ایف آئی اے سائبر کرائم میں ہزاروں درخواستیں لیکن مقدمات درج نہیں ہوتے
ایف آئی اے سائبر کرائم میں ہزاروں درخواستیں لیکن مقدمات درج نہیں ہوتے
منگل 24 دسمبر 2024 18:00
رائے شاہنواز - اردو نیوز، لاہور
2024 میں صرف لاہور سرکل کے ایف ائی اے سائبر کرائم برانچ میں 55 ہزار سے زائد درخواستیں درج ہوئیں۔ (فوٹو: ایکس)
پاکستان میں گذشتہ کچھ سالوں سے انٹرنیٹ کی دنیا میں ہونے والے جرائم کے حوالے سے بہت زیادہ قانون سازی ہوئی ہے اور وفاقی حکومت نے ایسے قوانین بنائے ہیں جس میں انٹرنیٹ خاص طور پر سوشل میڈیا کو استعمال کر کے جرائم کرنے والوں کے خلاف گھیرا تنگ کیا گیا ہے۔
لیکن ملک میں صرف وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ہے (ایف آئی اے) جو انٹرنیٹ سے متعلق جرائم کے مقدمات درج کرتا ہے یا چھان بین کرتا ہے۔ مگر قانون سازی کے باوجود ایف آئی اے کی استعداد کار بڑھانے کے لیے کافی اقدامات سامنے نہیں آئے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سال 2024 میں صرف لاہور سرکل کے ایف آئی اے سائبر کرائم برانچ میں 55 ہزار سے زائد درخواستیں درج ہوئیں جس میں شہریوں نے مقدمات کے اندراج کے لیے رابطہ کیا تاہم ان میں سے صرف سوا دو سو درخواستوں پر ہی مقدمات درج ہو سکے۔
نورین خان (فرضی نام) جن کا تعلق لاہور سے ہے انہوں نے جون 2024 میں اپنے خلاف سوشل میڈیا پر نازیبا تصاویر کے ذریعے بلیک میل کیے جانے کے خلاف ایک درخواست دائر کی تھی۔ تاہم ابھی تک ان کا مقدمہ درج نہیں ہو سکا۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے نورین خان نے بتایا کہ ’میرے سوشل میڈیا سے تصاویر چوری کر کے فیک اکاؤنٹ بنائے گئے اور ان فیک اکاؤنٹ کے ذریعے میرے رشتہ داروں کو وہ تصاویر بھیجی گئی اور کچھ تصاویر کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا سہارا لے کر ناز یبا تصاویر میں تبدیل کیا گیا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میرے بھائی اور بہنوں کو وہ تصاویر بھیجی گئیں صرف یہی نہیں میرے انسٹا اکاؤنٹ اور فیس بک اکاؤنٹ میں موجود فرینڈ لسٹ میں چن چن کر لوگوں کو یہ مواد بھیجا گیا۔ میں نے اس شخص کے خلاف ایف آئی اے میں درخواست دائر کی اور کئی پیشیاں بھگتیں لیکن آج تک مقدمہ درج نہیں ہو سکا۔‘
اس معاملے کی مزید تفصیل بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان سے جو جو مواد مانگا گیا وہ انہوں نے دے دیا۔
’میں نے سکرین شاٹ شیئر کیے اور مجھے کہا گیا کہ اس کی انکوائری ہوگی جس کے بعد عدالتی وارنٹ جاری ہوں گے اور پھر اس شخص کو گرفتار کیا جائے گا۔ اس دوران وہ شخص تصویریں پھیلاتا رہا اور مجھ سے رقم کا مطالبہ بھی کرتا رہا، اس کے رقم کے مطالبے کے ثبوت بھی میں نے ایف آئی اے کو فراہم کیے۔ لیکن آج تک نہ تو وہ انکوائری مکمل ہوئی اور نہ وہ شخص گرفتار ہو سکا ہے۔‘
ایسی ہی ایک اور درخواست گزار ندا علی (فرضی نام) نے بتایا کہ ایک سوشل میڈیا ایپ پر ان کی ذمہ داری آن لائن سیشنز کو ماڈریٹ کرنے کی تھی جس کے دوران ایک صارف نے ان سے رابطہ کیا اور دوستی ہوگئی، جس کے بعد اس نے ان کا واٹس ایپ ہیک کر لیا۔
’اس بندے نے میری ساری معلومات چوری کرنے کے بعد مجھے بلیک میل کیا اور اب وہ مجھ سے پیسے مانگ رہا ہے۔‘
