Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومتیں کرپشن بے نقاب کرنے والوں کو تحفظ دینے کے لیے قانون سازی میں ناکام کیوں؟

قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ کرپشن کی نشاندہی کرنے والوں کا تحفظ جمہوریت کی کامیابی کے لیے ناگزیر ہے (فوٹو: پیکسلز)
پاکستان میں مختلف شعبوں میں وسیع پیمانے پر بدعنوانی اور کرپشن ایک سنگین مسئلہ سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے بہتر حکمرانی یا گڈ گورننس پر ہر دور میں ہی سوال اٹھتے رہتے ہیں۔
کرپشن کی نشاندہی کرنے والے افراد کے تحفظ کی اہمیت کو تو سبھی سیاسی جماعتیں تسلیم کر چکی ہیں، لیکن اس کے باوجود قانون سازی کے میدان میں خاطر خواہ پیشرفت نہیں ہو سکی کہ ان کے تحفظ کے لیے قانون بنایا جا سکے۔
گذشتہ دو دہائیوں میں پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف اور فوجی حکمران پرویز مشرف سمیت مختلف حکومتوں نے ’کرپشن کی نشاندہی کرنے والوں‘ کے تحفظ کے قوانین متعارف کروانے کی کوشش کی۔ تاہم یہ کوششیں یا تو پارلیمنٹ میں ناکام ہوئیں یا ان پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔
کرپشن کی نشاندہی کرنے والوں کے تحفظ کی سمت میں پہلی اہم کوشش قومی احتساب بیورو (نیب) آرڈیننس 1999 کے ذریعے کی گئی، جسے پرویز مشرف کی فوجی حکومت نے متعارف کروایا تھا۔ اس آرڈیننس میں کچھ شقیں شامل تھیں جو مخبروں کو بدعنوانی کی اطلاع دینے کی اجازت دیتی تھیں لیکن ان کو مکمل قانونی تحفظ فراہم نہیں کرتی تھیں، جس کی وجہ سے وہ انتقامی کارروائی کے خطرے میں رہتے تھے۔
ایک اور بڑی کوشش 2017 میں ہوئی جب نواز شریف کی حکومت نے عوامی مفاد افشاء بل پیش کیا۔ اس بل کا مقصد سرکاری اداروں میں بدعنوانی اور دھوکہ دہی کو بے نقاب کرنے والوں کو قانونی تحفظ فراہم کرنا تھا۔ تاہم سیاسی مزاحمت کی وجہ سے یہ بل قومی اسمبلی سے پاس نہ ہو سکا، اور خدشہ ظاہر کیا گیا کہ اس قانون کے اطلاق سے بیوروکریسی اور سیاسی طریقوں پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
وفاقی سطح پر قانون سازی میں ناکامی کے باوجود کچھ صوبوں میں محدود پیشرفت دیکھنے میں آئی ہے۔ 2019 میں پنجاب حکومت نے پنجاب میں کرپشن کی نشاندہی کرنے والوں کے لیے تحفظ آرڈیننس جاری کیا جس کا مقصد صوبے میں بدعنوانی کو بے نقاب کرنے والے افراد کو قانونی تحفظ فراہم کرنا تھا۔ تاہم اس آرڈیننس کے نفاذ میں بھی خامیاں نظر آئیں، اور یہ صرف پنجاب تک محدود رہا۔ 120 دن کی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد یہ آرڈیننس ختم ہو گیا لیکن اس وقت کی پنجاب حکومت اسے قانون کی شکل نہ دے سکی۔
ماہرین کہتے ہیں ہیں کہ کرپشن کی نشاندہی کرنے والوں کے تحفظ کے قوانین کو اپنانے میں کئی عوامل رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ جن میں سب پہلے سیاسی مزاحمت ہے۔
ایڈووکیٹ امجد سرفراز کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سیاسی صورتحال بدعنوانی اور سرپرستی کے نظام سے متاثر ہے، اور اسی وجہ سے کرپشن کی نشاندہی کرنے والوں کے تحفظ کے قوانین کو منظور کرنا مشکل رہا ہے۔ سیاسی شخصیات اور بیوروکریٹس اس قانون سازی سے محتاط رہتے ہیں، کیونکہ انہیں خدشہ ہوتا ہے کہ ان کے اپنے حلقے یا بااثر افراد بے نقاب ہو جائیں گے۔

پرویز مشرف کی فوجی حکومت نے 1999 میں نیب کا ادارہ متعارف کروایا تھا (فوٹو اے پی پی)

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے بدعنوانی سے نمٹنے والے ادارے، جیسے نیب اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) پر اکثر سیاسی مداخلت کا الزام لگتا ہے، اور وہ خودمختاری سے محروم ہوتے ہیں۔ بغیر مضبوط اور خودمختار اداروں کے کرپشن کی نشاندہی کرنے والوں کے تحفظ کے قوانین کے مؤثر نفاذ کا امکان کم ہوتا ہے۔
امجد سرفراز کے مطابق صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان اقوام متحدہ کے انسداد بدعنوانی کنونشن (یو این سی اے سی) کا رکن ہے جس میں کرپشن کی نشاندہی کرنے والوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی دباؤ کے باوجود اس مسئلے کو اب تک ترجیح نہیں دی گئی۔
قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ کرپشن کی نشاندہی کرنے والوں کا تحفظ جمہوریت کی کامیابی کے لیے ناگزیر ہے۔ بغیر مؤثر قانونی تحفظات کے ہم بدعنوانی کو بے نقاب کرنے والوں کو حوصلہ نہیں دے رہے اور اس کے برعکس بدعنوانی کو فروغ دے رہے ہیں۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے کرپشن پرسپشن انڈیکس کے مطابق کرپشن اور بدعنوانی کی نشاندہی کرنے والوں کے تحفظ کے قوانین نہ ہونے کے گہرے اثرات ہیں۔ بدعنوانی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، کیونکہ بہت سے افراد جن کے پاس اہم معلومات ہوتی ہیں، قانونی تحفظ کی عدم موجودگی کے سبب سامنے آنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس سے پاکستان کی معیشت کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچتا ہے۔
پاکستان کا کرپشن سے نمٹنے میں ریکارڈ ناقص ہے۔ اس میں کرپشن کی نشاندہی کرنے والوں کے تحفظ کی کمی اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔
پاکستان بین الاقوامی ماڈلز جیسے کہ امریکہ کے کرپشن کی نشاندہی کرنے والوں کے تحفظ کا قانون (1989) اور برطانیہ کا پبلک انٹرسٹ ڈسکلوزر ایکٹ (1998) سے رہنمائی حاصل کر سکتا ہے۔ دونوں فریم ورک مضبوط حفاظتی انتظامات فراہم کرتے ہیں اور پاکستان کی قانون سازی کے لیے نمونہ بن سکتے ہیں۔
دوسری جانب جب اس معاملے پر وزارت قانون کے حکام سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ ’فی الوقت وزارت میں کسی سطح پر بھی ایسی کوئی نئی قانون سازی زیرِ غور نہیں ہے جس سے کرپشن کو بے نقاب کرنے والوں کے تحفظ کے لیے کوئی بل لایا جا رہا ہو۔ نہ ہی اس سلسلے میں کوئی کمیشن قائم کیا جا رہا ہے۔‘

ماہرین سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں قوانین کے نفاذ کا کمزور میکانزم اس مسئلے کو مزید سنگین بنا رہا ہے (فائل فوٹو)

حکام نے بتایا کہ پاکستان میں نیب قانون میں بھی کرپشن کی نشاندہی کرنے والوں کو تحفظ حاصل ہے اور وہ نامعلوم رہتے ہوئے بھی کرپشن کی شکایت کر سکتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے قانون شہادت میں بھی کسی بھی جرم کی نشاندہی کرنے والے افراد کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔
حکام کے مطابق جب پنجاب میں کرپشن اور بدعنوانی کو بے نقاب کرنے والوں کے تحفظ کے لیے آرڈیننس لایا گیا تو اس وقت وفاقی سطح پر بھی اس طرح کی تجاویز پر غور کیا گیا لیکن پنجاب میں آرڈیننس لیپس ہونے کے بعد وفاقی سطح پر بھی یہ کوششیں دم توڑ گئیں۔
قانونی ماہر قمر افضل نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ پاکستان کے قانون شہادت میں ایسے تمام افراد کو تحفظ حاصل ہے جو کسی بھی جرم یا کرپشن کی نشاندہی کرتے ہیں۔ عدالتیں ایسے تمام افراد کے تحفظ کو یقینی بنانے کی بھی ہدایات جاری کرتی ہیں۔
ان کے مطابق قوانین پہلے سے موجود ہوں تو ان پر عمل درآمد کو یقینی بنانا چاہیے نہ کہ متوازی قوانین بنا کر انہیں مزید پیچیدہ کیا جائے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ وفاقی سطح پر مضبوط قانون سازی اور آزاد نگرانی کے نظام کے ساتھ ساتھ عوامی آگاہی مہمات ہی پاکستان میں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات ثابت ہو سکتے ہیں۔
ماہرین سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں قوانین کے نفاذ کا کمزور میکانزم اس مسئلے کو مزید سنگین بنا رہا ہے۔ یہاں تک کہ اگر قوانین پاس ہو جائیں، اس بات کا بہت کم امکان ہوتا ہے کہ وہ مؤثر طریقے سے نافذ ہو سکیں گے۔
عدلیہ میں کیسز کا بیک لاگ اور طاقتور شخصیات کے خلاف کارروائی کرنے والے افراد کے لیے ناکافی قانونی تحفظ، اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ بدعنوانیوں کی نشاندہی کرنے والوں کے تحفظ کے قوانین کو نافذ کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہوگا۔

شیئر: