Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عراق میں 50 ہزار سے زائد غیرقانونی طور پر مقیم پاکستانی وہاں کیسے پہنچے؟

ہر سال بہتر مستقبل کی خاطر نوجوان غیرقانونی طور پر یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
’ہمارے ارد گرد اور گلی محلے سے بہت سے لوگ بیرون ملک جا چکے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کے مالی حالات اور معیار زندگی کافی حد تک بہتر بھی ہو چکا ہے۔ ہم بھائیوں کی بھی خواہش تھی کہ ہم میں سے کوئی ایک بیرون ملک چلا جائے اور ہمارے دن بھی بدل جائیں۔ اسی کوشش میں تھے کہ کسی جاننے والے کے ذریعے معلوم ہوا کہ عراق میں تعمیر نو کے سلسلے میں مزدوروں کی بہت زیادہ کھپت ہے۔ وہاں جانے کا طریقہ یہ ہے کہ زائر کا ویزا حاصل کیا جائے اور وہاں جا کر مقامی ایجنٹوں کے ساتھ مل کے کام پر لگ جائیں۔‘
یہ کہنا ہے ضلع منڈی بہاؤالدین کی تحصیل پھالیہ کے رہائشی محمد یاسین کا جن کے بھائی محمد اصغر کچھ عرصہ قبل زائر کا ویزا حاصل کرنے کے بعد عراق پہنچے تھے۔ 
اپنی غربت کی داستان سناتے ہوئے محمد یاسین نے بتایا کہ وہ چار بھائی ہیں اور زیادہ پڑھے لکھے بھی نہیں۔ تھوڑی بہت زراعت اور ساتھ میں مزدوری کر کے گھر کا گزارا کرتے ہیں۔
’گاؤں اور ارد گرد کے دیہات کے بہت سے نوجوان خلیجی ممالک میں روزگار حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف ایجنٹوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کے لیے پیسے کما رہے ہیں۔ ایسے میں جب ارد گرد کے لوگوں کے پاس پیسے کی بہتات ہو جائے تو ہم جیسے غریبوں کو اپنی غربت مزید پسماندگی میں جاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ہم نے کوشش کی کہ کسی یورپی ملک نکل جائیں لیکن ایجنٹ اب 15 سے 20 لاکھ روپے کا تقاضا کرتے ہیں اور پہنچنے کی کوئی گارنٹی بھی نہیں اور آئے روز حادثات سے دل کھٹا ہو جاتا ہے۔
’اسی تگ و دو میں تھے کہ کسی نے مشورہ دیا کہ عراق میں جنگ کے بعد تعمیر نو کے لیے کنسٹرکشن کے کام کا سلسلہ جاری ہے اور وہاں پر مزدوروں کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ورکر کا ویزا اگرچہ مہنگا ہے لیکن اگر زیارتوں کے ذریعے وہاں پہنچ جائیں تو کام مل جاتا ہے۔‘
محمد یاسین کے مطابق مقامی ایجنٹ سے رابطہ کیا اور جلد ہی بات بن گئی اور بھائی محمد اصغر زیارتوں پر روانہ ہو گئے۔ ظاہر ہے ان کا مقصد وہاں پہنچ کر کام تلاش کرنا تھا جس کے لیے ان کا وہاں پر پاکستانی لوگوں سے پہلے ہی رابطہ استوار ہو چکا تھا۔ جن کی مدد سے کام تو مل گیا لیکن کچھ ہی عرصے بعد بھائی نے بتایا کہ وہ بری طرح سے پھنس چکے ہیں۔ جتنا زیادہ کام لیا جا رہا تھا اتنی رقم ادا نہیں کی جا رہی تھی۔ بیرون ملک جا کر بھی آمدنی کی شرح وہی تھی جتنی پاکستان میں محنت مزدوری کر کے حاصل کی جا سکتی ہے لیکن کام اس سے کئی گنا زیادہ تھا۔ 

محمد اصغر سے جتنا زیادہ کام لیا جا رہا تھا اتنی رقم ادا نہیں کی جا رہی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے بتایا کہ ’اب ہم کئی ماہ سے انہیں واپس لانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ویزا ایکسپائر ہو جانے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ کسی نے یہ بھی خبر دی ہے کہ حکومتی سطح پر یہ کوشش ہو رہی ہے کہ جو ورکر غیرقانونی طور پر وہاں موجود ہیں۔ انہیں کسی طریقے سے عراقی حکومت سے بات کر کے قانونی ورکر کا درجہ دلوا دیا جائے۔ اس سے اگرچہ امید تو بندھی ہے لیکن بہت زیادہ توقعات بھی وابستہ نہیں کر سکتے۔‘
محمد اصغر واحد پاکستانی نہیں جو عراق میں زیارت پر گئے اور پھر کام کاج میں لگ گئے۔ صرف کام کاج ہی نہیں بلکہ ایک طرح سے بیگار کیمپ کا حصہ بنے۔ بلکہ 50 ہزار سے زائد پاکستانی اس وقت عراق میں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں اور مختلف جگہوں پر کام کر رہے ہیں۔ 
اس بات کا انکشاف سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اوورسیز پاکستانیز کے اجلاس میں ہوا۔ جہاں حکام نے بتایا کہ عراق میں صرف آٹھ ہزار پاکستانی قانونی طور پر کام کر رہے ہیں، جبکہ 50 ہزار سے زائد غیر قانونی طور پر مقیم ہیں جو زیارتوں پر گئے اور واپس نہیں آئے۔ 
کمیٹی میں غیرقانونی طور پر مقیم پاکستانیوں کی حالت زار کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال ہوا۔ کمیٹی کے مختلف ارکان نے بتایا کہ ان پاکستانیوں کے اہل خانہ کے مطابق ان سے زبردستی اور استطاعت سے بڑھ کر کام لیا جاتا ہے جبکہ 300 سے 400 ڈالر ماہانہ ادائیگی کی جا رہی ہے جو کہ لیبر قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ 
اس حوالے سے پاکستان کے دفتر خارجہ کے حکام کا کہنا ہے کہ 50 ہزار سے زائد پاکستانیوں کی عراق میں موجودگی کے حوالے سے دعویٰ درست دکھائی نہیں دیتا۔ 
اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر وزارت خارجہ کے متعلقہ حکام نے بتایا کہ کسی بھی ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کی تعداد کا حتمی تعین کرنا ناممکن ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ 50 ہزار سے زائد پاکستانی عراق میں مقیم ہیں، کچھ زیادہ درست دکھائی نہیں دیتا البتہ یہ بات ضرور ہے کہ زیارتوں پر جانے والے بہت سے پاکستانی واپس آنے کی بجائے وہیں کام کاج اور دیگر سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ 
حکام نے بتایا کہ چونکہ عراق میں یہ پاکستانی موجود ہیں اور عراق کبھی نہیں چاہے گا کہ غیرقانونی طور پر مقیم پاکستانی وہاں رہ کر کمائی کریں اور گداگری اور دیگر غیرقانونی پیشوں کا حصہ بنے اس لیے وہ بار بار اس معاملے کو اٹھا رہا ہے۔ 
وزارت خارجہ کے مطابق اس معاملے کو بین الاقوامی طے شدہ طریقہ کار کے مطابق حل کیا جائے گا اور پاکستانیوں کے حوالے سے جو بھی اقدامات ناگزیر ہوں گے، وہ اٹھائے جائیں گے۔ 

اکثر نوجوان یورپ پہنچنے کے چکر میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اردو نیوز نے جب سیکریٹری وزارت اوورسیز پاکستانی سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ وزارت اوورسیز پاکستانی بنیادی طور پر ان ورکرز کی فلاح و بہبود کی ذمہ دار ہے جو پاکستان سے پروٹیکٹوریٹ حاصل کر کے بیرون ملک روزگار حاصل کرتے ہیں۔
’تاہم اگر کوئی پاکستانی کسی بھی وجہ سے غیرقانونی طور پر دوسرے ملک پہنچ جائے تو بحیثیت پاکستانی ادارہ ہم یہ کوشش تو کر سکتے ہیں کہ ان کے لیے آواز اٹھائیں اور میزبان حکومت سے اقدامات لینے کا کہیں لیکن ان ورکرز کے کسی فعل کی ذمہ داری وزارت پر عائد نہیں ہوتی۔‘
تاہم انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے کافی غور و خوض کیا گیا ہے اور معاملہ وفاقی کابینہ کو بھجوایا جا رہا ہے تاکہ وہ اس سلسلے میں فیصلہ کریں کہ عراق کی حکومت کے ساتھ اس معاملے کو کس انداز سے اٹھانا ہے۔ 
وزارت اوورسیز پاکستانی کے حکام کے مطابق وفاقی کابینہ کو یہ تجویز دی جا سکتی ہے کہ وہ عراقی حکومت کے ساتھ ان غیرقانونی ورکرز کو قانونی ورکرز میں تبدیل کرنے کے لیے اقدامات کریں اور انہیں ورکر کا ویزا جاری کر دیں۔ یوں ان کو قانونی حیثیت مل جانے کی وجہ سے ان کے حالات میں بہتری بھی آ جائے گی اور انہیں روزگار کے حصول میں بھی آسانی ہو گی۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کی آمدن میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ 
حکام کے مطابق اگر عراقی حکومت اس پر راضی نہیں ہوتی تو پھر ان پاکستانیوں کو ڈیپورٹ ہونے سے نہیں بچایا جا سکتا۔ 
دوسری جانب پاکستان میں عراق کا سفارت خانہ بھی ان غیرقانونی طور پر مقیم پاکستانیوں کے حوالے سے خاصا پریشان دکھائی دے رہا ہے۔ سفارت خانہ اس سلسلے میں وزارت خارجہ، وزارت داخلہ اور دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ مسلسل اس معاملے کو اٹھانے میں مصروف ہے۔ 
سفارتی حکام نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں یہ بتایا ہے کہ اس سلسلے میں پاکستان کی حکومت کو باضابطہ طور بتایا گیا ہے کہ عراق میں 50 سے 60 ہزار پاکستانی غیرقانونی طور پر مقیم ہیں۔ 
صرف عراق کی حکومت ہی نہیں بلکہ عراق میں پاکستان کے سفارت خانے نے بھی وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف ائی اے کو خط لکھ کر صورتحال سے آگاہ کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ ان پاکستانیوں کو بھجوانے والے ایجنٹوں کے خلاف کاروائیاں کی جائیں۔ 44 پاکستانی ایجنٹس انسانی سمگلنگ کے جرم میں عراق میں قید ہیں۔ 
جس کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ان ایجنٹوں کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے جو 50 ہزار سے زیادہ پاکستانیوں کو غیرقانونی طور پر عراق بھیجنے میں ملوث ہیں۔

ایف آئی اے کے ترجمان کے مطابق زیادہ تر افراد زیارتوں کے ذریعے ہی عراق پہنچے ہیں۔ (فائل فوٹو)

ترجمان ایف آئی اے کے مطابق ایف آئی اے ہیڈ کوارٹرز نے گوجرانوالہ اور اسلام آباد زونز کو ہدایات جاری کیں کہ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ایجنٹوں کی شناخت کی جائے اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔
سفارت خانے کے خط کے مطابق، ایجنٹس لوگوں سے پانچ سے چھ لاکھ روپے وصول کرتے ہیں اور انہیں جھوٹے وعدے کرتے ہیں کہ عراق میں ان کے لیے روزگار کے مواقع ہیں۔ ’ان میں سے کئی پاکستانی اب مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہیں، اور ان کے ساتھ استحصال، ہراسانی اور بدسلوکی کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔‘
خط میں ان ایجنٹوں کے نام بھی شامل ہیں جنہوں نے دو دو پاسپورٹ کے ذریعے لوگوں کو عراق بھیجا۔ خط میں ذکر کیا گیا کہ غیرقانونی طور پر مقیم پاکستانی غیرقانونی طور پر کام کرنے، بھیک مانگنے، چوری، منشیات فروشی اور سمگلنگ جیسے جرائم میں ملوث ہیں۔
ترجمان ایف آئی اے کے مطابق ایف آئی اے گوجرانوالہ زون نے انسانی سمگلنگ میں ملوث عناصر کے خلاف ایک بڑی کارروائی کرتے ہوئے 76 مقدمات درج کیے اور 35 انسانی سمگلرز کو گرفتار کر لیا۔ ان گرفتار شدگان میں ایک انتہائی مطلوب سمگلر کے علاوہ سات ایسے اشتہاری ملزمان بھی شامل ہیں جو کافی عرصے سے قانون کی گرفت سے بچ رہے تھے۔ 
ترجمان نے بتایا کہ ان میں سے زیادہ تر افراد زیارتوں کے ذریعے ہی عراق پہنچے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو بلوچستان سے ایران اور پھر ایران سے زمینی راستے کے ذریعے عراق میں داخل ہوئے۔ 
ایف آئی اے کے ترجمان نے بتایا کہ انسانی سمگلنگ کے ان مقدمات میں سے 11 کی تحقیقات مکمل کر لی گئی ہیں اور ان کے چالان عدالت میں جمع کرا دیے گئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے دوران ایف آئی اے کی مختلف کارروائیوں کے نتیجے میں 99 انکوائری کیسز کی تحقیقات بھی مکمل کی گئیں۔
اس کے علاوہ، ایف آئی اے امیگریشن سیالکوٹ نے اپنی کارروائیوں میں عراق جانے والے پانچ مشتبہ بھکاریوں سمیت 30 مسافروں کو آف لوڈ کیا۔ یہ وہ افراد تھے جنہیں غیرقانونی طور پر بیرون ملک بھیجا جا رہا تھا یا ان کے سفری دستاویزات مشکوک تھے۔
ترجمان نے بتایا کہ ان کارروائیوں کے نتیجے میں صرف عراق ہی نہیں دیگر ممالک میں جعل سازی کے ذریعے جانے والوں کا راستہ روکنے میں بھی کامیابی ملی ہے۔
ایف آئی اے امیگریشن سیالکوٹ نے کارروائی کرتے ہوئے سات مسافروں کے پاس سے یونان، اٹلی اور جنوبی افریقہ کے جعلی ویزے بھی برآمد کیے۔ ان جعلی ویزوں کی موجودگی کی بنیاد پر ان مسافروں کے ساتھ ساتھ ان کے سہولت کار ایجنٹوں کے خلاف بھی قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ 
ترجمان ایف آئی اے کے مطابق، یہ اقدامات انسانی سمگلنگ کو روکنے کے لیے جاری ملک گیر مہم کا حصہ ہیں، جس کا مقصد پاکستانی شہریوں کو غیرقانونی اور خطرناک راستوں پر جانے سے بچانا ہے۔

شیئر: