Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاسی بساط کا نیا کھیل۔۔۔ پی ٹی آئی کہاں ہے؟ اجمل جامی کا کالم

مولانا سے سرکار کی دوریاں اب قربتوں میں بدلتی دکھائی دے رہی ہیں (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)
احتجاجی سیاست اور مقبولیت کے اپنے رنگ ہوا کرتے ہیں، پی ٹی آئی اور کپتان کے ہاں یہ رنگ ملکی سیاسی تاریخ میں نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔
ان رنگوں کے اثرات بھی جا بجا دکھائی دیتے ہیں، نئے دور کے نئے تقاضوں سے ہم آہنگی نے ان رنگوں کو مزید مؤثر کر رکھا ہے۔ لیکن اس بیچ راج نیتی کے کھیل کی اہمیت سے مکمل علیحدگی بہرحال غور و فکر کی متقاضی ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے ہنگام کپتان پر ملاقاتوں کی پابندی اور آخری احتجاج میں گنڈاپور سرکار کا غائب ہونا معنی خیز اور واضح پیغام تھا کہ معاملات کس نہج پر ہیں اور کیسے ہینڈل کیے جا رہے ہیں۔ مولانا سے سرکار کی دوریاں کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر اب قربتوں میں بدلتی دکھائی دے رہی ہیں، اس بیچ  راج نیتی سے مکمل دوری کے کارن پی ٹی آئی کہاں ہے؟
کپتان کی صحت کا مدعا دیکھ لیجیے، احتجاج کی کال اور پھر اسے مؤخر کرنا دیکھ لیجیے، شنگھائی تعاون تنظیم پر سرکاری آپٹیکس ملاحظہ فرما لیجیے، لاہور میں پیش آئے واقعے پر سوشل میڈیا کا شور اور پھر پنجاب سرکار کی ہینڈلنگ کا جائزہ لے لیجیے، دستیاب تحریک انصاف قیادت کی ویڈیو پیغامات دیکھ لیجیے، یا آئینی ترامیم کے ہنگام سرکار کی جانب سے مولانا کے ساتھ معنی خیز جڑت دیکھ لیجیے، معلوم ہوتا ہے کہ شدید ترین دباو اور بیانیے کی عدم موجودگی کے باوجود سرکار اب کچھ قدم جمانے میں کامیاب ہو رہی ہے۔ بدلے میں سوال وہی کہ اس بیچ راج نیتی کے اس کھیل میں تحریک انصاف احتجاج کی سیاست کے علاوہ کہاں کھڑی ہے؟
کپتان پر ملاقات کی پابندی لگی، شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہوچکا، 25 اکتوبر سے پہلے پہلے سرکار اب آئینی ترامیم بھی پیش کرنے جا رہی ہے، جس کے لیے مولانا کی حمایت ناگزیر تھی۔ یہاں اس مدعے پر باریک نقطہ سامنے آرہا ہے، اطلاع ہے کہ مولانا مشروط راضی ہوئے ہیں۔ سرکار کی خواہش آئینی عدالت کا قیام ہے تو مولانا آئینی عدالت کے بنچ کی بجائے آئینی بنچ کے حامی ہیں۔
اس بیچ اگر سرکار مولانا کی تجویز پر عمل کرتی ہے تو بدلے میں مولانا سے ٹاپ تھری میں سے ایک جج کو چیف جسٹس بنانے والے نکتے پر رام کرتی دکھائی دیتی ہے۔ آئینی عدالت کی بجائے آئینی بنچ بنتا ہے اور ساتھ ہی ٹاپ تھری میں سے کوئی ایک مرضی کا جج چیف جسٹس بنانے کی ترامیم سرکار منظور کروا لیتی ہے تو  شہباز سرکار کا اصل مسئلہ اس طریقے سے بھی حل ہو جاتا ہے۔ یعنی کان دائیں سے پکڑ لیں یا بائیں سے۔۔ بات تو ایک ہی ہے۔ مرضی کا چیف جسٹس۔ ٹاپ تھری میں سے ایک کا انتخاب ہوا تو سرکار جسٹس منصور اور جسٹس منیب کی جگہ کسی تیسرے کو تعینات کرنے کی پوزیشن میں ہو گی۔ آئینی بنچ یا دیگر بنچز بھی پھر ظاہر نئے چیف جسٹس اور نئی کمیٹی کے ذریعے ہی قیام میں آیا کریں گے لہٰذا آئینی عدالت یا بنچ کی بجائے سرکار کی اصل خواہش ٹاپ تھری میں سے یا ٹاپ فائیو میں سے کسی ایک کو چیف جسٹس لگانا معلوم ہوتا ہے۔ دیگر معاملات میں بظاہر سرکار مولانا کی اکثر تجاویز سے سہمت دکھائی دیتی ہے۔

بدھ کی شب نواز شریف کی جانب سے دیے گئے عشائیے میں مولانا فضل الرحمان اور آصف زرداری شریک ہوئے (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)

آئینی ترامیم منظور ہونے کی صورت میں بظاہر تحریک انصاف کے لیے معاملہ خیر کا دکھائی نہیں دیتا، تمام آئینی معاملات کی سمت نئی عدالت یا بنچ کی جانب ہو گی۔ تحریک انصاف کو 25 اکتوبر کے بعد جس عدالتی انقلاب کی توقع ہے وہ  مکمل طور پر تہہ و بالا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس صورتحال میں دستیاب پی ٹی آئی قیادت کی راج نیتی کے اس کھیل میں کیا حکمت عملی ہے؟ کیا لائحہ عمل ہے؟
فی الحال جواب جاننے سے قاصر ہیں۔ کیا پی ٹی آئی ترامیم ہونے کی صورت میں قومی اسمبلی سے مستعفی ہوگی؟ کچھ سابق رہنماؤں کی رائے میں صوبے میں حکومت جاری رکھتے ہوئے یہ پلان سرکار کے لیے تشویش کا باعث ہو سکتا ہے اور نتیجے میں پی ٹی آئی سسٹم کے ہاں گنجائش پیدا کرنے کی حامل ہو سکتی ہے ۔ لیکن کیا دستیاب قیادت اس بارے یکسوئی رکھتی ہے؟ جواب ہے نہیں!
رہ گئی بات لاہور کے افسوس ناک واقعے کی تو اس بابت سنسنی اور فیک نیوز نے صورت حال مزید بگاڑ کر رکھ دی، ہم مرضی کا سچ سننے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں چاہے اطلاع تبصرہ یا خبر من گھڑت ہی کیوں نہ ہو؟ وہ اکاوئنٹس جنہوں نے مبینہ واقعے میں بچی کے دم توڑنے کی خبر جاری کی، وہ اب اس کی تردید اور معذرت کیوں کر رہے ہیں؟
Image
عظمیٰ بخاری پریس کانفرنس سے پہلے صحافیوں کے نام چتاؤنی جاری کر رہی تھیں (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)

اس سب میں محترمہ نورین خان نیازی کی جناب کاشف عباسی کے ساتھ ہوئی گفتگو بھی عجب رنگ دے رہی تھی، احتجاجی کال مؤخر ہونے پر وہ فرما رہی تھیں کہ اللہ کی طرف سے تھا کہ بچی کے معاملے پر احتجاج تمام شہروں میں پھیل گیا۔ محترمہ زرتاج گل  کی ہمشیرہ جو یہاں لاہور میں ایل سی یو میں پڑھاتی ہیں، ان سے منسوب ویڈیو دیکھی تو معاملہ تشویش ناک معلوم ہوا، لیکن پھر کل ہی جب دیکھا کہ وہ محترمہ مریم نواز کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بیٹھ کر اپنی صفائی پیش کر رہی ہیں تو اندازہ ہوا کہ اس قدر حساس معاملات میں ہمارے ذمہ داران کس قدر لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ سیاسی پسند نا پسند اپنی جگہ لیکن خدارا! اس بچی کے اہل خانہ سے پوچھیں وہ کس کرب سے گزر رہے ہیں۔

لاہور کے نجی کالج سے منسوب واقعے کے بعد مختلف شہروں میں طلبہ سڑکوں پر نکل آئے (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)

محترمہ عظمیٰ بخاری البتہ پریس کانفرنس سے پہلے صحافیوں کے نام جو چتاؤنی جاری کر رہی تھیں، وہ قابل افسوس امر تھا۔ شور اور بدتمیزی نہ کریں، نوکری سے نہیں نکلوانا، بس چھوڑوں گی نہیں۔ یعنی عجب بات ہے! محترمہ صحافی بلائے ہی پھر کیوں تھے۔ اگر انہیں ان کی مرضی کے مطابق سوال پوچھنے کی اجازت تک نہیں دینی بلکہ ردعمل میں عجب طریقت سے انہیں جھاڑ پلانا ہی مقصود تھا۔
ان تمام معاملات کے مختلف پہلوؤں کو یوں بیان کرنے کا مقصد صرف یہی تھا کہ قارئین سوچ سمجھ سکیں کہ آخر اس سب کے بیچ مقبول ترین جماعت کی دستیاب قیادت کہاں کھڑی ہے؟ ان کا اگلا لائحہ عمل کیا ہے؟ راج نیتی کے کھیل میں اپنی افادیت اور وجود کیسے تسلیم کروانا ہے؟
 

شیئر: