Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ویمن آن ویلز، بائیک ڈرائیونگ پروگرام پاکستانی خواتین کو کیسے ’بااختیار‘ بنا رہا ہے؟

ویمن آن ویلز پروگرام 2017 میں شروع کیا گیا تھا (فوٹو: روئٹرز)
لاہور کی 22 سالہ طالبہ لائبہ رشید کو امید ہے کہ موٹر سائیکل چلانا سیکھنے کے بعد ان کی زندگی تبدیل ہو جائے گی۔
وہ موٹر سائیکل ڈرائیونگ کے اس پروگرام سے منسلک ہیں جو بے ہنگم ٹریفک سے بھرے شہر میں خواتین کو ڈرائیونگ سکھانے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اگرچہ یہ پروگرام سات سال سے چل رہا ہے تاہم موٹر بائیک چلاتی خواتین بہت کم دکھائی دیتی ہیں۔ گاڑی ہو یا موٹر سائیکل ان میں سوار خواتین کو کسی مرد رشتہ دار کے ہمراہ نظر آنا ہی قدامت پسند پس نظریات رکھنے والے ملک میں زیادہ قابل قبول تصور کیا جاتا ہے۔
لاہور ٹریفک پولیس کی جانب سے شروع کیے گئے ’ویمن آن ویلز‘ ڈرائیونگ کے مفت پروگرام میں داخلے کے پہلے روز لائبہ رشید کا کہنا تھا کہ ’اس سے میری زندگی میں تبدیلی آئے گی کیونکہ میں کالج جانے اور واپسی کے لیے اپنے بھائی پر انحصار کرتی ہوں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ کالج آنے جانے کے لیے موٹر سائیکل خریدنا چاہتی ہیں اور ان کے خاندان میں ابھی تک کسی خاتون نے موٹر سائیکل نہیں چلائی۔
’اب ہر کوئی قائل ہو گیا ہے کہ لڑکیوں اور خواتین کو سکول، مارکیٹس یا ملازمت پر جانے کے لیے آزاد ہونا چاہیے۔‘
خواتین اور بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم سیف چائلڈ ہوڈ کی ڈائریکٹر بشریٰ اقبال حسین کا کہنا ہے کہ ’خواتین کے دو پہیوں والی سواری پر سفر کو ثقافتی اور مذہبی بندشوں کا سامنا رہا ہے تاہم اب زیادہ تر خواتین اس کلچر کو تبدیل کر رہی ہیں جیسا کہ انہوں نے 80 کی دہائی میں گاڑیوں کی ڈرائیونگ کے حوالے سے کیا، تاکہ کہیں آنے جانے میں مردوں پر انحصار کم ہو سکے۔‘

ویمن آن ویلز پروگرام کے تحت چھ ہزار چھ سو خواتین کو تربیت دی جا چکی ہے  (فائل وٹو: اے ایف پی)

ویمن آن ویلز پروگرام سات سال سے کام کر رہا ہے تاہم حالیہ کچھ مہینوں کے دوران تب سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا جب سے گاڑیوں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے اور موٹر سائیکل ایک سستے نعم البدل کے طور پر سامنے آئی ہے۔
عارف حبیب لیمیٹڈ سے وابستہ اور آٹو سیکٹر کے تجزیہ کار محمد ابرار پولانی کا کہنا ہے کہ ’افراط زر میں اضافے اور اجرت میں جمود کی صورت حال نے متوسط طبقے کی قوت خرید کو ختم کر کے رکھ دیا ہے، جس کے باعث بہت سے خاندانوں کے لیے موٹر سائیکل ہی ایک ایسی آپشن رہ گئی ہے جو ان کے لیے قابل عمل ہے۔‘
پاکستان جہاں سالانہ طور پر فی کس آمدنی ایک ہزار پانچ سو 90 ڈالر ہے، وہاں سب سے سستی گاڑی بھی تقریباً آٹھ ہزار دو سو 65 (تقریباً 23 لاکھ روپے) میں ملتی ہے جبکہ چین کی بنی موٹر بائیکل ایک لاکھ 15 ہزار روپے تک مل جاتی ہے۔
ٹریفک وارڈن سہیل مدثر کا کہنا ہے کہ ویمن آن ویلز پروگرام کے تحت چھ ہزار چھ سو خواتین کو تربیت دی جا چکی ہے اور جس بیچ سے لائبہ رشید منسلک ہیں وہ آغاز سے لے کر اب تک کا 86واں بیچ ہے۔
سینیر ٹریفک وارڈن اور ٹرینر حمیرا رفاقت کا کہنا ہے کہ ’مختلف عمروں اور شبعوں سے تعلق رکھنے والی خواتین تربیت میں شامل ہوتی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ وہ اب تک ایک ہزار خواتین کو تربیت دے چکی ہیں۔
ان کے مطابق ’نوجوان خواتین جلدی بائیک چلانا سیکھتی ہیں کیونکہ وہ پرجوش ہوتی ہیں اور خطرات سے نہیں گھبراتیں۔‘
پروگرام می شامل کریمنالوجی میں پی ایچ ڈی کرنے والی 23 سالہ غنیہ فاروق کا کہنا ہے کہ دو پہیوں کی سواری کو سیکھنے سے انہیں بااختیار ہونے کا احساس ملا ہے۔
فیشن ڈیزائنر کے طور پر کام کرنے والی تین بچوں کی ماں 36 سالہ شمائلہ شیفق کا کہنا ہے کہ پروگرام سے تربیت حاصل کرنے کے بعد اب وہ شوہر کی موٹر سائیکل پر بازار جاتی ہیں۔
انہوں نے بائیک چلانے والی خواتین کے لیے ایک کم لمبا عبایہ بھی بنایا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’لمبے اور ڈھیلے عبایہ میں خواتین کو خطرات کا سامنا رہتا  ہے اور وہ پہیوں میں پھنس سکتا ہے۔‘
وہ اپنے تیارکردہ کم لمبے عبایہ کو ساتھی خواتین کے لیے مارکیٹ میں لانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

شیئر: