بلوچستان میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کی ضرورت نہیں: وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی
بلوچستان میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کی ضرورت نہیں: وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی
پیر 30 ستمبر 2024 11:47
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
سرفراز بگٹی نے کہا کہ ’عدیلہ بلوچ کی طرح سینکڑوں دیگر بلوچ بچے بچیاں بھی کیمپوں میں ہیں‘ (فوٹو: ویڈیو گریب)
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز احمد بگٹی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کی ضرورت نہیں، دہشت گردوں کے خلاف حکمت عملی اور ذمہ داری کے ساتھ کارروائیاں کی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ سکیورٹی فورسز پر حملوں میں پسپائی کے بعد دہشت گرد مزدوروں سمیت آسان اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کوئٹہ میں اتوار کو ڈپٹی سپیکر صوبائی اسمبلی غزالہ گولہ، مبینہ گرفتار خاتون خودکش حملہ آور عدیلہ بلوچ اور ان کے والد کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے سرفراز بگٹی نے کہا کہ انہوں نے عدیلہ بلوچ اور ان کے والد سے ملاقات کی اور انہیں نئی زندگی پر مبارکباد پیش کی۔
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ عدیلہ بلوچ کی واپسی پر ان کے والد اور سکیورٹی ادارے مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ان کی وجہ سے نہ صرف عدیلہ بلوچ بلکہ کئی دیگر قیمتیں جانیں بھی بچ گئیں۔
سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ عدیلہ بلوچ کی وجہ سے ان بلوچوں کو اہم پیغام گیا ہے جنہیں جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے ورغلایا گیا ہے اور ریاست کے مقابلے میں کھڑا کیا گیا ہے۔ دہشت گرد بلوچ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو لاحاصل جنگ کا ایندھن بنا رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ریاست بلوچوں کی تعلیم کا بندوبست کر رہی ہے۔ انہیں دنیا کی اچھی یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کرا رہی ہے۔
سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ’عدیلہ بلوچ کی طرح سینکڑوں دیگر بلوچ بچے بچیاں بھی جو کیمپوں میں ہیں، دہشت گرد سب سے پہلے ان کا باہر کی دنیا سے رابطہ منقطع کردیتے ہیں تاکہ انہیں حقائق کا علم نہ ہو سکے۔ والدین کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جن والدین کے بچے غائب ہو کر دہشت گردوں کے ہاتھوں میں چلے گئے ہیں۔ ان کے والدین انتظامیہ، پارلیمنٹیرینز ،سکیورٹی اداروں یا کسی نہ کسی طریقے سے حکومت سے رابطہ کریں تاکہ ان کے پیاروں کو بچایا جا سکے اور ان کی وجہ سے کسی اور کو نقصان نہ پہنچے۔
سرفراز بگٹی نے پنجگور میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے سات مزدوروں کے قتل کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پنجگور واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، سوتے ہوئے معصوم لوگوں کو قتل کیا گیا۔ یہ آسان ہدف ہے اس لیے دہشت گرد انہیں نشانہ بنا رہے ہیں۔
ان کا کہنا کہ سکیورٹی فورسز، لیویز اور پولیس پر حملوں کے جواب میں پسپائی ملنے کے بعد دہشت گرد اپنے آپ کو خبروں میں زندہ رکھنے کے لیے معصوم لوگوں کا قتل کر رہے ہیں۔ بلوچ روایات میں جن کی حفاظت کی ذمہ داری بلوچوں پر عائد ہوتی ہے انہیں قتل کیا جا رہا ہے۔
