Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

علی امین گنڈا پور کی نو بال! اجمل جامی کا کالم

علی امین گنڈاپور نے مائیک سنبھالا تو کیا مریم بی بی، کیا خواجہ آصف، کیا مقتدرہ اور کیا صحافی، سبھی کو ایک لاٹھی سے ہانک دیا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
لارڈز کا تاریخی میدان تھا، پاکستان انگلینڈ کے خلاف سیریز کا چوتھا میچ کھیل رہا تھا۔ پہلی اننگز تھی، انگلینڈ کے 52 پر پانچ کھلاڑی پویلین لوٹ چکے تھے، سلمان بٹ جو نئے نئے کپتان بنے تھے، انہوں نے گیند محمد عامر کو تھمائی۔ عامر کی سوئنگ اور لائن لینتھ موضوع بحث تھی، ٹیلنٹ کے چرچے تھے، ماہرین کو عامر میں وسیم اکرم کی جھلک دکھ رہی تھی۔ نوجوان اپنا نقش جما چکا تھا۔ 
لیکن پھر کیا ہوا؟ گرومنگ کی کمی، تعلیم و تربیت کا فقدان اور راتوں رات گوجر خان سے لارڈز کی بھرپور شاموں کی رنگینیوں میں کھو جانے کا ارمان جاگ رہا تھا۔ اور یہ ارمان اسے بُکیوں کے ہاتھوں استعمال ہونے پر مجبور کر چکا تھا۔ وہ جس کی دھوم تھی، جس نے وسیم اکرم کا خلا پر کرنا تھا، جس کے سامنے پورا کیریئر پڑا تھا، وہ پھسل گیا۔ پھسلا بھی ایسا کہ جوناتھن ٹروٹ کو شارٹ گیند یوں کروائی کہ ویسٹ انڈیز کا شہرہ آفاق کمنٹریٹر مائیکل ہولڈنگ بھی بول پڑا کہ اس قدر طویل نو بال۔۔۔ واؤ۔۔۔! پھر کیا ہوا یہ الگ کہانی ہے۔
علی امین گنڈا پور کی سنگجانی مویشی منڈی کے جلسے میں کی گئی تقریر کی جھلکیاں دیکھیں تو بے ساختہ محمد عامر کی نو بال یاد آ گئی۔ 
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ محمد عامر کی نو بال سے علی امین گنڈا پور کیسے اور کیوں یاد آئے۔ بظاہر تو کوئی تعلق نہیں بنتا لیکن حضرت! ایک فٹ کی نو بال کریز پر ہو یا مائیک کے سامنے زبان و بیان کی، مماثلت تو پیدا کرے گی ناں۔
پکڑے گئے، رہا ہوئے، الیکشن جیتے، دبنگ انداز لے کر اچانک صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلٰی ٹھہرائے گئے، جیل بیٹھے خان سے اکثر معتمد خاص کے روپ میں ملتے رہے۔ پیغام رسانی تک کے معاملات بھی انہی کے ذمے تھے۔ جبھی تو اعظم سواتی ان کے کارن صبح سات بجے اڈیالہ پہنچے تھے، پھر جلسہ منسوخ ہوا، نئی تاریخ ڈلی، اور سنگجانی پر کئی ایک شرائط کے ساتھ بالآخر جلسہ ہونے دیا گیا۔ اظہر صدیق ایڈووکیٹ بتا رہے تھے کہ مجموعی طور پر ملک بھر میں 100 سے زائد بار این او سی منسوخ ہوئے۔ جلسے کی اجازت ہی نہ ملی۔ سیاسی ڈیڈلاک میں اگر کہیں تھوڑی بہت بات بنی تھی، جلسے کی اجازت کسی طور مل ہی گئی تھی تو پھر یہاں سے آگے چلنا تھا یا یہیں دوسرے فریق کو زچ کرنا تھا؟
موصوف آئے مائیک سنبھالا، کیا مریم بی بی، کیا خواجہ آصف، کیا مقتدرہ اور کیا صحافی بے چارے۔ سبھی کو ایک لاٹھی سے ہانک دیا۔ یاد رہے کہ یہ زبان و بیان کسی عام جیالے، متوالے یا کپتان کے دیوانے کا نہیں تھا، وزیراعلٰی خیبر پختونخوا جناب علی امین گنڈا پور کا تھا۔  میجر (ر) امین گنڈا پور جو مشرف دور کی کابینہ میں رہے، ان کے بیٹے، گومل یونیورسٹی سے بے اے آنرز کے ڈگری ہولڈر، علی امین گنڈا پور۔ یعنی ایک لمحے کو یوں لگا کہ میں کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ رہا ہوں۔ یہ تقریر، یہ زبان و بیان، یہ انداز، یہ لعن طعن، پی ٹی آئی اور جیل میں بیٹھے کپتان کے لیے سود مند ثابت ہوگا یا انتہائی ہانیکارک؟ جواب ڈھونڈنا ہو تو پیر کو ٹی وی سکرینوں پر برپا ردعمل دیکھ لیں۔ لاہور پریس کے صدر ارشد انصاری کا بیان دیکھ لیں یا سرکار کے ہاتھ لگا تنقید کا نیا پہلو دیکھ لیں۔ بظاہر متعدل مزاج تجزیہ نگاروں کی بے بسی دیکھ لیں یا پھر بیرسٹر گوہر کو مجبور ہو کر غیرمشروط معافی مانگتا دیکھ لیں۔ جا بجا ان کی تقریر کے تبرکات بکھرے پڑے ہیں جسے دستیاب پی ٹی آئی قیادت اب سمیٹنے میں مصروف ہے۔

جا بجا علی امین گنڈاپور کی تقریر کے تبرکات بکھرے پڑے ہیں جسے دستیاب پی ٹی آئی قیادت اب سمیٹنے میں مصروف ہے۔ (فائل فوٹو: ایکس)

علی امین گنڈا پور نے خواجہ آصف کو للکارا کہ ان کے والد محترم بھی عمران خان کا ملٹری ٹرائل نہیں کر سکتے، مزید کہا کہ ’اگلا جلسہ لاہور میں ہو گا، مریم میں آ رہا ہوں، پنگا مت لینا، وہ حال کریں گے کہ بنگلہ دیش بھول جاؤ گے، ہمارے پٹھانوں کا اصول ہے ڈھول بھی لاتے ہیں اور بارات بھی۔  تم آئین کو نہیں مانتے تو ہم بھی آئین کو نہیں مانتے۔ اب دما دم مست قلندر ہو گا۔ کال کا انتظار کرو۔‘ پھر صحافیوں کو کہا کہ ’تم لوگ جو ہمارے خلاف کیمپئن کر رہے ہو سمجھتے ہو کہ ہمیں بلیک میل کر لو گے۔‘ خواتین صحافیوں بارے زبان و بیان کا تو کیا ذکر۔ معلوم نہیں کن حریف صحافیوں کو ننگا کرنے کی دھمکیاں دے رہے تھے، مزید فرمایا کہ ’یہ  صحافی نہیں لفافی ہیں، مینوں نوٹ وکھا میرا موڈ بنے، یہ صحافی تو ٹٹو ہیں۔‘ وغیرہ وغیرہ۔
گویا علی امین کہہ رہے ہوں کہ
دو ہی چیزیں اس دھرتی میں دیکھنے والی ہیں
مٹی کی سندرتا دیکھو اور مجھے دیکھو!
آپ کو کیا دیکھنا صاحب، آپ کے دیکھنے کو آپ کے وچار کافی ہیں۔ آپ کے سیاسی مخالفین پر نشتر اپنی جگہ، ان پر تبصرہ کیا کیجیے کہ آج کل کی سیاست کا یہی چلن ہے، ہمارا دل تو صحافیوں بارے آپ کے فرمودات سے دُکھا۔ جناب وزیراعلٰی! گزارش ہے کہ صحافی وہ نہیں ہوتا جو صرف آپ کی شان میں تعریف و توصیف ہی بیان کرتا رہے یا آپ کے سنہرے اقوال سوشل میڈیا پر مکھن لگا کو 24 گھنٹے پیش کرتا رہے۔ صحافی وہ ہے جو آپ کے اچھے کام کی تعریف تو کرے مگر آپ کی غلط پالیسی کا بھی بیک وقت نقاد ہو، صحافی وہ ہے جو آپ سے تلخ سوال بھی پوچھے اور آپ کا مؤقف بھی بیان کرے۔ صحافی آپ کا ترجمان یا آپ کی جماعت کا نام لیوا دیوانا نہیں ہو سکتا۔ یہی نقص لیگی رہنماؤں میں بھی رہا اور ہے کہ اگر آپ ان کی شان میں قصیدے لکھتے ہیں تو آپ دانشور عظیم کہلائیں گے وگرنہ آپ کو دیس نکالا۔ خدارا صحافیوں کو ڈرانا دھمکانا چھوڑ دیں۔ کاش آپ جان سکتے کہ اس دور کے صحافی کن حالات میں صحافت کر رہے ہیں۔ کاش آپ کو معلوم ہوتا کہ  صحافی اور ترجمان میں کیا فرق ہوتا ہے۔
بابائے پشتو خوشحال خان خٹک کی ایک نصیحت آپ کے نام:
گل مل، ساز و سرود، ساقی سرے ستر گے
لابہ ڈیرعالمِ رسوا کاچی دا چا رشتہ
(گل و نرگس، ساز و سرود، ساقی کی سرخ آنکھیں
اگر یہی عالم رہا تو بہت سے لوگ رسوا ہو جائیں گے)

شیئر: