مدارس رجسٹریشن بل: پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ف میں تنازع کیا ہے؟
مدارس رجسٹریشن بل: پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ف میں تنازع کیا ہے؟
جمعرات 5 دسمبر 2024 11:58
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
بلاول بھٹو نے مولانا فضل الرحمان کو یقین دلایا تھا کہ صدر مدارس رجسٹریشن سے متعلق بل پر دستخط کر دیں گے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ میں پیپلز پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام (ف) کو ایک دوسرے کا فطری اتحادی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن مولانا فضل الرحمان ان دنوں پیپلز پارٹی سے خاصے کھچے کھچے نظر آ رہے ہیں، جس کا اظہار انہوں نے دورۂ سندھ میں اپنی گفتگو اور خطابات میں بار بار کیا۔
اس ناراضگی کی بنیادی وجہ مولانا فضل الرحمان کے مطالبے پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور کیے گئے سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1960 میں ترمیم کے بل پر صدر مملکت کی جانب سے دستخط نہ ہونا ہے۔
اس ترمیمی بل کے ذریعے پاکستان میں دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ریگولیشن کے حوالے سے قانون سازی کی گئی ہے۔ بظاہر تو پاکستان کے علماء اور سیاسی جماعتیں مدارس کی رجسٹریشن کے خلاف ہوتی ہیں، لیکن یہ بل مولانا فضل الرحمان کے مطالبے پر منظور کیا گیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جونہی مولانا فضل الرحمان نے اس بل پر صدر مملکت کی جانب سے دستخط نہ ہونے کے معاملے کو اٹھایا، اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو اگلے ہی دن بلاول بھٹو زرداری مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ پر پہنچے اور انہیں منانے کی کوشش کی۔ اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری نے مولانا فضل الرحمان کو یقین دلایا کہ صدر مملکت مدارس رجسٹریشن سے متعلق بل پر دستخط کر دیں گے۔
بل میں مدارس کے حوالے سے کیا ہے؟
سوسائٹیز ایکٹ 1960 میں ترمیم کا بل 20 اکتوبر کو سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظور ہوا تھا۔ اس بل کے ذریعے مدارس کی رجسٹریشن کا تقاضا پورا ہو گیا ہے، اور سوسائٹیز ایکٹ 1860 کی شق 21 میں سات بنیادی اور دو اضافی ضمنی شقیں شامل کر لی گئی ہیں۔
اب حکومت الگ سے مدارس رجسڑیشن ایکٹ نہیں لائے گی اور مدارس کو بآسانی رجسٹریشن اور اکاؤنٹ کُھلوانے کی سہولیات بھی میسر ہوگی جبکہ پہلے سے قائم مدارس کو بھی بڑا قانونی تحفظ حاصل ہو گیا ہے اور رجسٹریشن کے لیے چھ ماہ سے ایک سال کی مہلت بھی دی جائے گی۔
پہلے سے موجود مدارس چھ ماہ جبکہ ایکٹ کے بعد بننے والی درس گاہ ایک سال میں رجسٹر ہوگی۔ ایک سے زائد شاخیں رکھنے والے مدارس کی بھی بڑی مشکل آسان ہو گئی ہے، صرف مین کیمپس کی رجسٹریشن کے علاوہ کوئی مدرسہ رجسٹر کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی اور ہر مدرسہ تعلیمی سرگرمیوں کی سالانہ رپورٹ رجسٹرار کو پیش کرنے کا پابند ہوگا۔
مدرسہ سالانہ اکاؤنٹس کے آڈٹ اور رپورٹ کی نقل بھی رجسٹرار کے پاس جمع کرانے کا پابند ہوگا۔
پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ف میں تنازع کیا ہے؟
20 اکتوبر کو جب سوسائٹیز ایکٹ 1960 میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی اور سینٹ سے منظور ہوا، تو پیپلز پارٹی نے بھی اس کے حق میں ووٹ دیے۔ اس طرح بظاہر دونوں جماعتیں اس معاملے پر ایک پیج پر تھیں۔
لیکن ڈیڑھ مہینہ گزر جانے کے باوجود صدر مملکت کی جانب سے اس بل پر دستخط نہ ہونے سے جمیعت علمائے اسلام (ف) کی قیادت میں تشویش دوڑی اور انہوں نے اس معاملے کو نہ صرف حکومت بلکہ پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی اٹھانا شروع کیا۔
اس حوالے سےجمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما حافظ حمداللّٰہ نے کہنا ہے کہ ’ہمیں بتایا جائے مدارس رجسٹریشن بل پر صدر پاکستان دستخط کیوں نہیں کر رہے؟‘
اردو نیوز سے گفتگو میں جے یو آئی رہنما کا کہنا تھا کہ ’مدارس رجسٹریشن بل 26ویں آئینی ترمیمی بل کا حصہ ہوتے ہوئے ایوان صدر میں لٹکایا گیا۔ دونوں ایوانوں سے پاس ہونے تک پی پی پی اور بلاول بھٹو آن بورڈ تھے۔ پھر رکاوٹ کیا ہے کون ہے اور کیوں ہے؟ کیا ایوان صدر پارلیمنٹ سے سپریم ہے جو مدارس بل میں رکاوٹ بن رہا ہے؟‘
حافظ حمداللّٰہ کا کہنا تھا کہ ’بلاول بھٹو کردار ادا کرتے ہوئے اپنے والد سے بات کریں، یہ پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات ہے۔ ورنہ پھر مولانا فضل الرحمان تنگ آمد بجنگ آمد فارمولے پر عمل کرنے میں حق بجانب ہیں۔ جس کا راستہ روکنا نہ ڈائیلاگ اور نہ لاٹھی سے ممکن ہے۔‘
دوسری جانب معلوم ہوا ہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے منظوری کے بغیر اور قانونی اعتراض کے ساتھ مدارس رجسٹریشن بل کو وزیراعظم آفس واپس بھیج دیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایوان صدر کی جانب سے بل پر اعتراض لگایا گیا ہے کہ مدارس صوبوں کی وزارت تعلیم کے ماتحت آتے ہیں، اور ان کی رجسٹریشن ایک صوبائی معاملہ ہے۔ اسلام آباد میں بھی مدارس کی رجسٹریشن کے دو قوانین پہلے سے موجود ہیں۔
نئے مدارس رجسٹریشن بل میں کہیں نہیں لکھا کہ بل کا اطلاق اسلام آباد میں موجود قوانین کے اوپر ہوگا۔ بل کو اب صرف پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظور کرایا جا سکتا ہے۔ تاہم ایوان صدر بل کے واپس بھیجے جانے کے حوالے سے خبروں کی تردید یا تصدیق کرنے سے گریزاں ہے۔