Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈونلڈ ٹرمپ کا اہم عہدوں کے لیے شخصیات کا انتخاب مشرق وسطیٰ کے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟

عرب امریکیوں کی اکثریت نے ڈونلڈ ٹرمپ کع ووٹ ڈالا تھا۔ فوٹو: اے پی
بائیڈن انتظامیہ کی غزہ اور لبنان میں اسرائیلی مداخلتوں کو روکنے میں ناکامی کو بنیاد بناتے ہوئے 5 نومبر کو عرب امریکیوں نے ڈیموکریٹ پارٹی کے لیے روایتی حمایت کو ترک کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں ریکارڈ تعداد میں ووٹ ڈالے۔
انتخابات سے چند دن قبل عرب نیوز/یو گو کے عوامی سروے سے بھی ظاہر ہوا تھا کہ عرب امریکیوں کے خیال میں کملا ہیرس کے بجائے ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت میں اسرائیل فلسطین تنازع کو کامیابی کے ساتھ حل کرنے کا زیادہ امکان ہے جبکہ وہ اسرائیلی حکومت کی زیادہ حمایت کرتے دکھائی دیے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ عرب امریکیوں کے خیال میں ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے لیے اتنے ہی اچھا ثابت ہوں گے جتنا کہ کملا ہیرس ہیں۔
اب جب ٹرمپ نے اپنی کابینہ میں اہم عہدوں کے لیے شخصیات کا انتخاب کر لیا ہے، اس سے واضح ہوتا جا رہا ہے کہ احتجاجی ووٹ کا مشرق وسطیٰ اور فلسطینیوں پر کیا اثر ہو سکتا ہے، تاہم ان نامزدگیوں کی سینیٹ سے توثیق ہونا باقی ہے۔
اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ ٹرمپ کے انتخاب کے حوالے سے اپنے تبصرے میں کہا کہ ’اقوام متحدہ اور اسرائیل کے لیے نئے سفیر سمیت قومی سلامتی کے مشیر اور مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی ایلچی کا اعلان، نئی ٹیم کی تشکیل کے حوالے سے مثبت پیش رفت ہیں جو اسرائیل کی حامی ہو گی، اور ایران جیسے مخالفین کے مقابلے میں مضبوط ہو گا۔‘
امریکی ٹیلی ویژن سی این این کی رپورٹ کے مطابق، موجودہ اور سابق امریکی حکام نے اس خیال کے خلاف احتیاط برتنے کا کہا کہ انٹیلیجنس کمیونٹی یکساں طور پر ٹرمپ کی مخالفت کر رہی ہے۔ 18 ایجنسیاں جن میں ہزاروں کی تعداد میں تجزیہ کار اور آپریٹرز کام کرتے ہیں، ان میں بہت سے ایسے بھی ہیں جو نومنتخب صدر کے حامی ہیں اور ممکنہ طور پر ان کی واپسی کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

مارک روبیو نے ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کو آگے بڑھانے کے عہد کا اظہار کیا۔ فوٹو: اے پی

مارک روبیو کا بطور وزیر خارجہ انتخاب
فلوریڈا کے ریپبلکن سینیٹر روبیو سخت خارجہ پالیسی کے حامی رہے ہیں جبکہ ان کی تقرری صدر ٹرمپ کے اُن دعوں کے برعکس ہے جب انہوں نے مہم کے دوران اس خواہش کا اظہار کیا کہ دنیا کے پولیس مین کے طور پر امریکہ کا کردار نہیں دیکھنا چاہتے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے منشور میں ’امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے کے 20 بنیادی وعدوں‘ میں سے ایک ’اپنی فوج کو مضبوط اور جدید بنانے کے علاوہ دنیا کی سب سے مضبوط اور طاقتور فوج بنانا ہے۔‘
دوسری طرف ٹرمپ نے اس بات کو یقینی بنانے کا وعدہ کیا ہے کہ ’ہماری حکومت اس عظیم طاقت کو کم سے کم استعمال کرے، اور صرف واضح صورتوں میں استعمال کرے جہاں ہمارے قومی مفادات کو خطرہ لاحق ہو۔‘
سال 2023 میں واشنگٹن میں کوڈ پنک نامی سماجی گروپ کے ایک سوال پر مارک روبیو نے کہا تھا کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کی حمایت نہیں کرتے، ’میں چاہتا ہوں کہ اسرائیل حماس کے ایک ایک جز کو تباہ کرے۔‘
ان سے جب روزانہ کی بنیاد پر ہلاک ہونے والے بچوں کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا ’میرے خیال میں یہ بہت ہی برا ہے اور اس کا ذمہ دار سو فیصد حماس ہی ہے۔‘
ایران کے معاملے پر بھی مارک روبیو نے کہا تھا کہ اسرائیل کو غیرمتناسب جواب دینے کا حق حاصل ہے۔‘
تاہم بدھ کو اپنی ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ وہ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کو آگے بڑھانے کے لیے کام کریں گے۔
’ہم طاقت کے ذریعے امن قائم کریں گے اور ہمیشہ امریکی مفادات اور امریکہ کو ہر چیز پر ترجیح دیں گے۔‘

پیٹ ہیگستھ نے جنگی جرائم کے مرتکب امریکی فوجیوں کا ہمیشہ دفاع کیا۔ فوٹو: اے پی

پیٹ ہیگستھ وزیر دفاع
واشنگٹن میں اکثریت اور  پینٹاگون میں ہر ایک اب بھی اس خبر کو قبول کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ امریکہ کی وسیع فوج کا چارج سنبھالنے والا شخص ٹرمپ کے پسندیدہ ٹی وی چینل فاکس نیوز کا 44 سالہ پریزینٹر ہے۔
پیٹ ہیگستھ نہ صرف اپنے شو کے لیے ٹرمپ کا باقاعدگی سے انٹرویو کرتے آئے ہیں بلکہ جنگی جرائم کے مرتکب امریکی فوجیوں کے دفاع میں ہمیشہ بیان دیا ہے ۔
ٹرمپ کی پہلی مدت میں ، پیٹر ہیگستھ نے تین امریکی فوجیوں کے لیے صدارتی معافی کے لیے کامیابی کے ساتھ لابنگ کی تھی جن پر افغانستان اور عراق میں جنگی جرائم کے ارتکاب کا  الزام لگایا گیا تھا اور یا پھر ان کا جرم ثابت ہو چکا تھا۔
مشرق وسطیٰ کے لیے نمائندہ خصوصی سٹیون وٹکوف
 رئیل سٹیٹ ٹائیکون، ٹرمپ کے دیرینہ دوست اور گولف کے ساتھی، سٹیون وِٹکوف کوئی سفارتی تجربہ نہیں رکھتے لیکن وہ اسرائیل کے بھی دوست سمجھ جاتے ہیں جو کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
جب صدر بائیڈن نے مئی میں غزہ میں اسرائیلی فوجی مہم سے متعلق خدشات کے باعث اسرائیل کو ہتھیاروں کی ترسیل روک دی تھی، سٹیون وِٹکوف نے ردعمل میں ٹرمپ کی صدارتی مہم کے لیے امیر امریکی یہودی عطیہ دہندگان سے لاکھوں ڈالر جمع کیے تھے۔
جولائی میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی کانگریس کے سامنے تقریر کے موقع پر شرکت کے بعد، وٹکوف نے فاکس نیوز کو اپنے جذبات کے بارے میں بتایا ’یہ روحانی تھا … اس کمرے میں ہونا بہت ہی شاندار تھا۔‘

سٹیون وٹکوف اسرائیل کے دوست سمجھے جاتے ہیں۔ فوٹو: اے پی

سٹیون وٹکوف سفارت کاری یا مشرق وسطیٰ کا کوئی تجربہ نہیں رکھتے۔ اس کے باوجود، ٹرمپ نے ایک بیان میں کہا تھا، ’سٹیو امن کے لیے ایک بے لگام آواز ہوں گے، اور ہم سب کو قابل فخر بنائیں گے۔“
وِٹکوف اب مشرق وسطیٰ کے لیے ٹرمپ کے دو بڑے نامکمل عزائم کے لیے مرکزی شخص ہوں گے: اسرائیل-فلسطین امن معاہدہ اور اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانا۔
سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ کے حوالے سے واضح کر چکا ہے کہ اس کا انحصار فلسطینی عوام کی خودمختاری کے لیے بامعنی اقدامات پر ہے۔ تاہم فی الحال اس بارے میں وِٹکوف کے خیالات کے بارے میں علم نہیں ہے، لیکن لگتا ایسا ہی ہے کہ وہ نئی انتظامیہ میں موجود دیگر لوگوں سے بہت زیادہ مختلف ہوں گے جن کے لیے فلسطینی ریاست کا قیام ناگوار ہے۔
اسرائیل کے لیے سفیر مائیک ہکابی
ٹرمپ کی تمام تقرریوں میں سے، جس کا اسرائیل میں سب سے زیادہ پُرتپاک خیرمقدم کیا گیا وہ آرکنساس کے سابق گورنر مائیک ہکابی کی امریکہ کے نئے سفیر کے طور پر نامزدگی ہے۔
نیتن یاہو حکومت کی جانب سے اس تقرری کو نہ صرف اس بات کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کہ نئی انتظامیہ اسرائیل کو مقبوضہ علاقوں میں آبادکاری کی مہم جاری رکھنے کی اجازت دے گی بلکہ یہ بھی کہ ٹرمپ مغربی کنارے کے مکمل الحاق کے منصوبے کے بھی اجازت دے سکتے ہیں۔

سفیر مائیک ہیکابی کی تقرری کا اسرائیل میں پرتکاک خیرمقدم کیا گیا۔ فوٹو: اے ایف پی

مائیک ہکابی نے ہمیشہ سے اسرائیل کا مضبوظ دفاع کیا ہے۔ ایک مرتبہ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’فلسطینی نام کی کوئی چیز نہیں ہے‘ یعنی  یہ ’اسرائیل کو سزمین سے زبردستی دور کرنے کی کوشش کے سیاسی حربے‘ کے سوا کچھ نہیں ہے۔
مائیک ہکابی نے مقبوضہ مشرقی یروشلم میں نئی ​​اسرائیلی آبادیوں میں سنگ بنیاد رکھنے کی کم از کم دو تقاریب میں حصہ لیا تھا۔ سال 2017 میں تقریب میں شرکت کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ ’تصفیہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ کمیونیٹیز  ہوتی ہیں،  محل ہوتے ہیں، شہر ہوتے ہیں۔ قبضہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔‘
انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی وزراء بشمول قومی سلامتی کے وزیر اتمر بین گویر نے مائیک ہکابی کی تقرری کا خیرمقدم کیا ہے۔
ایلیز سٹیفانک ۔ اقوام متحدہ کے لیے امریکی سفیر
ایلیز سٹیفانک نہ صرف کئی مرتبہ اسرائیل کا دورہ کر چکی ہیں بلکہ کھلم کھلا اسرائیل کے اتحادی ہونے کا بھی اظہار کرتی آئی ہیں۔
سال 2023 میں کانگریس کی سماعت کے دوران ایلیز سٹیفناک نے امریکی کیمپسز پر ہونے والے مظاہروں میں سام دشمن رویوں پر آنکھیں بند کرنے کے الزام میں کالجز کے رہنماؤں سے جارحانہ سوالات کیے تھے جس پر یہودی کمیونٹی نے انہیں بہت زیادہ سراہا تھا۔

ایلیز سٹیفانک اسرائیل کے اتحادی ہونے کا کھلم کھلا اظہار کرتی آئی ہیں۔ فوٹو: اے پی

مارچ میں انہیں امریکہ کی صیہونی تنظیم ’ہیروز آف اسرائیل‘ نے تقریب کے موقع پر ’ڈاکٹر۔ مریم اور شیلڈن ایڈلسن ڈیفنڈر آف اسرائیل ایوارڈ‘ سے نوازا تھا۔
اس موقع پر تقریر میں، ایلیز سٹیفانک نے جو بائیڈن کے ’غیر سنجیدہ اقدامات اور الفاظ جو اسرائیلی جنگ کی کوششوں کو نقصان پہنچاتے ہیں‘ پر تنقید کی تھی۔
انہوں نے کہا  ’اسرائیل کے دفاع کے حق کی ہمیشہ حمایت کے لیے پرعزم رہوں گی۔۔۔ اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ اسرائیل کے پاس اس تاریک موقع پر ضروری وسائل موجود ہوں، کے  ساتھ کھڑی رہوں گی۔‘
واشنگٹن پوسٹ نے پیش گوئی کی ہے کہ ایلیز سٹیفانک ’اقوام متحدہ میں اپنے عہدے کا استعمال کرتے ہوئے اسرائیل پر کسی قسم کی تنقید کرنے والی یو این ایجنسیوں اور سفارت کاروں کے لیے سخت مؤقف رکھیں گی۔‘
مائیکل والٹز ۔ قومی سلامتی کے مشیر
فلوریڈا سے رکن کانگریس مائیکل والٹز امریکی فوج میں کرنل رہ چکے ہیں اور اس دوران انہوں نے افغانستان اور عراق کے متعدد دورے بھی کیے جبکہ چار کانسی کے ستاروں سے بھی نوازے جانے کا اعزاز حاصل ہے۔
ٹرمپ کی تقرریوں میں سے مائیکل والٹز ان چند شخصیات میں سے ہیں جو اپنے نئے عہدے کے حوالے سے متعلقہ مہارت اور تجربہ رکھتے ہیں۔
انہوں نے وزیر خارجہ ڈونلڈ رمزفیلڈ اور رابرٹ گیٹس کے ساتھ دفاعی پالیسی ڈائریکٹر کے طور پر بھی کام کیا ہے۔

رکن کانگریس مائیکل والٹز امریکی فوج میں کرنل رہ چکے ہیں۔ فوٹو: اے پی

مائیکل والٹز کانگریس میں کرد-امریکی کاکس کے رکن ہیں، جو ’کردوں کے بارے میں علم اور تفہیم کو فروغ دیتا ہے۔
ان کی تقرری کو کردستان 24 نیٹ ورک نے ‘کردوں کے لیے بہت اچھی خبر‘ قرار دیا تھا۔
مائیکل والٹز کی اہلیہ جولیا نیشیوات اردنی تارکین وطن کی بیٹی ہیں جو 1950 کی دہائی میں امریکہ آئے تھے۔ وہ امریکی فوج کی انٹیلیجنس کور میں سابق کپتان رہ چکی ہیں اور افغانستان اور عراق میں بھی خدمات انجام دے چکی ہیں۔ انہوں نے صدر جارج بش، باراک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ کی پچھلی حکومت میں بھی قومی سلامتی کے فرائض سرانجام دیے۔
خفیہ ایجنسی سی آئی کے ڈائریکٹر کے لیے جان ریٹکلف کا انتخاب
ٹیکساس سے کانگریس کے سابق رکن جان ریٹکلف کو ٹرمپ نے خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ڈائریکٹر کے طور پر منتخب کیا ہے۔ وہ فی الحال ٹرمپ سے منسلک تھنک ٹینک، امریکہ فرسٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ میں شریک چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
جان ریٹکلف نے ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران 2020 سے 2021 تک نیشنل انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دی تھیں۔
سی این این نے اپنی ایک رپورٹ میں کہاہ ے کہ جان ریٹکلف دیگر تقرریوں کے مقابلے میں پیشہ ورانہ سمجھے جاتے ہیں اور کم سے کم خلل پیدا کریں گے۔

ٹرمپ نے  جان ریٹکلف کو سی آئی اے کے ڈائریکٹر کے طور پر منتخب کیا ہے۔ فوٹو: اے پی

تلسی گبارڈ ۔ ڈائریکٹر برائے نیشنل انٹیلیجنس
 ڈیموکریٹ جماعت کا حصہ رہنے والی رکن کانگریس تلسی گبارڈ نہ صرف روس اور شام کے لیے نرم مؤقف رکھتی ہیں بلکہ انٹیلیجنس کا بھی زیادہ تجربہ نہیں رکھتیں۔
تلسی گبارڈ نے دو سال قبل 2022 میں ڈیموکریٹک پارٹی چھوڑ دی تھی اور یوکرین کو امداد فراہم کرنے پر بھی صدر بائیڈن پر تنقید کرتی آئی ہیں جبکہ کچھ ناقدین نے ان پر روسی ایجنڈے کی حمایت کا بھی الزام عائد کیا ہے۔
سابق صدر باراک اوباما کے دور میں شام میں ہونے والی خانہ جنگی کے دوران امریکی مداخلت کی بھی مخالفت میں آواز اٹھاتی آئی ہیں اور 2017 میں انہوں نے شام کے صدر بشار الاسد سے ملاقات بھی کی تھی جن کے ساتھ واشنگٹن نے 2012 میں ہی تمام سفارتی تعلقات ختم کر دیے تھے۔

شیئر: