Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تاجکستان کے سفیر کراچی کے تاریخی مقامات کی بحالی کے خواہش مند کیوں ہیں؟

تاجک سفیر کراچی اور تاجکستان کے درمیان تجارتی تعلقات کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں (فائل فوٹو: اے کے آئی پریس)
کراچی کا تاریخی علاقہ صدر، جہاں ایک غیرملکی نوجوان شریف زودا یوسف ماضی کی ایلفسٹن اور موجودہ زیب النسا سٹریٹ پر چہل قدمی کر رہے ہیں۔ 
شہر کا موسم سرد ہے۔ کوئٹہ سے چلنے والی سرد ہواؤں نے شہر کے موسم کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
کھلتی ہوئی رنگت، بڑی بڑی آنکھیں، خوب صورت بال اور دیدہ زیب لباس زیب تن کیے ہوئے یہ نوجوان ہر طرح کے خوف سے غافل سڑک کنارے قائم تاریخی عمارتوں کو دلچسپی سے دیکھ رہا ہے، اور برطانوی دور کے طرزِ تعمیر کا بغور معائنہ کر رہا ہے۔
سڑک کنارے بڑی بڑی دکانوں کے ساتھ ساتھ چھوٹے بڑے سٹال بھی لگے ہیں، جہاں ضروریاتِ زندگی کا سامان دستیاب ہے۔
مہنگی اور برانڈڈ اشیا کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر تیار ہونے والا سامان بھی فروخت کیا جا رہا ہے۔ یہ اس پرامن دور کا تذکرہ ہے جب یہ شہر دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے ایک پرکشش مقام تھا۔ 
شہر کی سڑکیں چمکدار اور صاف ستھری نظر آتی تھیں، امن و امان کی صورت حال ایسی تھی کہ ملکی اور غیر ملکی شہری بغیر کسی خوف کے یہاں آتے جاتے تھے۔
صدر کی مرکزی سڑک کے کنارے روسی، تاجک، اُزبک، چینی، جاپانی اور یورپی ممالک کے افراد کاؤنٹرز اور سٹالز پر مختلف اشیا کی خرید و فروخت میں مصروف رہتے۔ فٹ پاتھ ترتیب سے بنے ہوئے تھے اور سڑکوں پر دوڑتی گاڑیاں شہر کی رونق کو مزید بڑھا دیتی تھیں۔
ان دنوں یہ شہر نہ صرف معاشی سرگرمیوں کا مرکز تھا بلکہ دنیا بھر کے لوگ بھی یہاں کا رُخ کرتے تھے، مختلف ممالک کی ایئرلائنز کراچی آیا کرتی تھیں اور یہاں سے مسافر دیگر ممالک کے لیے روانہ ہوا کرتے تھے۔
شریف زودا یوسف، جو تاجکستان سے تعلق رکھتے ہیں، اس وقت کراچی کے ایک نجی تعلیمی ادارے میں تربیت حاصل کرنے کے لیے مقیم تھے۔
کراچی کی محبت نے انہیں ایسا جکڑا کہ وہ اس شہر کے پیار بھرے ماحول، سمندر کی ٹھنڈی ہواؤں، رات دیر تک جاری رہنے والی سرگرمیوں اور لذیذ پکوانوں سے بے حد متاثر ہوئے۔ 

زودا یوسف چاہتے ہیں کہ صدر کی مرکزی سڑک اور برنس روڈ کی عمارتوں کی حالت بہتر بنائی جائے (فائل فوٹو: فلِکر) 

یہاں کی زندہ دلی اور متحرک ثقافت نے شریف زودا کو ایسا مسحور کیا کہ وہ کراچی کو اپنا دوسرا گھر سمجھنے لگے۔
کچھ عرصہ کراچی میں گزارنے کے بعد شریف زودا اپنے ملک تاجکستان واپس چلے گئے۔ وہاں انہوں نے ایک مصروف زندگی گزاری لیکن کراچی کی یادیں ہمیشہ ان کے دل میں بسی رہیں۔ 
آج کل وہ پاکستان میں تاجکستان کے سفیر کی حیثیت سے موجود ہیں اور اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ تاہم، جب کبھی وہ کراچی میں قدم رکھتے ہیں تو وہ ماضی کے کراچی کو یاد کرتے ہیں۔
کراچی کے حالیہ دورے کے دوران شریف زودا نے شہر کی پرانی گلیوں اور بازاروں کی رونقوں کو یاد کیا۔ کراچی کے تاجروں، رہنماؤں اور مختلف شعبوں سے وابستہ افراد سے ملاقاتوں میں وہ اکثر ماضی کے کراچی کی بات کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’کراچی کے تاریخی مقامات کو دوبارہ بحال ہونا چاہیے تاکہ تاجکستان، اُزبکستان، روس، آذربائیجان اور دیگر ممالک کے لوگ بھی یہاں آ کر سڑکوں پر اسی طرح چہل قدمی کر سکیں جیسے کبھی کیا کرتے تھے۔‘

تاجک سفیر کا کہنا ہے کہ ’پرانی عمارتوں کو بحال کیا جائے تو اس سے کراچی کی معیشت کو فروغ ملے گا‘ (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)

زودا یوسف کو کراچی کی پرانی عمارتوں کے طرزِتعمیر نے ہمیشہ متاثر کیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ کراچی کے صدر کے علاقے کی مرکزی سڑک اور برنس روڈ پر واقع انگریز دور کی عمارتوں کی حالت بہتر بنائی جائے اور ان کے اردگرد کے بازاروں کی رونق کو بحال کیا جائے تاکہ شہر کے ماضی کو زندہ کیا جا سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ماضی میں پاکستان کی مارکیٹ تاجک تاجروں کے لیے ایک منافع بخش جگہ تھی، تاجکستان میں ٹیکسٹائل سمیت دیگر اشیا کی بڑی ضرورت پاکستان سے ہی پوری کی جاتی تھی۔‘
’وہ چاہتے ہیں کہ کراچی اور تاجکستان کے درمیان تجارتی تعلقات کو مضبوط کیا جائے تاکہ دونوں ممالک کی معیشت کو فائدہ ہو۔‘
شریف زودا کا کہنا ہے کہ ‘وہ صرف کراچی کے ماضی کو زندہ نہیں کرنا چاہتے بلکہ کراچی کو عالمی سطح کا تجارتی اور ثقافتی مرکز دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔‘
’شہر کی پرانی عمارتوں اور بازاروں کو اگر بحال کیا جائے تو نہ صرف کراچی کی معیشت کو فروغ ملے گا بلکہ یہاں کے لوگ بھی اپنی ثقافت اور تاریخ پر فخر محسوس کریں گے۔‘

شیئر: