ایران کے اعلیٰ سفارت کار نے لکھا کہ حالیہ دنوں میں ہم نے اپنے خطے میں ہر طرح کی جنگ کو روکنے کے لیے زبردست کوششیں کی ہیں، میں واضح کرنا چاہتا ہوں ایسی کوئی سرخ لکیر نہیں جو ہمیں ایرانی عوام اور ملکی مفادات کے دفاع سے روک سکے۔
ایران نے یکم اکتوبر کو اسرائیل پر 200 سے زائد میزائل داغے تھے جس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ یہ حملہ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ اور ایران کے پاسداران انقلاب کے ایک جنرل کی ہلاکت کا بدلہ ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ نےکہا ہے کہ اسرائیل کا جواب ’مہلک، ٹارگٹڈ اہداف اور حیران کن’ ہوگا۔
ایرانی وزارت خارجہ کے مطابق اعلیٰ سفارت کار عراقی حکام کے ساتھ غزہ اور لبنان کی جنگوں پر بات چیت کے لیے بغداد میں موجود تھے۔
عراقی وزیراعظم کے سیاسی مشیرعلی الموسوی نے بتایا ہے کہ عراقچی کا دورہ خطے میں ہتھیاروں اور تشدد کو خاموش کرنے کے علاوہ سلامتی و استحکام کے قیام کے لیے کی جانے والی سفارتی کوششوں کا حصہ ہے۔
ایرانی نیوز ایجنسی ایسنا نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے ’ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی بغداد کے دورے کے بعد عمان جائیں گے۔
قبال ازیں ایرانی سفارتکار جمعرات کو قطر کے دورے پر تھے جہاں انہوں نے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی سے ملاقات کی اور غزہ اور لبنان میں ہونے والی جنگوں پر بات کی۔
قطر غزہ میں جنگ بندی کے لیے ہونے والے مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے اور لبنان میں جنگ بندی کا مطالبہ بھی کر رہا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ عراقچی نے ایک روز قبل سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی ہم منصب شہزادہ فیصل بن فرحان سے ملاقات کی تھی۔
ایک حالیہ انٹرویو میں عباس عراقچی نے کہا ہے ’ایران جنگ نہیں چاہتا لیکن ایران اس سے خوفزدہ نہیں ہے۔‘
ایرانی وزیر خارجہ نے الجزیرہ نیوز نیٹ ورک کو بتایا ہے’ ہم کسی بھی منظر نامے کے لیے تیار رہیں گے۔