئی امکان نہیں، البتہ کہیں بنیادی نوعیت کے معاملات پر کچھ ربطِ باہمی کی شنید ہے۔
ثبوت اس امر کا اعظم سواتی کے لیے صبح جیل کھلنا، جلسہ ملتوی ہونا، نئے جلسے کا این او سی ملنا، گنڈاپور کی چائے اور پیٹیز سے تواضع ہونا، پھر لاہور جلسے کی اجازت ملنا اور گنڈاپور کا اس جلسے میں سنگجانی میں ہوئی نو بال پر مبنی تقریر سے گریز کرنا ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/September/37246/2024/asim_malik_ispr_1_0.jpg)
مزید ثبوت ان کا آج ہی پروٹوکول کے ساتھ اڈیالہ پہنچنا بھی ہے۔ اس مدعے پر جانکاری صرف اتنی ہی کافی رہے گی کہ قطرے کی صورت میں بنیادی نوعیت کا ربط بہرحال پایا جاتا ہے۔
شہباز شریف امریکہ جانے سے پہلے نواز شریف سے ملے، اطلاع ملی کہ نئے ڈی جی آئی ایس آئی کے بارے میں تبادلہ خیال ہوا اور میاں صاحب کی رائے لی گئی۔
مقتدر حلقے ایک عرصے سے اس عہدے پر تبدیلی کی تردید کر رہے تھے، مقتدرہ کے قریبی صحافتی حلقے بھی وثوق کے ساتھ تردید پر تردید نشر کر رہے تھے، لیکن اسی خاکسار نے کئی دن پہلے خبر تھی کہ تبدیلی ہو رہی ہے اور جلد ہونے کو ہے۔
وہی ہوا۔ ندیم انجم صاحب کی جگہ عاصم ملک صاحب تعینات ہوچکے۔ اطلاع ہے کہ یہ تعیناتی سپہ سالار کی چوائس ہے۔ سیاسی اور غیر سیاسی عناصر کو اس مدعے پر ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعیناتی پالیسیوں کے تسلسل کا پیغام ہے۔
چیلنجز سے بھرپور سیاسی و غیر سیاسی منظرنامہ نئے ڈی جی کا باہیں کھول کر سواگت کر رہا ہے۔ امید ہے وہ کسی پریس کانفرنس میں دکھائی نہیں دیں گے اور ادارے کی ساکھ بہتر بنانے میں مثبت کردار ادا کریں گے۔
منظرنامے میں پھر امریکی سفیر دکھائی دیتے ہیں، جو حالیہ چند ماہ کے دوران بڑے میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی کے ساتھ دو چار ملاقاتیں کر چکے ہیں۔
![](/sites/default/files/pictures/September/37246/2024/ali_amin_gandapur_wikipedia_1.jpg)