Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مجھ سے نہیں بلوچستان کے لوگوں سے معافی مانگیں، خدا حافظ پارلیمان: اختر مینگل

اختر مینگل اس وقت بلوچستان کے بااثر ترین سیاست دانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ (فوٹو: سکرین گریب)
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے جمعرات کو کہا ہے کہ انہوں نے بلوچستان کے مسئلے پر ہر کسی کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے بلوچستان کے ایشوز کو حل کرنے سے انکار کیا۔
سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر ایک طویل پوسٹ میں سردار اختر مینگل نے لکھا کہ ’تمام سیاسی جماعتوں نے میرے استعفے کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے جو کہ مجھے عجیب لگ رہا ہے کیونکہ میں نے پہلے ہی استعفیٰ دے دیا ہے اور مجھے اس پارلیمان میں رہنے کی کوئی خواہش نہیں۔‘
’وہ سمجھتے ہیں کہ مجھے سمجھاسکتے ہیں اور میرا ذہن تبدیل کراسکتے ہیں۔ انہوں نے اپنی غلطیوں پر معافی مانگی۔ لیکن مجھ سے معافی نہ مانگیں بلکہ بلوچستان کے لوگوں سے معافی مانگیں۔ اس دکھ کا احساس کریں جو کہ آپ نے ان کی عزیزوں کو ان سے دور کرکے ان کو دیا ہے۔ سمی بلوچ اور مہرنگ بلوچ سے ان پر حملہ کی معافی مانگیں جب وہ صرف بات کرنا چاہتی تھیں۔ میں صرف اختر مینگل نہیں بلکہ میں لوگوں کا حصہ ہوں۔ جب آپ ان سے معاملات بہتر کریں گے تو میرے ساتھ معاملات خود بہتر ہوں گے۔‘
اختر مینگل نے مزید لکھا کہ ’مجھے کسی سے کوئی ذاتی رنجش یا دشمنی نہیں لیکن میرے ضمیر نے مجھے مجبور کیا کہ میں یہ فیصلہ کروں۔ میں نے ہر کسی کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے بلوچستان کے ایشوز کو حل کرنے سے انکار کر دیا۔‘
’میں پاکستان اس لیے آیا تھا کہ مجھ پر جو بوجھ کئی مہینوں سے تھا اس کو اتار پھینکوں۔ اب میں آزاد ہوں، مجھے امید ہے کہ دوسرے بھی بہت دیر  ہونے سے پہلے اس بات کا احساس کریں گے۔ میں یہ اس وقت لکھ رہا ہوں جب میں جہاز پر سوار ہو رہا ہوں۔ خدا حافظ پارلیمان، جب ملک میں قانون کی حمکرانی ہوگی تو دوبارہ ملیں گے۔‘
خیال رہے  سردار اختر مینگل نے منگل کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے یہ کہہ کر  استعفٰی دے دیا تھا کہ ان کی آواز نہیں سنی جاتی اس لیے اب اس اسمبلی میں بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
اختر مینگل اس وقت بلوچستان کے بااثر ترین سیاست دانوں میں شمار ہوتے ہیں اور ان کا پارلیمانی نظام سے علٰحیدہ ہونا نہ صرف ان کی مایوسی کی علامت ہے بلکہ اس سے پاکستان کی مرکزی حکومت کے لیے بلوچستان کے مسائل کا سیاسی حل نکالنے کے لیے موجود رستے بھی محدود ہونے کا خدشہ ہے۔
سردار اختر مینگل نے تحریک عدم اعتماد میں پی ڈی ایم اور اتحادیوں کا ساتھ دیا اور وہ 2024 کے انتخابات میں این اے 261 سے کامیاب ہو کر ایوان میں پہنچے۔

بدھ کو حکمران جماعت کے سینیئر رہنما اور وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنااللہ نے  وفد کے ہمراہ اختر مینگل سے ملاقات کی تھی (فوٹو: ایکس)

بدھ کو حکمران جماعت کے سینیئر رہنما اور وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنااللہ نے  وفد کے ہمراہ اختر مینگل سے ملاقات کی تھی اور  ان پر قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ واپس لینے پر زور دیا تھا۔ْ 
گوکہ پارلیمنٹ لاجز میں اختر مینگل سے ملاقات کے بعد رانا ثنااللہ نے میڈیا سے گفتگو میں دعویٰ کیا تھا کہ اختر مینگل سے ملاقات مثبت رہی اور انہوں نے استعفیٰ واپس لینے سے متعلق حکومتی درخواست منظور کرلی۔  تاہم بعد میں بی این پی کے سربراہ نے پارلیمنٹ لاجز میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا استعفیٰ واپس لینے کا کوئی ارادہ نہیں۔
اس سے قبل اپوزیشن کے وفد نے بھی اختر مینگل سے ملاقات کی تھی۔ وفد میں اسد قیصر، عمر ایوب، حامد رضا، اخونزادہ حسین یوسفزئی، عامر ڈوگر اور رؤف حسن شامل تھے۔
ملاقات کے دوران اپوزیشن رہنماؤں نے اخترمینگل کو اپوزیشن اتحاد کے پلیٹ فارم سے آئینی جدوجہد جاری رکھنےکا پیغام دیا تھا اور ان پر زور دیا تھا کہ وہ اپنا استعفی واپس لے کر پارلیمنٹ میں مشترکہ جدوجہد کریں۔

شیئر: