ووٹرز سے وعدے، دوسری مدتِ صدارت میں ٹرمپ کی پالیسی کیا ہو گی؟
ووٹرز سے وعدے، دوسری مدتِ صدارت میں ٹرمپ کی پالیسی کیا ہو گی؟
جمعہ 8 نومبر 2024 7:41
ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے کا نعرہ لگایا۔ فوٹو: اے ایف پی
امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران ووٹرز کے ساتھ متعدد وعدے کیے جو وہ اپنی دوسری مدت میں پورا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
سابق صدر اور اب ایک مرتبہ پھر منتخب ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ اگرچہ ان مجوزہ منصوبوں کی تفصیل میں کبھی نہیں گئے لیکن ٹیکسوں، قواعد و ضوابط، ثقاقتی مسائل اور تجارت سے متعلق زبانی یا تحریری طور پر پالیسی بیانات جاری کرتے آئے ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کے ایجنڈے پر شہری حقوق پر موجودہ ڈیموکریٹ حکومت کے اقدامات کو پیچھے دھکیلنا اور صدارتی اختیارات کا دائرہ مزید وسیع کرنا بھی شامل ہے۔
امیگریشن کے معاملے پر ڈونلد ٹرمپ نے 2016 کی انتخابی مہم کے دوران ’دیوار کھڑی کرنے‘ کا نعرہ لگایا تھا اور اس کے تحت تاریخ کا سب سے بڑا جلاوطنی کا پروگرام شروع ہوا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ مہم کے دوران غیرقانونی تارکین وطن کو روکنے کی کوشش میں نیشنل گارڈز کی خدمات حاصل کرنے اور اندرونی پالیسی کو مضبوط کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اس حوالے زیادہ معلومات فراہم نہیں کیں کہ اس بات کو کیسے یقینی بنایا جائے گا کہ پروگرام کے تحت صرف غیرقانونی طور پر رہنے والوں کو نشانہ بنایا جائے۔
انہوں نے امریکہ میں آئندہ داخل ہونے والوں کے لیے صرف نظریاتی بیانات دیے اور پیدائش پر شہریت کا حق ختم کرنے کی بات کی جس کے لیے دراصل آئینی ترمیم درکار ہے اور اس کے ساتھ ہی اپنے پہلی مدت کی پالیسی ’میکسیکو میں رہیں‘ کو ایک مرتبہ پھر بحال کرنے کا کہا ہے۔
اس پالیسی کے تحت صحت کو بنیاد بناتے ہوئے تارکین وطن کو امریکہ داخل ہونے سے روکا گیا اور چند مسلمان ممالک سے آنے والوں پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔
تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کے نقطہ نظر سے واضح ہے کہ وہ نہ صرف غیرقانونی مائیگریشن پر کریک ڈاؤن کریں گے بلکہ مجموعی طور پر بھی امیگریشن میں کمی لے کر آئیں گے۔
اسقاط حمل پر ٹرمپ کا نرم مؤقف
ماضی کے مقابلے میں اس مرتبہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اسقاط حمل کے معاملے پر نرم مؤقف اپنایا اور اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ اگر خواتین کے اس حق پر پابندی عائد کرنے کے لیے کسی قسم کی قانون سازی ہوئی تو وہ صدارتی اختیار استعمال کرتے ہوئے اسے ویٹو کر دیں گے۔
یاد رہے کہ ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں سپریم کورٹ کے تین ججوں نے اسقاط حمل پر اپنے ہی 50 سال پرانے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے خواتین سے ان کا یہ حق چھین لیا تھا۔
تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کے اصرار پر ریپبلیکن پارٹی نے کئی دہایوں میں پہلی مرتبہ اپنی پلیٹ فارم سے ملک بھر میں اسقاط حمل پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ نہیں کیا۔
لیکن اس کے باوجود یہ واضح نہیں کہ بائیڈن انتظامیہ کی طرح ان کی حکومت بھی اسقاط حمل کی گولیوں تک رسائی کو محدود کرنے سے متعلق قانونی چیلنجز کا اتنے ہی جارحانہ انداز میں دفاع کرے گی۔
انسداد اسقاط حمل کے حامی پہلے ہی فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی کی منظور کردہ ادویات کے خلاگ قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔
اس بات کا بھی انتہائی کم امکان ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ، صدر بائیڈن کی جانب سے جاری ہدایات پر بھی عمل درآمد کروائیں گے جن کے تحت ہسپتالوں پر لازم تھا کہ وہ ایمرجنسی کی حالت میں خاتون کا اسقاط حمل کریں گے اور ان ریاستوں میں بھی جہاں اسقاط حمل پر پابندی عائد ہے۔
دولت مند امریکیوں پر ٹیکسوں میں کمی
ٹرمپ کی ٹیکس پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا جھکاؤ کارپوریشن اور دولت مند امریکیوں کی طرف زیادہ ہے۔ اس کی وجہ ان کا یہ بیان ہے کہ چند تبدیلیوں کے ساتھ 2017 کی ٹیکس پالیسی کا دائرہ وسیع کیا جائے گا جس میں کارپوریٹ انکم ٹیکس کم کر کے 21 سے 15 فیصد لانا شامل ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے دولت مند امریکیوں پر عائد ٹیکسوں میں اضافے کا اقدام کالعدم قرار دے دیا جائے گا اور اس کے ساتھ ہی مہنگائی میں کمی کا قانون بھی ختم کیا جائے گا جس کے تحت ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے توانائی کے اقدامات کی مالی معاونت کی جاتی ہے۔
ان مجوزہ پالیسیوں کے باوجود ٹرمپ نے ورکنگ اور مڈل کلاس امریکیوں کے لیے نئی تجاویز پر بہت زیادہ زور دیا ہے اور کام کے دوران ملنے والی ٹِپ، سوشل سکیورٹی کے تحت ملنے والی رقم اور اوور ٹائم یعنی طے شدہ اوقات سے زیادہ کام کرنے پر ملنے والی اضافی رقم پر انکم ٹیکس عائد نہیں کیا جائے گا۔
بین الاقوامی تجارت اور درآمدات
بین الاقوامی تجارت کے حوالے سے ٹرمپ نے درآمد شدہ اشیا پر 10 سے 20 فیصد ٹیکس عائد کرنا کی تجویز دی ہے اور 2020 کے صدارتی حکمانے کو ایک مرتبہ پھر بحال کرنے کا عہد کیا ہے جس میں وفاقی حکومت کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ ’ضروری‘ ادویات صرف امریکی کمپنیوں سے خرید سکتے ہیں۔
نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم میں یہ بھی وعدہ کیا تھا کہ وہ چینی خریداروں کے ذریعے امریکہ میں ’کسی بھی اہم انفراسٹرکچر‘ کی خریداری کو روکیں گے۔
بیوروکریسی اور صدارتی اختیارات
ڈونلڈ ٹرمپ اقتصادی شعبوں میں وفاقی بیورو کریٹس کے کردار اور قواعد و ضوابط کو کم کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے فوسل فیول یعنی حیاتیاتی ایندھن کی پیداوار میں حائل رکاوٹوں کو دور کر کے گھروں کے یوٹیلیٹی بلوں میں فوری کمی کا وعدہ کیا ہے اور تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش کے لیے پورے ملک کی زمین تک رسائی دینے کا ہے اگرچہ امریکی توانائی کی پیداوار پہلے ہی ریکارڈ بلند سطح پر ہے۔
سابق صدر یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ ’ماحولیاتی انتہا پسندوں کی جانب سے غیرسنجیدہ قانون چارہ جوئی‘ کو بھی ختم کریں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی سوچ کئی طریقوں سے ایگزیکٹو برانچ کے اثر و رسوخ کو مزید مضبوط کرے گی اور نتیجاً طاقت کا سرچشمہ وائٹ ہاؤس ہوگا۔
اس کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات سے ہزاروں کی تعداد میں سرکاری ورکرز جنہیں سول سروس سسٹم کے تحت تحفظ حاصل تھا انہیں برطرف کرنا آسان ہو جائے گا۔
ٹرمپ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ کانگریس کی جانب سے رقم مختص کرنے کے بعد بھی صدر کے پاس وفاقی اخراجات کو کنٹرول کرنے کا خصوصی اختیار ہے۔ ٹرمپ کے مطابق صدر کا یہ آئینی فرض ہے کہ وہ ’ایمانداری کے ساتھ قانون پر عمل درآمد کرے‘ بشمول رقم خرچ کرنے کی صوابدید جو صدر کو حاصل ہوتی ہے، تاہم یہ تشریح کانگریس کے ساتھ قانوی جنگ کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیاں اور توانائی
ٹرمپ جو ماحولیاتی تبدیلیوں کو غیرحقیقی قرار دیتے آئے ہیں انہوں نے بائیڈن انتظامیہ کے دور میں حیاتیاتی ایندھن پر ملکی انحصار کم کرنے کی غرض سے صاف توانائی پر کیے گئے اخراجات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
انہوں نے اپنی دوسری مدت میں حیاتیاتی ایندھن کی پیدوار میں مزید اضافے کا وعدہ کیا ہے۔
الیکٹرک گاڑیوں کے حوالے سے سابق صدر کا کہنا ہے کہ وہ ان کے خلاف نہیں ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے ان اقدامات کو بھی ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے جو ان گاڑیوں کی ڈویلپمنٹ کی حوصلہ افزائی کے لیے کیے گئے۔ اس کے ساتھ ہی ایندھن کی کارکردگی بڑھانے کی غرض سے ہونے والے اقدامات کو بھی پیچھے دھکیلنے کا کہا ہے۔
قومی دفاع اور امریکہ کا دنیا میں کردار
ٹرمپ کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خارجہ امور میں سفارتی تنہائی پسندی، عسکری عدم مداخلت اور معاشی شعبے میں تحفظ پسندانہ پالیسیوں کے خواہاں ہیں۔
انہوں نے فوج کی توسیع، پینٹاگون کے اخراجات کو کفایت شعاری کی کوششوں سے بچانے اور ایک نئی میزائل ڈیفنس شیلڈ کی تجویز دی ہے جو دراصل سرد جنگ کے دور کا آئیڈیا تھا اور صدر ریگن کے دور حکومت میں دیا گیا تھا۔
ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ روس کی یوکرین میں اور اسرائیل حماس جنگ کو ختم کر سکتے ہیں تاہم انہوں نے تفصیلات میں جانے سے گریز کیا کہ ایسا کرنا کیسے ممکن ہوگا۔
ٹرمپ نے اپنی مجوزہ پالیسی کو ریگن دور کے مشہور جملے ’طاقت کے ذریعے امن‘ سے مختصراً بیان کیا لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے نیٹو سمیت امریکہ کی اعلیٰ عسکری قیادت پر بھی تنقید کر چکے ہیں
سابق صدر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ پینٹاگون کے حکام جنہیں امریکی عوام ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہیں انہیں ’میں لیڈر تصور نہیں کرتا‘، جبکہ دوسری جانب ٹرمپ ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوربن اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن جیسے آمروں کی کئی بار تعریف کرتے سنائی دیے ہیں۔