’سرکاری تعمیراتی کاموں میں حصہ لینے والے مزدوروں کی رجسٹریشن کی جاتی ہے اور ان کی حکومت حفاظت کرتی ہے تاہم پنجگور میں نشانہ بنائے گئے افراد کی موجودگی سے متعلق حکومت کے پاس اطلاع نہیں تھی کیونکہ وہ نجی گھر میں کام کر رہے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کوئٹہ میں بھی ایک معصوم حجام کو قتل کیا گیا۔ ’ایک حجام کی اس جنگ میں کیا حیثیت ہے جب جنگ حجاموں اور دھوبیوں تک آ گئی ہے تو اس جنگ کو ترک ہی کر دیں۔‘
’بلوچستان ایسے آزاد نہیں ہوسکتا، تشدد اور خون کی ہولی کھیل کر آپ بلوچستان کی خدمت نہیں کر رہے۔ خدمت یہ ہے کہ پاکستان کے مین سٹریم اور آئین کے اندر رہتے ہوئے سیاست کریں اور بلوچ عوام کو صحت، تعلیم اور ترقی کے بہتر مواقع فراہم کریں۔‘
’ریاست ماں کا کردار تو ادا کر رہی ہے، ساتھ ساتھ اسے باپ کا کردار بھی ادا کرنا ہے، ہم ایک دفعہ دو دفعہ گلے لگائیں گے لیکن تیسری دفعہ تو آپ ہمیں دیوار سے لگا کر مجبور نہ کریں کہ ہم وہ کام کریں جس سے عام لوگوں کا نقصان بھی نہ ہو۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایسا نہ ہو کہ بڑے پیمانے پر نقل مکانی کرنا پڑے۔ فوج کہیں جاتی ہے اور فوجی آپریشن ہوتے ہیں تو اس کے اپنے نتائج ہوتے ہیں۔ ہم یہ نہیں چاہتے۔ ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں فوجی آپریشن کی ضرورت نہیں۔ دہشت گردوں کی استعداد نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ انہیں خفیہ معلومات کی بنیاد پر اور کائنیٹک آپریشن کے ذریعے ختم کریں۔‘
ایک سوال پر وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ریاست جب قدم اٹھاتی ہے تو بڑی ذمہ داری سے کام کرتی ہے۔ ’آج میں مستونگ سے گوادر تک سارے لوگوں کی نقل مکانی کراتا ہوں، انہیں خیموں میں رکھتا ہوں اور ایک طرف سے آپریشن شروع کرتا ہوں۔ سارے دہشت گردوں کو ختم کرکے دوسری طرف چلا جاتا ہوں ۔ کیا آپ یہ چاہتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں۔ یہ ہم کرنا نہیں چاہتے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ممکن ہے۔ کیا بلوچستان کے لوگ سوات کے لوگوں سے مختلف ہیں وہ بھی تو ہمارا پاکستان ہے۔ لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہم آئی بی اوز کے ذریعے صرف ان کو تکلیف پہنچائیں جو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ ہر عام شہری کو تکلیف نہ پہنچائیں۔ہم جذبات سے نہیں حکمت اور طریقے سے یہ جنگ لڑیں گے جس سے بدامنی میں کمی آئے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ عام بلوچ ریاست سے دور ہے، انہیں دور کیا جا رہا ہے انہیں گلے لگائیں گے ۔ جنہوں نے اسلحہ اٹھایا ہے ان کے ساتھ اسی طرح نمٹیں گے جس طرح وہ ہم سے نمٹ رہے ہیں۔
سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ وہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ جس قسم کی گورننس چاہتے ہیں، وہ نہیں لا پا رہے اور اس کی وجہ یہاں کا سیاسی، بیورو کریسی کا نظام اور بہت ساری دوسری نزاکتیں ہیں۔ بلوچستان کی مخلوط حکومت کی نزاکت سب کو بہتر پتہ ہے۔
وزیراعلیٰ کا مزید کہنا تھا کہ ’میں پہلے دن سے دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کا دعویٰ نہیں کر رہا لیکن ہم کم از کم سمت کا تعین ضرور کریں گے ، جلد سامنے لائیں گے کہ ہم نے گورننس کی بہتری کے لیے کیا کیا ہدایات جاری کی ہیں۔‘
’غیرضروری بھرتیاں، کرپشن اور ترقیاتی کاموں کا معیار بڑے چیلنجز ہیں۔ ہم نے بلوچستان حکومت کو بھرتی کی فیکٹری سمجھ لیا ہے جو بیڈ گورننس کی بڑی وجہ ہے۔‘