ندا علی طلاق یافتہ ہیں اور دو بچوں کی ماں ہیں لیکن درخواست دینے کے باوجود ابھی تک ان کا مقدمہ درج نہیں ہوا ہے۔
حال ہی میں لاہور سرکل ایف آئی اے کی جانب سے ہیڈ کوارٹرز کو ایک مراسلہ لکھا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سائبر کرائم ونگ لاہور کو سٹاف کی شدید کمی کا سامنا ہے۔
مراسلے میں کہا گیا ہے کہ نہ صرف سائبر کرائم بلکہ ایف آئی اے لاہور کو 80 سب انسپکٹر 40 اے ایس ائی سمیت پانچ سے 15 گریڈ کے افسران اور اہلکار درکار ہیں تاکہ سسٹم کو اچھے طریقے سے چلایا جا سکے۔
گزشتہ ہفتے لکھے گئے اس مراسلے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بہت بڑی تعداد میں درخواستیں زیر التوا ہیں اور اس کی بنیادی وجہ سٹاف کی شدید کمی ہے۔
ایف ائی اے سائبر کرائم ونگ لاہور کے ایک افسر نے اپنا نام ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’پچھلے کچھ مہینوں میں حکومت کی جانب سے سائبر کرائم کے ذریعے مقدمات درج کروانے میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ وہ ایک کالج میں فیک ریپ کا معاملہ ہو یا اداروں کے خلاف سوشل میڈیا کے استعمال کا، ان مقدمات کو درج کرنے کے بعد دستیاب افسران اور تفتیشی اہلکار انہی مقدموں کی چھان بین میں زیادہ وقت صرف کر رہے ہیں۔‘
تاہم سٹاف کی قلت ایسے مقدمات میں نظر نہیں آتی جس میں براہ راست حکومت کو دلچسپی ہے۔ حال ہی میں یوٹیوبرز، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس اور دیگر اہم مقدمات میں راتوں رات ایف آئی آرز بھی درج کی گئیں اور لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔
اوریا مقبول جان کے خلاف درج مقدمے میں انہیں 24 گھنٹے کے اندر گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا گیا، اسی طرح پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کے فیک ویڈیو سکینڈل کے حوالے سے بھی 24 گھنٹے کے اندر مقدمہ درج کیا گیا اور ملزمان کو دیگر صوبوں سے گرفتار بھی کیا گیا۔
ایف آئی اے کے مقدمات میں پیش ہونے والے وکیل فاروق باجوہ کہتے ہیں کہ ’ایف ائی اے کا مقدمہ پولیس کے مقدمے سے کافی مختلف ہے یہاں پر محض درخواست دینے سے ایف آئی آر درج نہیں ہوتی جیسا کہ ضابطہ فوجداری کے تحت دفعہ 154 میں محض ایک سادہ کاغذ پر دی گئی معلومات پر ہی ایف آئی آر درج کرنا پولیس کی ذمہ داری ہے۔ ایف آئی اے میں مکمل شواہد اور عدالتی وارنٹ کے بغیر گرفتاری نہیں ہو سکتی اور گرفتاری سے پہلے ہر صورت میں مقدمے کا درج ہونا ضروری ہے۔ اور مقدمے کے اندراج سے قبل وہ تمام دستاویزات ایف آئی آر کا حصہ بنائی جاتی ہیں جن کی بدولت ایک پوری انکوائری کرنے کے بعد وہ مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔ اس لیے ایف آئی اے میں مقدمے کے اندراج میں تاخیر بھی ہوتی ہے اور جہاں تک ہائی پروفائل کیسز کا تعلق ہے تو ان کو ہر جگہ الگ طرح سے ہی ڈیل کیا جاتا ہے۔‘
ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کے ایڈیشنل ڈائریکٹر سرفراز چوہدری سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’یہ بات درست ہے کہ ہمیں سٹاف کی شدید قلت کا سامنا ہے اور اس حوالے سے متعدد بار ہیڈ کوارٹرز کو لکھا بھی جا چکا ہے۔‘
’اس پر کام بھی ہو رہا ہے جس سے نہ صرف سٹاف کی کمی پوری ہو بلکہ سائبر کرائم کو ایک جدید یونٹ بنانے کے لیے وسائل کی فراہمی بھی ممکن ہو۔‘