Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان کے راستے ایران جانے کی کوشش کرنے والے افغان تارکین وطن کی ’پکڑ دھکڑ‘

افغان باشندے ایرانی ساختہ گاڑیوں پر بلوچستان کے ویران اور مشکل راستوں سے گزر کر ایران تک کا مشکل سفر طے کرتے ہیں۔ فوٹو: اردو نیوز
پاکستان سے ملحقہ ایرانی سرحد کے قریب افغان باشندوں کی ہلاکت کی خبریں سامنے آنے کے بعد پاکستانی حکام نے اپنی حدود میں انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے اقدامات سخت کر دیے۔ غیر قانونی طور پر ایران جانے کی کوشش کرنے والے درجنوں افغان باشندوں کو پکڑ لیا۔
حکام کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے کے دوران 80 افغان باشندوں کو چاغی اور واشک کے اضلاع میں پکڑا گیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر واشک نعیم عمرانی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی گزشتہ روز ماشکیل میں 48 غیر افغان باشندوں کو پکڑکر واپس چاغی کے علاقے دالبندین بھیج دیا گیاجہاں سے وہ آئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ افغان باشندے غیر قانونی طور پر چاغی کے علاقے نوکنڈی سے واشک کے علاقے ماشکیل کے راستے ایران جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
چاغی میں بھی لیویز کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ سرحدی راستوں پر واقع چیک پوسٹوں کی سختی کی ہدایات ملی ہیں۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران چاغی میں غیرقانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونےوالے چالیس افغان باشندوں کو پکڑا گیا ہے۔
اس کے علاوہ ایران سے ملحقہ سرحدی شہر ماشکیل کے اسسٹنٹ کمشنر نے ایک انتباہی نوٹس جاری کیا ہے جس میں انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا گیا ہے۔
نوٹس میں کہا گیا ہے کہ افغان مہاجرین کو قیام کے لیے جگہ فراہم کرنےوالے ،انہیں نوکنڈی لانے اور نوکنڈی سے سرحدی علاقے تک لے جانے والی گاڑیوں کے مالکان ،ڈرائیور اور ایجنٹس کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں گے ان کے خوابگاہوں (ٹھکانوں) کو سیل اور گاڑیوں کو ضبط کیا جائے گا۔
 ڈپٹی کمشنر واشک نعیم عمرانی نے اس انتباہی نوٹس کی تصدیق کی ۔ان کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں ابھی تک کوئی مقدمہ درج نہیں کیاگیا تاہم انتظامیہ کے احکامات کی پابندی نہ کی گئی تو قانونی کارروائی کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ افغان باشندے اور کچھ پاکستانی بھی غیرقانونی طور پر ایران اور یورپ جانے کے لیے بلوچستان کے سرحدی علاقوں سے گزرتے ہیں۔ انتظامیہ اور سکیورٹی فورسز کی کوشش ہے کہ انسانی سمگلنگ پر قابو پا سکے تاہم انسانی سمگلرز رات کے اندھیرے میں ان مشکل اور پہاڑی سرحدی راستوں کا انتخاب کرتے ہیں جہاں پر باڑ نہیں لگی۔
ڈپٹی کمشنر کے مطابق ایران کےساتھ واشک کی 180 کلومیٹر سرحد لگتی ہے جس میں سے 150 کلومیٹر پر آہنی باڑ لگی ہے جبکہ 20سے 30کلومیٹر علاقہ ایسا ہے جہاں سے پہاڑ ، غیر ہموار راستے یا ندی نالوں کی وجہ سے باڑ نہیں لگائی جا سکی ہے۔
خیال رہے کہ ایران کے ساتھ مجموعی طور پر پاکستان کی 900 کلومیٹر سرحد لگتی ہے۔ بلوچستان کے پانچ اضلاع چاغی، واشک، پنجگور، کیچ اور گوادر ایران کی سرحد سے منسلک ہیں ۔پاکستان نے ایران کے ساتھ سرحد کے بیشتر حصے پر باڑ لگادی ہیں لیکن ان اضلاع کے بعض پہاڑی اور مشکل راستے اب بھی منشیات اور انسانی سمگلنگ کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ایرانی بلوچستان کی خبریں دینےوالے ’حال وش‘ نامی خبر رساں ادارے نے عینی شاہدین افغان باشندوں کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان سے غیر قانونی طور پر ایران میں داخل ہونےوالے درجنوں افغان باشندے ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان کے شہر سراوان میں کلہکان کے مقام پر مبینہ طور پر ایرانی فورسز کی فائرنگ سے ہلاک و زخمی ہوئے۔

حکام کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے کے دوران 80 افغان باشندوں کو چاغی اور واشک کے اضلاع میں پکڑا گیا ہے۔ فوٹو: ایف آئی اے

تاہم ایران اور افغانستان دونوں ممالک کی حکومتوں نے ان خبروں کی تردید کی ۔ کوئٹہ میں تعینات افغان قونصل جنرل مولوی گل حسن نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف افواہیں ثابت ہوئیں ۔ ہم نے ایرانی حکومت کے علاوہ مقامی ذرائع سے بھی معلومات لیں مگر کسی مصدقہ ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔
ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی سامنے آیا کہ ہلاک ہونےوالے یہ افراد پاکستان کے ضلع واشک کے علاقے ماشکیل سے گزرتے ہوئے ایران میں داخل ہوئے تھے۔
لیکن واشک کے ڈپٹی کمشنر نعیم عمرانی اس کی تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں اس واقعہ سے متعلق کوئی معلومات نہیں۔ جو مقام بتایا جا رہا ہے وہ پاکستانی سرحد کے قریب ہے مگر پاکستان میں کسی کی لاش یا کوئی زخمی نہیں لایا گیا۔
تینوں ممالک کی جانب سے کوئی تصدیق نہ ہونے کے باوجود سوشل میڈیا پر یہ اطلاعات موضوع بحث رہیں اور ایران اور افغانستان دونوں ممالک کی حکومتوں کو صارفین نے تنقید کا نشانہ بنایا۔
ان خبروں کے بعد پاکستانی حکام متحرک ہوئے ہیں اور حکومت کی جانب سے ہدایات کے بعد ایران اور افغانستان کے سرحدوں کے ساتھ انسانی سمگلنگ روکنے کے لیے اقدامات سخت کردیے گئے ہیں۔
انسانی سمگلنگ پر اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے پی ایچ ڈی کرنے والے محقق ڈاکٹر محمد مکی کاکڑ کا کہنا ہے کہ ’میری معلومات کے مطابق ایک ہفتے سے چاغی اور واشک سمیت سرحدی علاقوں میں سختیاں کی جارہی ہیں اور سکیورٹی اہلکار افغان باشندوں کو پکڑ کر واپس بھیج رہے ہیں۔ تاہم وہ چند دن کے قیام کے بعد واپس سرحدی علاقوں کا رخ کر لیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان سختیوں کی وجہ سے انسانی سمگلنگ میں تو کمی آئی ہے تاہم اس پر مکمل کبھی بھی قابو پایا جا سکا ہے اور نہ آئندہ ایسا ہوتا نظر آ رہا ہے کیونکہ انتظامیہ اور اداروں میں موجود کرپٹ اہلکاروں کی ملی بھگت سے ہمیشہ انسانی سمگلنگ ہو رہی ہے۔
ڈاکٹر محمد مکی کاکڑ کے مطابق بلوچستان کے زمینی اور سمندری راستے سمگلنگ کے لیے استعمال ہوتے ہورہے ہیں پاکستانی باشندوں کے علاوہ افغان باشندے بھی اس غیر قانونی روٹ کا استعمال کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ افغان باشندے پہلے چمن کے راستے پاکستان میں داخل ہوتے تھے اور پھر یہاں سے ایران اور یورپ تک جاتے تھے تاہم ایک سال قبل (اکتوبر2023 سے) پاکستانی حکام کی جانب سے آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کے دستاویزای نظام لاگو ہونے کی وجہ سے اس راستے سے افغان باشندوں کی آمدروفت بہت کم ہو گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اب افغان باشندے افغان صوبہ کندھار اور نمروز سے منسلک پاکستانی صوبہ بلوچستان کے ضلع نوشکی اور چاغی کا راستہ استعمال کر رہے ہیں۔ نوشکی اور چاغی سے یہ افغان باشندے پاکستان میں داخل ہوکر کوئٹہ ، کراچی اور ملک کے دوسرے شہر وں تک جاتے ہیں یا پھر چاغی کے علاقے نوکنڈی، یک مچ، راجے یا پھر واشک کے علاقے ماشکیل سے گزرتے ہوئے ایران، ترکی، یونان اور یورپ جاتے ہیں۔
ایف آئی اے کی انسانی سمگلنگ سے متعلق 2020 کی رپورٹ میں بھی اسےایجنٹس اور غیر قانونی تارکین وطن میں سب سے مقبول زمینی راستہ قرار دیا گیا ہے۔

افغانستان سے ماشکیل تک ایرانی سرحد کا فاصلہ تقریباً 8 سے 10 گھنٹے کا راستہ ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

بلوچستان کے ضلع چاغی کی سرحدیں ایران اور افغانستان دونوں سے لگتی ہیں اس لیے یہ مختصر اور آسان راستہ سمجھا جاتا ہے۔نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس (این سی ایچ آر) کی 2018 کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران کی جانب سے افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد پر 15 فٹ اونچی دیوار تعمیر کے بعد افغانستان سے لوگ ایران جانے کے لیے بلوچستان کے ویران اور صحرائی راستوں کا استعمال کرتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرحد کے دونوں جانب ایجنٹس کا نیٹ ورک قائم ہے ۔روزگار کے دوسرے ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے یہ چاغی اور سرحدی علاقوں کے مقامی باشندوں کی آمدن کا ذریعہ بن گیا ہے۔
مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ سرحدوں پر تعینات سرکاری اداروں کے اہلکار رقوم لے کر انسانی سمگلرز اور غیر قانونی تارکین وطن کو چھوٹ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایران کی حدود میں سرحد کے قریب سرگرم ایک مسلح تنظیم بھی اپنا حصہ وصول کرتی ہے۔
افغانستان سے ماشکیل تک ایرانی سرحد کا فاصلہ تقریباً 8 سے 10 گھنٹے کا راستہ ہے تاہم بعض اوقات یہ سفر طے کرتے ہوئے کئی دن اور ہفتے لگ جاتے ہیں ۔ اس دوران انہیں مختلف ٹھکانوں میں رکھا جاتا ہے۔
ڈاکٹر مکی کاکڑ کے مطابق یک مچ ، نوکنڈی ماشکیل اور دوسرے سرحدی علاقوں کے بہت سے مقامی لوگ اس دھندے میں ملوث ہیں ان علاقوں میں غیر قانونی تارکین وطن کے قیام و طعام کے لیے عارضی ٹھکانے اور ہوٹل تعمیر کیے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اکثر رات کے اوقات میں اندھیرے میں کیا جاتا ہے اور راستہ صاف ہونے کا اشارہ ملنے کے بعد ہی انہیں آگے لے جایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر مکی کاکڑ کے بقول یہ سارا راستہ ایک ہی گاڑی میں طے نہیں ہوتا، ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک پہنچانے کے بعد گاڑی والے دوسرے گاڑی پر یہ تارکین وطن فروخت کر دیتے ہیں۔ وہ پورے راستے میں چیک پوسٹوں پر تعینات اہلکاروں کو رشوت دیتے ہیں اور اس طرح انہیں اپنی منزل تک پہنچا دیا جاتا ہے۔
بہت سے غیر قانونی تارکین وطن ان مشکل، صحرائی اور پہاڑی راستوں پر پیدل چلتے ہوئے بھوک اور پیاس کی وجہ سے جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ بعض اوقات ڈاکوؤں اور اغوا کاروں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنتے ہیں، اغواکار ان کے لواحقین سے تاوان طلب کرتے ہیں اسی طرح غیرقانونی طور پر سرحد عبور کرنے کی کوشش کے دوران فورسز کی فائرنگ کا نشانہ بھی بن جاتے ہیں۔
سنہ 2021 میں نوکنڈی میں انسانی سمگلر کی جانب سے بے یارو مددگار چھوڑنے کے بعد صحرا میں راستہ کھونے اور بھوک و پیاس سے تین پاکستانی باشندے ہلاک ہو گئے تھے۔

شیئر: