Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پرولیا سکینڈل: جب انڈیا میں آسمان سے ہتھیار برسے

17 دسمبر 1995 کو ایک جہاز ضلع پرولیا کے کھیتوں میں ہتھیاروں کی پیٹیاں گراتے ہوئے نکل گیا (فوٹو: گجرات نیوز)
یہ 17 دسمبر 1995 کی بات ہے جب روسی طیارہ اینٹونوو-26 کراچی کے راستے انڈیا کی سرحد میں داخل ہوا اور بنارس کے راستے رانچی اور دھنباد کے آسمان سے اڑتا ہوا مغربی بنگال کے ضلع پُرولیا پہنچا اور پھر بغیر رکے وہ انڈیا کی سرحد کو عبور کرکے تھائی لینڈ چلا گیا۔
اس طیارے کی نقل و حرکت کا انڈین ایئر ٹریفک کنٹرول کو بھی کوئی سراغ نہیں ملا لیکن اس کے مقصد کا پتہ 18 تاریخ کی صبح اس وقت چلا جب پرولیا کے کسانوں نے اپنے کھیتوں میں بڑے بڑے ڈبے دیکھے جو جدید ترین اسلحے سے بھرے ہوئے تھے۔
پل بھر میں بات پورے علاقے میں پھیل گئی اور وہاں بھیڑ لگنے لگی لیکن اس سے قبل جس کے جو ہاتھ آیا وہ اسے لے بھاگا۔
اس واقعے کو پُرولیا آرمز ڈراپ کیس کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جس نے انڈیا کو ایک عرصے تک الجھا کر رکھا۔
مقامی میڈیا کے مطابق ان ڈبوں میں 300 اے کے- 47 اور اے کے 56 رائفلیں تھیں لیکن ان کی اصلی تعداد کبھی سامنے نہیں آ سکی۔
ان کے ساتھ بہت سارے دوسرے ہتھیار بھی تھے، جن میں تقریباً 16 ہزار راؤنڈز، نصف درجن راکٹ لانچر، ہینڈ گرینیڈ، پستول اور نائٹ ویژن گاگلز شامل تھے۔ ان کو دیکھ کر بظاہر ایسا لگا تھا کہ اس سے چھوٹے پیمانے پر ایک جنگ چھیڑی جا سکتی تھی۔
آسمان سے ہتھیار برسنے کی بات جلد ہی ریاست میں برسراقتدار کمیونسٹ حکومت اور پھر کانگریس کی مرکزی حکومت تک پہنچ گئی اور پھر ایک خصوصی ٹیم پرولیا کے لیے روانہ ہوئی اور جہاں تک ممکن ہو سکا لوگوں کے گھروں سے ہتھیار برآمد کیے گئے۔
اس وقت تک یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ یہ اسلحے کسی طیارے سے گرائے گئے تھے لیکن ان کے مقصد کا پتہ نہ چل سکا۔

ڈنمارک کے شہری کم ڈیوی کو ہتھیار گرانے کے واقعے کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا گیا (فوٹو: اے پی)

اس کے چند دنوں بعد 21 دسمبر کو پھر ایک طیارہ انڈین فضائی سرحد میں داخل ہوا لیکن اس بار اسے انڈین فضائیہ کے مگ-21 جنگی طیارے نے ممبئی کے ہوائے اڈے پر اترنے پر مجبور کر دیا۔
یہ وہی طیارہ تھا جس سے پرولیا میں ہتھیار گرائے گئے تھے۔ اس طیارے میں سوار چھ افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔ ان میں سے پانچ لیٹویا کے شہری تھے جبکہ ایک برطانوی شہری پیٹر بلیچ تھا۔
بعد میں انکشاف ہوا کہ اس پر ایک ساتواں آدمی بھی سوار تھا جو بعد میں منظر عام پر آیا جس کا نام کِم ڈیوی یا نیلز ہاک تھا اور وہ ڈنمارک کا شہری تھا۔ بعد میں اسے اس پورے معاملے کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا گیا۔ کم ڈیوی نے بھی اس واقعے کی ذمہ داری لی اور بہت سے میڈیا ہاؤسز سے بات بھی کی۔
کم ڈیوی نے بعد میں دعویٰ کیا کہ انہوں نے ایک مذہبی فرقے 'آنند مارگ' کے اراکین کو کمیونسٹوں سے بچانے کے لیے ہتھیار خریدے تھے اور ان تک پہنچانے کی کوشش کی تھی۔ وہ بہار سے شروع ہونے والے اس مذہبی فرقے کا رکن تھا جس کی شاخیں اس وقت تک دنیا کے 100 سے زیادہ ممالک میں پھیل چکی تھیں۔
انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ کانگریس کی مرکزی حکومت، انڈیا کی انٹیلیجنس ایجنسی را اور برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی فائیو کی مغربی بنگال میں کمیونسٹ حکومت کا تختہ الٹنے کی ملی جلی سازش تھی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں انڈیا کی مرکزی حکومت کی طرف سے یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ انہیں بحفاظت ڈنمارک پہنچایا جائے گا۔

مقامی میڈیا کے مطابق ڈبوں میں 300 اے کے 47 اور اے کے 56 سمیت دوسرا اسلحہ تھا تاہم اصل تعداد کبھی سامنے نہیں آ سکی (فوٹو: انڈین ایکسپریس)

انہوں نے مزید الزام لگایا کہ انڈین رکن پارلیمان پپو یادو اور اس وقت کے وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ نے مل کر انہیں انڈیا سے بحفاظت نکلنے میں سہولت فراہم کی۔
جبکہ اس پورے معاملے میں برطانوی شہری پیٹر بلیچ کو ہتھیاروں کا سودا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ انہوں نے طیارہ خریدا تھا اور اسلحہ بھی فراہم کیا تھا۔
اس کیس میں پیٹر بلیچ سمیت ان کے پانچ ساتھیوں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ بعد میں یہ پتا چالا کہ بلیچ دراصل برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی5 کے ایجنٹ تھے۔ جس کی وجہ سے انہیں 2004 میں انڈین صدر سے معافی مل گئی۔ جبکہ روس کی اپیل پر لیٹوین شہریوں کو بھی رہا کر دیا گیا لیکن مقدمہ ابھی بند نہیں ہوا تھا۔ اس کھیل کا اہم کھلاڑی ابھی تک انڈین سکیورٹی ایجنسیوں کی پہنچ سے باہر تھا۔
ڈیوی کے انکشافات نے اس واقعے کو بالکل نیا رنگ دے دیا لیکن سب نے ڈیوی کی باتوں پر یقین نہیں کیا، عین ممکن تھا کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے یہ ساری کہانیاں بنا رہا ہو لیکن اس واقعے سے جڑے کچھ سوالات ہیں جن کے جواب آج تک نہیں مل سکے۔
طیارہ جس دن انڈیا میں داخل ہوا اس دن تمام ریڈار کیوں بند تھے؟ کم ڈیوی ممبئی ایئرپورٹ سے کیسے فرار ہوئے؟ اس کیس کا انڈین سکیورٹی ایجنسی را اور برطانوی انٹیلی جنس ایم آئی 5 سے کیا تعلق تھا؟ وغیرہ وغیرہ
 

واقعے کو پُرولیا آرمز ڈراپ کیس کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جس نے انڈیا کو ایک عرصے تک الجھائے رکھا (فوٹو: بنگال نیوز)

بہرحال بعد کے حالات سے پتا چلتا ہے کہ ایم آئی کو اسلحے کی کھیپ کے بارے میں پتا تھا کیونکہ پیٹر بلیچ اس میں شامل تھے جو کہ کئی سال تک برطانوی انٹیلی جنس میں کام کر چکے تھے اور بعد میں انہوں نے اسلحے کی تجارت شروع کر دی تھی۔
بلیچ اور کم ڈیوی کی ملاقات بلغاریہ میں ہوئی تھی اور کم ڈیوی نے ان سے رابطہ کیا تھا کیونکہ بلیچ اس سے قبل کئی ممالک کی حکومتوں کو ہتھیار فراہم کیے تھے لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ ایک دہشت گرد تنظیم ہتھیار خریدنا چاہتی ہے تو انہوں نے اس کی اطلاع ایم آئی 5 کو دے دی۔
تاہم انڈین تفتیشی ادارے سی بی آئی نے ڈیوی کے تمام دعوؤں کو مسترد کر دیا، لیکن کراچی سے جہاز کا انڈین سرحد میں آسانی سے داخل ہونا، اس رات ریڈار کا فیل ہونا، یہ سب چیزیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا لگتا ہے۔
دوسری جانب آنند مارگ والوں نے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ ان کے لیے ہتھیار گرائے گئے تھے۔
پیٹر بلیچ نے پولیس کی تحویل میں رہتے ہوئے یہ بھی دعویٰ کیا کہ برآمد کیے گئے ہتھیاروں سے زیادہ ہتھیار گرائے گئے تھے۔ سی بی آئی کے پاس بھی اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا کہ وہ ہتھیار کس نے لے لیے۔
پھر 2011 میں بین الاقوامی ہتھیاروں کی ڈیل سے متعلق کچھ دستاویزات پیش کی گئیں جو 25 نومبر 1995 کو جاری کی گئی تھیں۔

واقعے کے بعد چھ غیرملکیوں کو حراست میں لیا گیا تھا (فوٹو: انڈین ایکسپریس)

ان کے مطابق یہ ہتھیار بلغاریہ سے خریدے گئے تھے اور وہ بنگلہ دیشی فوج کے لیے تھے۔ ان پر بنگلہ دیش کے رکن پارلیمنٹ میجر جنرل محمد علی بھوئیاں کے دستخط تھے۔ بھویاں اس وقت خالدہ ضیا کی حکومت میں مسلح افواج کے چیف آف سٹاف تھے۔
انڈین میڈیا کے مطابق پرولیا سے ملنے والے ڈبوں میں بنگلہ دیش کی ایک چھاؤنی کا نام بھی لکھا ملا تھا۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے ان تمام دعوؤں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ دستاویزات پر جعلی دستخط تھے۔
اس معاملے پر 2014 میں ڈنمارک میں بنی ایک ڈاکومینٹری کے آنے کے بعد پھر سے روشنی پڑی جبکہ انڈین مصنف چندن نیندی نے اس پر کتاب لکھی ہے جس کا عنوان ہے 'جس رات آسمان سے بندوقیں برسیں'۔ اس کے بعد 2017 میں کترینہ کیف اور رنبیر کپور کی فلم 'جگا جاسوس' آئی جسے اسی واقعے پر مبنی بتایا جاتا ہے۔
بہرحال اس واقعے کے تقریباً تیس سال گزرنے کے بعد اب جبکہ کہ معاملہ بند ہو چکا ہے سارے ملزمان رہا ہو چکے ہیں لیکن یہ سوال جوں کا توں موجود ہوا ہے کہ گرائے گئے اسلحے کی تعداد کتنی تھی، ان کو کن کے لیے گرایا گیا اور آیا اس میں انڈین حکومت شامل تھی؟

شیئر: