Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی مجبوری کی ’شادی‘، معاملات ایسے ہی چلیں گے؟

صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے ’ہمارا پیپلز پارٹی کے ساتھ کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘ (فوٹو: ایکس ن لیگ)
یہ اگرچہ ایک معمول کی بات ہے کہ سال 2022 سے پاکستان میں مخلوط حکومت قائم ہے جس میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی دونوں ہی اقتدار کی سیج پر ایک ساتھ ہیں اور ان دونوں میں نوک جھونک کے بھی کئی سیشن ہو چکے ہیں۔
تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے 26 ویں آئینی ترمیم کے لیے فرنٹ فٹ پر جاکر اپنا کردار ادا کیا اور حکومت کے ہاتھ مضبوط کیے اور پھر اچانک سیاسی منظرنامے سے غائب ہو گئے مگر اب دوبارہ سیاسی اکھاڑے میں واپسی پر گاہے گاہے ن لیگ کو اپنی تنقید کے نشانے پر رکھا ہوا ہے اور حال ہی میں متعدد بار انٹرنیٹ کی بندش کو بنیاد بناتے ہوئے حکومت پر کڑی تنقید کی ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے گورنر سردار سلیم حیدر پچھلے کئی مہینوں سے پنجاب حکومت پر سخت تنقید کر رہے ہیں بلکہ انہوں نے سرکاری جامعات میں وائس چانسلرز تعینات کرنے کی حکومتی سمری بھی واپس بھجوا دی تھی۔
تاہم اس ساری صورتِ حال میں تازہ ترین پیش رفت یہ ہے کہ 27 دسمبر کو سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی برسی پر گئی پیپلز پارٹی پنجاب کی قیادت جب لاہور واپس پہنچی تو مسلم لیگ ن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
پیپلز پارٹی کے رہنما حسن مرتضیٰ نے یہ تک کہہ ڈالا کہ ’مسلم لیگ ن اور تحریکِ انصاف میں کوئی فرق نہیں ہے اور یہ ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں جب کہ پیپلز پارٹی ہی اس ملک کا میزائل پروگرام اور ملک کو بھی بچائے گی۔‘
یہ سارے بیانات اس تناظر میں آ رہے ہیں جب بظاہر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان کوئی واضح کشیدگی نہیں ہے۔ تاہم جب شہباز شریف وزیراعظم بنے تھے تو اس وقت یہ چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں کہ شاید پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اڑھائی اڑھائی سال کے لیے اقتدار پر بیٹھنے کے لیے تیار ہوئے ہیں اور پہلی باری مسلم لیگ ن لے گی۔
تاہم دونوں جانب سے ایسی خبروں کی تردید کی جاتی رہی ہے لیکن حالیہ بیانات کے بعد کئی سیاسی مبصرین یہ دور کی کوڑی لانے میں سہولت محسوس کر رہے ہیں کہ شاید اڑھائی سالہ پروگرام درست تھا اور پیپلز پارٹی اب اس کی تیاری شروع کر چکی ہے۔
گذشتہ ہفتے لاہور کے گورنر ہاؤس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی ایک بیٹھک بھی ہوئی جس میں پیپلز پارٹی کے گلے شکوے دور کرنے کی بات ہوئی۔
اس میٹنگ میں موجود پیپلز پارٹی کے رہنما اور پارلیمانی لیڈر علی گیلانی بھی موجود تھے۔
اُن سے جب اُردو نیوز نے استفسار کیا کہ پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ ن سے سب سے بڑا شکوہ کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ ’ہمارا سب سے بڑا شکوہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اپنے ہر وعدے سے مکر جاتی ہے جو باتیں تحریری طور پر کی گئی تھیں ان پر بھی عمل نہیں ہو رہا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ‘میٹنگ میں جب یہ لوگ ہمارے ساتھ بیٹھتے ہیں تو ایسے لگتا ہے جیسے سارے کام اسی ٹیبل پر ابھی کے ابھی مکمل ہو چکے ہیں لیکن اس کے بعد پھر ایسی خاموشی چھا جاتی ہے جیسے یہ ہمیں جانتے ہی نہ ہوں۔‘
علی گیلانی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ‘میرا یہ خیال ہے کہ وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں کیوں کہ ایسی میٹنگز میں مسلم لیگ ن کے جو رہنما موجود ہوتے ہیں، وہ بے بس دکھائی دیتے ہیں اور مجھے پیپلز پارٹی کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی تکمیل میں وزیراعلیٰ ہاؤس رکاوٹ دکھائی دیتا ہے۔‘
سیاسی تجزیہ نگار سلمان غنی نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی میں ہلچل کا پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے کیوں کہ حکومتوں کو بنے ہوئے اب ایک سال کا عرصہ ہو چکا ہے اور سیاسی استحکام کے علاوہ معاشی استحکام بھی پیدا ہو رہا ہے۔‘
’اس کے علاوہ اس کی کوئی اور توجیح نہیں ہو سکتی کہ پیپلز پارٹی اب زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنا چاہتی ہے کیوں کہ موجودہ سیٹ اپ میں دور دور تک پیپلز پارٹی کا فی الوقت حکومت میں آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پیپلز پارٹی کا اصل مسئلہ پنجاب میں اپنے سیاسی کردار کی بحالی ہے جو ممکن نہیں ہو پا رہی۔ حکومت سے اُن کا کوئی بڑا اختلاف نہیں ہے۔ گورنر ہاوس میں ان کی حالیہ میٹنگ میں ان کے درمیان معاملات طے تھے۔ اور ان مطالبات کی روشنی میں ہی احکامات جاری ہوئے۔ بلاول صاحب پارٹی کے لیڈر ہیں وہ اپنے بیانات سے حکومت کو دفاعی محاذ پر رکھنا چاہتے ہیں۔
 سلمان غنی کہتے ہیں کہ ‘ایٹمی اور میزائل پروگرام پر پیپلز پارٹی کا مؤقف جرأت مندانہ ہے اور وہ اپنے اس مؤقف کے ذریعے  قومی جذبات کی ترجمانی کرتی نظر آتی ہے مگر سیاسی حوالے سے انہیں اس کا کیا فائدہ ہوگا، یہ دیکھنا پڑے گا۔
 ٹی وی اینکر اور تجزیہ کار فیصل عباسی کہتے ہیں کہ ’پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی مجبوری کی شادی ہے اور کچھ بھی ہو جائے موجودہ سیٹ اَپ میں یہ ایک دوسرے کے بغیر کچھ بھی نہیں اور اس حقیقت کا ادراک سب کو ہے۔ پیپلز پارٹی کی پوزیشن چوں کہ چھوٹی ہے اس لیے وہ زیادہ سے زیادہ سیاسی اور دیگر فوائد حاصل کرنے کے لیے اپنا پریشر بنائے رکھنا چاہتی ہے اس کے علاوہ اس کی کوئی اور توجیح نہیں ہو سکتی۔‘
پنجاب میں مسلم لیگ ن کی ترجمان اور صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ ’ہم پیپلز پارٹی کے ساتھ ان کی خواہش پر بیٹھتے ہیں اور جو جو وہ کہتے ہیں ان کے جائز مطالبات پورے کیے جاتے ہیں۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ وہاں سب معاملات حل کرنے کے بعد باہر آ کر یہ ایسے بیانات دے کر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو اگر اس سے کوئی بڑا فائدہ حاصل ہوتا ہے تو مجھے اس کا علم نہیں ہے۔ ہمارا پیپلز پارٹی کے ساتھ کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘

شیئر: