Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مرغی چوری کا پرچہ اور آئینی ترامیم، اجمل جامی کا کالم

نظر ثانی ہونے کی صورت میں منحرف رکن پارلیمان کا ووٹ گنوانا اصل حکومتی مقصد ہے (فوٹو: اے پی پی)
قاصد کے طور پر علی امین گنڈا پور ایک بار پھر جب کپتان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عرض کی کہ ’مہاراج! 16 اکتوبر تک احتجاج نہ کرنے کی گزارش ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس رواں ماہ 15اور 16 تاریخ کو پاکستان میں ہونے جا رہا ہے۔
کئی سربراہانِ مملکت کی آمد متوقع ہے اور اس سے پہلے ملائیشیا کے وزیراعظم بھی پاکستان آن پہنچے ہیں۔ پیغام یہی ہے کہ فی الحال کچھ دن رُکا جائے، 16 کے بعد  یقین دہانی ہے کہ احتجاج کی اجازت ہوگی۔‘
واقفانِ حال یہی بتلاتے ہیں کہ کچھ ایسا ہی پیغام گزرے ماہ اعظم سواتی اڈیالہ لے کر گئے تھے۔ پیغام کس قدر اہم تھا، اندازہ اس امر سے لگا لیں کہ صبح سویرے اڈیالہ کے دروازے سواتی صاحب کے لیے کُھل گئے، جلسہ ملتوی ہوا اور یوں سنگجانی کے مقام پر دوبارہ پڑاؤ کیا گیا۔
سنگجانی  کے جلسے سے پہلے اور بعد جو ہوا وہ دہرانے کی ضرورت نہیں، بس اتنا کافی ہے کہ ربط میں تعطل آگیا اور بدگمانیوں نے ڈیرے ڈال لیے۔ یہی وجہ ہے کہ اب کے بار خود گنڈا پور سرکار کو ہی حاضری دینا پڑی۔
واپسی پر انہیں معلوم ہوا کہ نہیں صاحب! چار اکتوبر کا احتجاج ہر حال میں ہوگا۔ بقول استاد نصرت جاوید: علی امین خاصے پریشان ہوئے، واپسی پر کچھ رفقا سے مشاورت کی لیکن ہیچ آرزو مندی۔ چار اکتوبر کی کال پر مبنی ویڈیو پیغام جاری کرنا پڑا۔
ریاستی میموری کارڈ کے ہاں 2014 کے نقوش بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ اب جبکہ شنگھائی تعاون کونسل کا اجلاس ہونے کو ہے اور کپتان آل آؤٹ جانے کا اعلان کر چکے، مذاکرات کے نام پر ہلکا پُھلکا ربط بھی ٹوٹ چکا تو خاطر جمع رکھیں، معلوم ہوتا ہے کہ فریقین کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا۔
کپتان البتہ اس موقع پر احتجاج سے عالمی توجہ مبذول کروانا چاہتے ہیں اور ریاست احتجاج روک کر یا ملتوی کروا کر امن شانتی کا پیغام دینا چاہتی ہے۔
اس بیچ گڑبڑ البتہ شدّ و مد کے ساتھ نازل ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ ادارے کے ہاں حالیہ اہم تبدیلی تسلسل بلکہ مزید کلیئریٹی کے ساتھ تسلسل کا استعارہ معلوم ہوتی ہے۔

علی امین گنڈا پور نے قاصد کے طور پر عمران خان سے 16 اکتوبر تک احتجاج نہ کرنے کی گزارش کی (فوٹو:اے ایف پی)

ایک پہنچی ہوئی ہستی سے گزشتہ شب مختصر ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ جناب علوی ایک دو روز کے لیے لاہور میں ہیں۔ یہاں مصروفیت کی نوعیت تقریباً غیر سیاسی تھی کہ اسی کشیدہ صورتحال کے ہنگام انہیں کسی خیر خواہ نے شاہ محمود سے ملاقات کا مشورہ دیا۔
ملاقات بظاہر تو مشکل دِکھائی دیتی ہے لیکن اگر ہو گئی تو شاید کوئی درمیانی راہ نکل سکے۔ ملاقات ہونے کی صورت میں یہ ’سواتی مشن ٹو‘ کہلایا جائے گا۔ 
ادھر آرٹیکل 63 اے کی نظر ثانی کا بینچ اور پھر اب تک کی سماعتوں کا احوال دیکھا جائے تو اسے نمٹانے کی نظر آتی ہے۔ 25 اکتوبر آنے میں اب بھلا دن ہی کتنے رہ گئے ہیں، یہی کوئی بیس بائیس!
نظر ثانی  کی درخواستیں منظور ہو چکیں، بندیال بنچ کے ہاں سے  تین دو سے فیصلہ آیا تھا، طے ہوا تھا کہ نہیں صاحب! ووٹ بھی شمار نہیں ہوگا اور رکن پارلیمان ڈسکوالیفائی بھی قرار پائے گا۔ اب جناب قاضی کے بنچ کے ہاں سے چند روز کے اندر اندر ہی آج متفقہ فیصلہ سامنے آچکا ہے، یعنی اب ووٹ شمار ہوگا البتہ رکن پارلیمان اس صورت میں ڈسکوالیفائیڈ ہی رہے گا۔ یعنی منحرف رکن پارلیمان کا ووٹ گنوانا  ہی اس صورتحال میں اصل مقصد ہے تاکہ چھبیسیویں آئینی ترمیم پاس کروانے کیلئے  حضرت مولانا کی ہاں یا ناں دونوں صورتوں میں دو تہائی کا ہدف حاصل کیا جاسکے۔
حکومتی وزرا کے علاوہ اس بابت بلاول کے ہاں سے بھی کچھ معنی خیز بیانات سُننے کو ملے جن کے کارن اب یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ حکومتی پلان اب ہے کیا اور انہیں جلدی کیوں ہے۔
آئینی ترامیم  کا یہ سیزن دیکھتے ہوئے نہ جانے کیوں خاکسار کو بار بار کامونکی کا سات سالہ حیدر علی یاد آتا رہا۔ کہنے دیجیے کہ یہ بچہ وکھری طبعیت کا ہے۔ اعتماد ایسا کہ واللہ۔ بڑے سے بڑا لیجنڈ اداکار بھی اس کی برجستگی پر داد دینے پر مجبور ہو۔جنید سلیم تو معترف ہوئے ہیں معلوم نہیں سہیل احمد عزیزی کب اس نیچرل ٹیلنٹ کا ادراک کریں گے۔
حیدر علی کا ایک سوشل میڈیا کلپ خاصا وائرل ہوا ہے جس میں وہ ایک پولیس اہلکار سے مخاطب ہے اور  بتا رہا ہے کہ وہ صبح پیپر دینے کے لیے سکول جا رہا تھا جب اس نے دیکھا کہ اس کی مرغی غائب ہے۔

آرٹیکل 63 اے کی نظر ثانی کا بینچ اور پھر اب تک کی سماعتوں کا احوال دیکھا جائے تو اسے نمٹانے کی نظر آتی ہے (فوٹو: روئٹرز)

پولیس اہلکار بچے کے ہاں بلا کا اعتماد دیکھ کر اسے فلما لیتا ہے۔ اس دوران بچہ انتہائی روایتی اور ڈیرے داری کے انداز میں بتاتا ہے کہ ’پنڈ اچ بڑے چوچے چکیچے نے۔‘ پولیس اہلکار جب اسے مرغی چوری کے خلاف پرچہ درج کرانے کی شہ دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ پرچے کے پھر پیسے کتنے لو گے؟
یعنی بچے بچے کو علم ہے کہ پرچہ درج کروانے کے لیے بھی پیسے دینا پڑتے ہیں۔ بہر حال یہ ستم ظریفی تو اس کلپ کی ایک بائی پراڈکٹ ہے، اصل مدّعا تو یہ ہے کہ حیدر علی جانتا ہے کہ صادق نائی کے بچے نے اس کی مرغی چُرائی ہے۔
بچہ جانتا ہے کہ پولیس اہلکار سے بات ہونے کی صورت میں بھی مرغی واپس نہیں ملنی۔ بچہ جانتا ہے کہ پرچہ درج کروانے کے لیے بھی پیسے دینا پڑیں گے۔ بچہ جانتا ہے کہ کہ گاؤں میں صادق نائی کے علاوہ اور کون سا پاک خاندان ہے جہاں چوچے اُٹھا کر لے جائے جاتے ہیں۔ 
نہ جانے حیدر علی کی باتیں 63 اے کے بینچ سے، بینچ کی سماعت سے، مصطفین کاظمی کی انٹری سے، جناب چیف جسٹس کی اس انٹری کے نتیجے میں یوٹیوب اور ٹاک شوز پر برپا ہونے والی کہانیوں پر تشویش سے، علی ظفر کی کاظمی کی انٹری سے لا تعلقی سے، مجوزہ آئینی ترامیم سے اور 25 اکتوبر کی ڈیڈ لائن سے کیوں مماثلت رکھتی ہیں۔ نہ جانے کیوں۔۔؟
بقول سلیم کوثر:
وہی کردار ہیں تازہ کہانی میں جو پہلے بھی
کبھی چہرہ کبھی اپنی قبا تبدیل کر لیتے 

شیئر: