Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الوداعی فل کورٹ ریفرنس، چیف جسٹس اور نامزد چیف کے غیر روایتی خطاب

فُل کورٹ ریفرنس میں سپریم کورٹ کے پانچ ججز نے شرکت نہیں کی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ  کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر جمعہ کو سپریم کورٹ میں ہونے والے فل کورٹ ریفرنس میں پانچ ججز کی عدم شرکت نے ماحول میں کشیدگی کا تاثر پیدا کر دیا تھا لیکن چیف جسٹس اور نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے غیر روایتی تقاریر کے ذریعے کافی حد تک تلخی کو کم کرنے کی کوشش کی۔
جمعہ کو فل کورٹ ریفرنس کے آغاز سے قبل ہی معلوم ہو گیا تھا کہ سپریم کورٹ کے پانچ ججز اس میں شرکت نہیں کر رہے اس لیے کمرہ عدالت نمبر ایک میں ان پانچ ججز کی کرسیاں نہیں لگائی گئیں۔
ریفرنس کے آغاز پر اٹارنی جنرل، صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل نے اپنے خطابات میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی  کو خراج تحسین پیش کیا۔
ان تقاریر میں جہاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ  کی جانب سے لکھے گئے فیصلوں کے بارے میں اظہار خیال ہوا، وہیں پاکستان میں عدلیہ کی تاریخ اور اس حوالے سے کی جانے والی قانون سازی ججز کی تعیناتی اور اسی طرح فوجی حکومتوں کو عدالتوں کی جانب سے توثیق فراہم کرنے جیسے متنازع امور پر بھی کھل کر بات ہوئی۔
اٹارنی جنرل اور وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل نے بطور جج قاضی فائز عیسیٰ کے انسانی حقوق، خواتین کے حقوق اور کئی دیگر قانونی امور کے حوالے سے کئی فیصلوں کے حوالے دیے جبکہ فیض آباد دھرنا کیس، ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس اور فروری 2024 کے انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے حوالے سے قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلوں کو تاریخی قرار دیا۔
چیف جسٹس اور نامزد چیف جسٹس کا غیر روایتی خطاب
ماضی میں چیف جسٹسز کے ریفرنسز کے دوران ہونے والی تقاریر کے برعکس جمعے کو یہ پہلا موقع تھا کہ جب کسی چیف جسٹس اور نامزد چیف جسٹس نے غیر روایتی انداز میں تقاریر کی ہوں۔ جس میں نہ صرف ذاتی عادات و اطور پر بات چیت کی گئی بلکہ عدالتی امور میں اہل خانہ اور خاندان کے افراد کے کردار کو سراہا اور تسلیم کیا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اردو میں اپنے خطاب میں کہا کہ آج وہ آئینی اور قانونی باتیں نہیں کریں گے۔
چیف جسٹس نے کمرہ عدالت نمبر ایک میں موجود تمام جج صاحبان بار کونسلز کے عہدیداران، وکلا اور میڈیا کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ کہا کہ ان کا بھی شکریہ جو آج یہاں موجود نہیں ہیں۔
جس کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ان کی بیوہ دادی نے اپنے تین بچوں کو اعلٰی تعلیم دلوائی۔
’سو سال پہلے انہوں نے اپنے بچوں کو پاکستان میں نہیں بلکہ برطانیہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجا جہاں بحری جہاز پر جانا پڑتا تھا۔ ہماری تین نسلوں نے برطانیہ کی ایک ہی یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔‘

 جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ بہت نرم مزاج انسان ہیں۔ (فوٹو: اردو نیوز)

میری زندگی میں بیوی کو ویٹو پاور حاصل ہے: جسٹس فائز عیسیٰ
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’شکر ہے میری اہلیہ آج موجود ہیں اور انہوں نے خود میری تعریفیں سن لی ہیں۔ چوہدری افتخار کا شکریہ جنہوں نے مجھے بلوچستان ہائی کورٹ کے لیے چُنا۔ بلوچستان ہائی کورٹ میں کوئی سکھانے والا نہیں تھا، میں نے وکلا ہی سے سیکھا۔‘
قانون کے شعبہ میں اپنے کیریئر کے حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’والدہ نے کہا تھا کہ پہلے ڈگری مکمل کر لو بعد میں جو مرضی کرتے رہنا۔ ڈگری مکمل کرنے کے بعد جب میں نے وکالت شروع کی تو اسی وقت میری شادی ہوئی۔ قانون اور سرینا عیسیٰ کے ساتھ میرا رشتہ 42 سال سے جڑا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایک دن چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے رجسٹرار فقیر محمد کا فون آیا کہ ان کو چیف جسٹس نے اسلام آباد بلایا ہے۔ میں ڈر گیا کہ کہیں انگریزی اخبار میں میری تحریر پڑھ کر وہ ناراض ہوئے ہیں اور اس پر وہ غصہ کریں گے۔ جب میں پہنچا تو انہوں نے مجھے کہا کہ بلوچستان میں کوئی جج باقی نہیں بچا اس لیے آپ وہاں جائیں اور جا کر چیف جسٹس بلوچستان کا عہدہ سنبھال لیں۔‘
قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’میں نے انہیں جواب دیا کہ میری زندگی میں ویٹو کا اختیار میری بیوی کے پاس ہے، اگر وہ مان گئی اور اس کے ساتھ ساتھ میری لا فرم کے شراکت دار مان گئے تو میں یہ عہدہ سنبھالوں گا اور اگر انہوں نے انکار کیا تو پھر میری طرف سے بھی انکار ہوگا البتہ وہ مان گئے اور میں نے چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ کا حلف اٹھایا۔ اس دوران ہم نے بلوچستان میں بہت سے کام کیے۔ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ بلوچستان کے ہر ضلع میں گیا اور اس ضلع تک بھی گیا جہاں مجھے کہا گیا کہ وہاں آپ کا جانا مناسب نہیں ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’سپریم کورٹ میں میرا پہلا کام رجسٹرار کا انتخاب تھا جو درست ثابت ہوا۔ اپنے ساتھ کام کرنے والے تمام عملے کا شکر گزار ہوں۔ کیس سنتے ہوئے اندازہ لگانا ہوتا ہے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے۔ ہم قانون اور کاغذوں پر چلتے ہیں، سچ کیا ہے یہ اوپر والا جانتا ہے۔‘
اس موقع پر چیف جسٹس نے اپنی تعریف پر مبنی انگلینڈ سے ایک خاتون کا لکھا ہوا خط بھی پڑھ کر سنایا۔
ہمارے بچے ہمیں سکھا رہے ہیں: قاضی فائز عیسیٰ
چیف جسٹس نے کہا کہ خوشی ہوتی ہے کہ جب ہمارے بچے بھی ہمیں سکھا رہے ہوتے ہیں۔
’میری نواسی نے مجھے آ کر بتایا کہ میرے دوست مجھ سے سخت ناراض ہیں کہ میں نے مارگلہ ہلز پر موجود ریستوران بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ میں ابھی کچھ بولنے ہی والا تھا کہ میری نواسی نے کہا کہ میں نے اپنے دوستوں سے کہا ہے کہ اللہ نے جانور بھی بنائے ہیں، پرندے بھی بنائے ہیں اور ہم اگر ان کی رہائش گاہوں میں داخل ہوں گے تو اس سے ان کی جان کو خطرہ ہے اس لیے مارگلہ ہلز سے ریستوران ختم کرنے کا فیصلہ درست ہے۔‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بنیادی انسانی حقوق کی یادگار کا افتتاح کیا۔ (فوٹو: اردو نیوز)

قاضی فائز عیسٰی کو بہت اچھا انسان پایا: نامزد چیف جسٹس
نامزد چیف جسٹس جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی ہلکے پھلکے انداز میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے مزاج، اعلٰی عدلیہ میں ان کے کردار اور فیصلوں پر روشنی ڈالی۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ اس وقت میرے اندر ملے جلے رجحانات ہیں۔ ’ایک طرف چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ پر دل اُداس ہے تو دوسری طرف خوشی بھی ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ اچھی صحت کے ساتھ ریٹائر ہو رہے ہیں۔‘
 جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو بہت اچھا انسان پایا اور وہ بہت نرم مزاج انسان ہیں۔
نامزد چیف جسٹس نے قاضی فائز عیسیٰ کو خطرناک ’ریچھ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر اپ ان کے ساتھ مسکرا کر اور اچھے انداز میں بات کریں تو وہ آپ کے ساتھ بہترین انسان کے طور پر بات کریں گے لیکن اگر آپ اس خطرناک ریچھ کو چھیڑیں گے یا تنگ کریں گے تو پھر اس کے بعد جو کچھ ہوگا اس حوالے سے میں کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا۔ میں صرف آپ کو یہ بتا سکتا ہوں کہ میرا تجربہ اچھا نہیں رہا۔‘
 انھوں نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے خواتین کے وراثتی جائیداد میں حق سے متعلق بہترین فیصلے کیے۔ ججز میں اختلاف رائے کو چیف جسٹس پاکستان قاضی نے تحمل کے ساتھ سنا۔
انھوں نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان نے حکومتی خرچ پر ظہرانہ لینے سے انکار کیا۔ ’ظہرانے کے خرچ کا سارا بوجھ مجھ پر پڑا۔ میں نے اپنے کچھ ساتھی ججز سے کہا آپ بھی شیئر کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس فائز عیسیٰ کے ساتھ کئی بار بینچ میں موجود رہا اور مجھے ان کے ساتھ بات کرنے میں کبھی کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔
آئین و قانون کی بالادستی اور اختیارات کی تقسیم کے اصولوں پر عمل ہوگا: یحیٰ آفریدی
اس موقع پر نامزد چیف جسٹس نے اپنی ترجیحات بتاتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں لاہور، کراچی، پشاور اور اسلام آباد سے ہٹ کر دور دراز کے اضلاع پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
انھوں نے واضح کیا کہ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی ہونی چاہیے جبکہ اختیارات کی تقسیم کے آئینی طریقہ کار پر عمل در آمد ہونا چاہیے۔

17 ستمبر 2023 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

فائز عیسیٰ نے یقینی بنایا کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں اپنی حدود میں کام کریں: اٹارنی جنرل
اپنے خطاب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یقینی بنایا کہ انٹیلی جنس ایجنسی اپنی حدود میں کام کریں۔
’چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یقینی بنایا کہ انٹیلیجنس ایجنسیاں سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس ہمیشہ بنیادی حقوق، آزادی اظہار اور خواتین کے حقوق کے علمبردار رہے۔ انہوں نے متعدد تاریخی فیصلے دیے، فیض آباد دھرنا کیس میں قانون کے مطابق اور پُرامن احتجاج کا تاریخی فیصلہ دیا۔ چیف جسٹس نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار کو بھی واضح کیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’چیف جسٹس بنتے ہی فل کورٹ ریفرنس بلایا گیا، جسٹس قاضی فائز نے مقدمات کو براہ راست نشر کرنے کا فیصلہ کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کے اختیارات کو کمیٹی کے سپرد کرنے جیسے اہم اقدامات اور فیصلے دیے۔ چیف جسٹس کا عام انتخابات کے انعقاد میں اہم کردار ہے۔ تمام سٹیک ہولڈرز کو جمہوریت کی بقا کے لیے انتخابات پر راضی کیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے والد پاکستان کے بانیان میں سے تھے۔‘
الوداعی ریفرنس میں پانچ ججز کی عدم شرکت
الوداعی ریفرنس میں نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس عرفان سعادت خان، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال حسن اور جسٹس عقیل عباسی شریک ہوئے۔
علاوہ ازیں الوداعی ریفرنس میں ایڈہاک ججز جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس مظہر عالم میاں بھی شریک ہوئے۔ شرعی عدالتی بنچ کے دو عالم ججز سمیت 12 مستقل جج صاحبان، دو ایڈہاک ججز اور دو عالم ججز شریک تھے۔
ججوں کے علاوہ سابق کرکٹر اور سابق وزیراعظم عمران خان کے کزن ماجد خان بھی سپریم کورٹ میں ہونے والے ریفرنس میں موجود تھے۔
سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ رخصت پر ہونے کی وجہ سے فل کورٹ ریفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔ ان کے علاوہ جسٹس ملک شہزاد، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک نے بھی ریفرنس میں شرکت نہیں کی۔
سپریم کورٹ میں یادگار بنیادی انسانی حقوق کا افتتاح
بعد ازاں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ میں یادگار کی افتتاح کی تقریب میں پہنچے۔ اس موقع پر نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سمیت دیگر ججز نے بھی شرکت کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’سپریم کورٹ میں یہ جگہ خالی تھی، لوگ دور دراز کے شہروں سے یہاں آکر سڑک پر تصاویر بنواتے ہیں، یہ یادگار عوام کے لیے ہے۔ جو آرکیٹیکٹ میرا مکان بنا رہا ہے اس نے رضاکارانہ طور پر اس کام کے لیے رضامندی ظاہر کی۔‘
چیف جسٹس اور دیگر ججوں نے مہمانوں کے ہمراہ یادگار کا دورہ کیا اور اس کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی اور اس پر ہونے والے کام پر بریفنگ لی۔

شیئر: