یہ ملتان کی ایک سرد شام تھی، باہر یخ ہوا چل رہی تھی، اندر کمرے میں ہیٹر تو نہیں چل رہا تھا کہ گیس کی قلت کا سامنا تھا، البتہ ہم لوگ گرما گرم چائے اور پکوڑوں کی مدد سے ٹھنڈ کا مقابلہ کر رہے تھے۔ گفتگو کا رخ زراعت اور جنوبی پنجاب کے کاشتکاروں کی حالت زار کی طرف مڑ گیا۔
محفل میں دنیا پور، لودھراں کے چار پانچ کاشتکار موجود تھے جن میں سے دو نوجوانوں نے انجینئرنگ کی ڈگری لینے کے باوجود کاشت کاری شروع کی۔ جدید رجحانات سے وہ واقف تھے اور روایتی کاشت کاری کا پشتینی علم بھی ان کی رگوں میں دوڑتا تھا۔
یہ سب حالات سے باقاعدہ پریشان اور متفکر تھے۔
مزید پڑھیں
-
آج کل کس کتاب کا مطالعہ چل رہا ہے؟ عامر خاکوانی کا کالمNode ID: 883698
زوہیب خان نامی نوجوان بولا کہ میں نے تو مایوس ہو کر فیصلہ کر لیا تھا کہ جو دس ایکڑ اراضی میں نے پچھلے سال کاشت کی تھی اس سال اسے ٹھیکے پر دے دیا جائے۔ میرے چھوٹے بھائی نے البتہ امید دلائی ہے کہ اگر 2024 اچھا نہیں گیا تو کیا خبر یہ سال اچھا ثابت ہو جائے۔
کیا زمیندار بھی کبھی خوش ہوئے؟
یہ میرا سوال تھا جو میں نے انہیں چھیڑنے کے لیے کہا کہ بھیا ہم نے آج تک کبھی کسی زمیندار کو خوش نہیں دیکھا ہمیشہ وہ شکوہ کناں ہی رہے ہیں۔ ہر سال نئی گاڑی لے لیتے، بڑی کوٹھیوں میں رہتے ہیں، مگر نہ زرعی ٹیکس ادا کرتے ہیں نہ ہی کبھی انہیں خوش ہونے کی توفیق ہوئی ہے؟
اس تنقیدی تبصرے پر گویا بھونچال سا آ گیا۔ بیک وقت سب کے سب پھٹ پڑے، اونچی آواز میں تیز تیز جملے سنائی دیے۔ پھر چند لمحوں کے بعد حاجی بلال جو ان میں عمر رسیدہ تھے، انہوں نے باقیوں کو خاموش کرایا اور رسان سے بولے کہ یہ بیانیہ ہی غلط ہے۔ آپ نے بھی کاشت کاروں کے مسائل سمجھنے کے بجائے ایک خاص شہری مائنڈ سیٹ سے یہ باتیں سنا دیں۔
پھر کہنے لگے کہ کاش کبھی ہمارے منصوبہ ساز اور معاشی ماہرین صرف چند ہفتے کسی گائوں میں گزاریں، انہیں کاشت کاروں کے روز وشب کی کوئی خبر ہو، وہ ہمارے مسائل سے واقف ہوں تو پھر ان کی پالیسیوں میں کسانوں کے لیے کچھ اچھا شامل ہو۔ ابھی تو ان کی اکثر پالیسیاں زمینی حقائق سے دور، خلا میں معلق ہوتی ہیں۔
کاشت کاروں کا بیانیہ
الف: یہ غلط ہے کہ زمیندار ٹیکس نہیں دیتے۔ ہم اپنی فصل کے لیے استعمال ہونے والی ہر چیز پر ٹیکس ادا کرتے ہیں، کھاد سے سپرے تک اور پھر مالیانہ بھی ایک ٹیکس ہے اور عشر جسے شرعی طور پر ادا کرنا لازم ہے۔
ب: کسان زرعی ٹیکس دینے کے لیے بھی تیار ہیں، مگر وہ ظاہر ہے آمدنی کے سلیب کے مطابق ہی ہوگا اور عام کاشت کار تو اس کیٹیگری میں آتا ہی نہیں جبکہ نوے پچانوے فیصد عام کاشت کار ہیں، پانچ سات ایکڑ اراضی والے یا وہ جن کی ایک ایکڑ بھی نہیں اور وہ زمین ٹھیکے پر لے کر کام کرتے ہیں۔
جن چند فیصد بڑے زمینداروں سے ٹیکس وصول کرنا چاہیے وہ طاقتور اور سیاسی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ حکومتیں اپنی سیاسی مجبوریوں سے ان سے ٹیکس اگر نہیں لیتں تو اس نااہلی کا طعنہ باقی نوے پانچوے فیصد لاکھوں کسانوں کو تو نہ دیا جائے۔ اور یہ بھی یاد رکھیں کہ کسی کاشت کار کو وہ سہولتیں اور مراعات میسر نہیں جو حکومت صنعتوں کے لیے فراہم کرتی ہے۔
زرعی ٹیکس نہ لگانے کا بہت شور مچایا جاتا ہے، ٹاک شوز اور کالموں کا یہ موضوع بنتا ہے مگر کاشت کار بہرحال مختلف مد میں دکانداروں سے تو زیادہ ٹیکس دیتے ہیں۔ شہروں کی بڑی بڑی مارکیٹوں سے ٹیکس ہزاروں میں بھی نہیں ملتا۔
ج: یہ بھی یاد رکھیں کہ کسان کی محنت سے جو فصلیں کاشت ہوتی ہیں وہ کروڑوں عوام کی خوراک کا سبب بنتی ہیں ورنہ یہ گندم، چاول، چینی، مکئی، دالیں، چنے اگر امپورٹ کرنے پڑیں تو کئی ارب ڈالر اس میں اڑ جائیں گے۔ پھر یہ بھی ہے کہ کسانوں کی وجہ سے معیشت میں اِن کا ڈائریکٹ بڑا حصہ پڑتا ہے۔ اگر کوئی فصل اچھی نہ ہو تو چھوٹے شہروں کے بازار مکمل طور پر ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں، خریدار ہی نہیں ملتے۔ کیا دکاندار حضرات کا بھی ملکی معیشت میں ایسا بڑا حصہ ہے؟
د: سب سے اہم یہ بات کہ انڈسٹری ہو یا دکان کوئی کاروبار بھی اتنا غیر محفوظ اور رِسکی نہیں جتنا زراعت ہے۔ ہمارا تو سب کچھ کھلے آسمان تلے قدرت کے رحم و کرم پر ہے۔ بہترین تیار فصل عین وقت پر طوفانی بارش یا اولے پڑنے سے تباہ ہوجاتی ہے اور کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔ ایسا بارہا ہوچکا اور ہر وقت یہ خطرہ رہتا ہے۔
آخری نکتہ یہ یاد رکھیں کہ اگر دیہات سے لوگ ہجرت کر کے شہروں کی طرف آ گئے تو پھر آپ لوگوں کا وہاں رہنا ناممکن ہو جائے گا۔ کسان خوشحال اور مطمئن رہیں، انہیں صحت اور تعلیم کی سہولتیں گاؤں کے قریب دیں تب ہی شہر پرسکون اور کم گنجان رہیں گے۔
کسانوں کے مسائل کیا ہیں؟
چند دن پہلے ہونے والی اس محفل میں بہت کچھ نیا اور دلچسپ سننے سمجھنے کو ملا۔ ایک قریبی عزیز کے انتقال کے باعث مظفر گڑھ جانا پڑا تھا، وہاں سے ملتان اور پھر احمد پور شرقیہ تک سفر کیا، کئی کاشت کار خاندانوں سے ملنے کا موقعہ ملا۔
ملتان میں نوجوان صحافی، اینکر منیب ملیزئی سے ملاقات دلچسپ رہی۔ پنجاب یونیورسٹی سے ماس کمیونکیشن میں ماسٹر ڈگری لینے اور ایک نیوز چینل میں بطور اینکر کام کرنے کے بعد انہوں نے ملتان سے مختلف چینلز اور نیوز ویب سائٹس کے لیے کسانوں کے مسائل پر رپورٹنگ کی۔
وہ خود بھی باقاعدہ کاشت کار بن چکے ہیں۔ برسبیل تذکرہ بتاتا چلوں کہ ملیزئی یا ملے زئی سرائیکی پٹھانوں کی ایک شاخ ہے زیادہ تر یہ ملتان، شجاع آباد ، لودھراں، دنیا پور میلسی وغیرہ میں آباد ہیں۔ منیب نے اپنی رپورٹنگ کے تجربات کی روشنی میں کئی دلچسپ باتیں بتائیں۔
میں نے پھر مختلف شہروں میں اپنے جاننے والے کئی کاشت کاروں اور چھوٹے بڑے زمیندارون سے فون پر گفتگو کی اور صورتحال سمجھنے کی کوشش کی۔ ان تمام ملاقاتوں، گفتگوکے مختلف سیشنز کا نچوڑ یہ چند نکات ہیں۔
جنوبی پنجاب کے کاشت کار اس وقت بڑے پریشان اور ڈیپریسڈ ہیں، ان کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ پچھلے سال گندم کی فصل میں انہیں شدید خسارہ ہوا۔ حکومت نے گندم کی امدادی قیمت انتالیس سو (3900) فی من روپے مقرر کی تھی، مگر چونکہ پنجاب حکومت نے خریداری نہیں کی، اس لیے یہ گندم ابتدا ہی میں تین ہزار اور پھر چھبیس ستائیس سو روپے فی من تک فروخت ہوئی۔
گندم کی فصل پر اوسطاً خرچہ ہی اتنا ہوجاتا ہے تو کسان نے رُل ہی جانا تھا۔ جنہوں نے ٹھیکے پر زمین لے رکھی تھی وہ ٹھیکے کی ادائیگی ہی بمشکل کر پائے، یوں سمجھ لیں کہ دیوالیہ ہونے والی نوبت بن گئی۔
جنوبی پنجاب میں روایتی طور پر دو بڑی فصلیں کاشت ہوتی تھیں، گندم اور کپاس۔ گندم سردیوں کی فصل ہے اور اپریل میں کٹائی ہو جاتی ہے جبکہ اس کے بعد کپاس کا سیزن چلتا اور ستمبر اکتوبر میں کپاس یعنی پُھٹی کی چنائی ہو جاتی۔
کپاس میں پے در پے کئی سال مسلسل نقصان ہوتا رہا۔ مختلف قسم کے وائرس، مکھی، تیلا وغیرہ اس کی وجہ بنے۔ بدقسمتی سے کپاس کے بیجوں پر ہمارے ہاں تحقیق نہیں ہوئی اور ان مسائل کے لیے مزاحمت کرنے والا بیج تیار نہیں ہوا۔ کپاس میں کسانوں کو اتنے شدید دھچکے لگے کہ بہت سے زمیندار لکھ پتی سے ککھ پتی بن گئے۔ یوں کپاس کی کاشت میں غیر معمولی کمی آ گئی۔
ایک بڑا فیکٹر یہ بنا کہ جنوبی پنجاب کے وہ علاقے جو کپاس کا گڑھ تھے وہاں شوگر ملیں لگ گئیں اور ملز مالکان نے گنا (کماد) کاشت کرنے کی حوصلہ افزائی کی، خود بھی بہت سا رقبہ براہ راست کاشت کر ڈالا۔ قانونی طور پر پابندی تھی کہ کپاس والے علاقوں میں شوگرمل نہ لگے۔
جب پنجاب کے طاقتور ترین سیاستدان شوگر ملوں کے مالکان بن گئے تو پھر کاہے کی پابندی؟ گنے کی فصل سال میں ایک ہی ہوتی ہے، سسٹم کچھ یوں ہے کہ گنے والی زمین پر گندم کاشت نہیں ہو سکتی یعنی جتنا گنا زیادہ کاشت ہوگا، اتنا گندم کم ملے گی۔
ادھر یہ بھی مسئلہ ہے کہ گنے کے کاشت کار کا تمام تر انحصار شوگر مل مالکان پر ہے۔ وہ دانستہ طور پر تاخیر کر کے گنے کی کرشنگ دیر سے کرتے ہیں، اس سے نقصان کسان کا ہوتا ہے کہ گنا خشک ہونے سے وزن کم ہوتا اور پیسے کم ملتے ہیں۔ پھر کئی شوگر مل مالکان پیسے پورے نہیں دیتے، قسطوں میں دیتے اور کبھی تو اگلے سیزن پر ڈال دیتے ہیں۔
پچھلے چند برسوں سے مکئی کی فصل کا رواج بڑھ گیا، حتیٰ کہ بہت سے لوگوں نے گندم چھوڑ کر مکئی کاشت کرنا شروع کر دی۔ مکئی کی فصل سال میں دو بار ہوتی ہے، ایک فصل سردیوں میں جبکہ دوسری گرمیوں میں۔ کہا جاتا ہے کہ موسم گرما کی مکئی کی فصل کی فی ایکڑ پیداوار زیادہ ہوتی ہے۔
تحریک انصاف بمقابلہ ن لیگ
اب یہاں پر سیاسی معاملات بھی آ جاتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کے جس بھی کاشت کار سے بات ہوئی، ہر ایک اس پر متفق تھا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کبھی کاشتکاروں اور کسانوں کے لیے اتنی فرینڈلی نہیں رہی، ان کی ترجیح ہمیشہ شہری، کاروباری اور تاجر طبقہ رہا ہے۔
پہلے ایک زمانے میں سرائیکی، پنجابی کسان پیپلزپارٹی کی تعریف کرتے تھے۔ یوسف رضا گیلانی جب وزیراعظم تھے، انہوں نے گندم کی امدادی قیمت یکایک دو گنا کے قریب بڑھا دی تھی، شاید ساڑھے چھ سو روپے فی من سے تیرہ چودہ سو روپے فی من کر دی تھی۔
اس کا یہ فائدہ ہوا کہ اگلے برسوں میں گندم کی فصل سرپلس ہو گئی جب کسانوں کو منافع ملا تو انہوں نے گندم زیادہ اگائی اور پاکستان گندم ایکسپورٹ کرنے والا ملک بن گیا۔
پیپلزپارٹی کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت میں صورتحال بدل گئی اور کسان کافی مایوس ہوئے۔ عمران خان دور میں مکئی کا ریٹ خاصا اچھا رہا۔ اتفاق سے مکئی کی پیدوار فی ایکڑ بھی بہت عمدہ ہوئی اور پھر ریٹ بھی خاصا تھا تو چند ایکڑ اراضی والے کی سالانہ آمدنی لاکھوں سے بڑھ کر ملینز میں چلی گئی۔ لوگ بڑے خوش تھے ۔گندم کی امدادی قیمت بھی ٹھیک رہی، خریداری ہوئی اور پیدوار بھی خوش قسمتی سے بہت اچھی رہی۔
پچھلے دو سال مکئی کی فصل کے حوالے سے بہت برے رہے۔ مکئی شاید ایکسپورٹ نہیں ہوئی یا جو بھی وجوہات تھیں، اس کا ریٹ بہت نیچے آیا اور فی ایکڑ پیدوار بھی کم رہی۔ پچھلے سال پہلے شدید سردی نے نقصان پہنچایا جب سردی کا دورانیہ معمول سے زیادہ لمبا ہوگیا، پھر شدید گرمی نے موسم گرما کی مکئی کی فصل کی فی ایکڑ اوسط بہت کم کر دی۔
لوگوں کو حکومت سے امیدیں ہوتی ہیں۔ پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکومت اور پھر سال بھر کی نگران صوبائی حکومت اس حوالے سے مایوس کن رہی۔ موجودہ حکومت نے بھی گندم کی فصل میں سخت مایوس کیا۔ یوں دیہی علاقوں میں لوگوں میں شکایات، تلخی اور برہمی پائی جاتی ہے۔
مسلم لیگ ن نے پنجاب میں کسان کارڈ دے کر ایک اچھا کام کیا۔ گندم کی فصل کے لیے ڈیڈھ لاکھ کی رقم کا کارڈ دیا گیا۔ یہ قرض ہے مگر بلاسود واپسی ہوگی۔ ایک اچھا اقدام ہے، مگر اس نے مطلوبہ حمایت اور سافٹ امیج پیدا نہیں کیا۔
اوپر سے یہ اطلاعات آ رہی ہیں کہ اب حکومت گندم کی امدادی قیمت مقرر نہیں کرے گی اور نہ ہی گندم کی خریداری ہوگی کیونکہ شاید یہ آئی ایم ایف کی ہدایت ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ مارکیٹ پر چھوڑ دیا جائ، وہی اصول طے کرے۔
کسانی تنظیمیں اور کاشت کار اس پر سخت پریشان ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ مارکیٹ تو ان کا ہمیشہ استحصال ہی کرتی آئی ہے اور اس کا تمام تر فائدہ مڈل مین، آڑھتی کو ہوگا۔ کسان کو اس کی محنت کا ثمر نہیں ملے گا اوراس کی حالت بگڑتی جائے گی۔
کیا ہونا چاہیے؟
کسان تنظیموں اور کاشت کار، چھوٹے زمیندار سب اس پر متفق ہیں کہ زراعت کے لیے جامع پالیسی بنائی جائے اور ایسا کرتے ہوئے کسانوں کو آن بورڈ لیا جائے۔ فصلوں خاص کر گندم کی امدادی قیمت ضرور مقرر ہو اور صوبائی حکومتیں بروقت خریداری کریں تاکہ کسان کو فصل کی قیمت جلد ملے اور اسے اگلی فصل کے لیے قرضے نہ لینا پڑیں۔
مکئی کی امدادی قیمت نہیں رکھی جاتی، نہ حکومت خریداری کرتی تاہم حکومت مکئی کا ریٹ بہتر بنانے کی کوشش تو کرے۔ مکئی افغانستان وغیرہ جانے سے نہ روکی جائے، خاص کر جب ملکی ضرورت سے زیادہ سرپلس پیداوار ہو۔ ٹریکٹر اور دیگر زرعی آلات کے لیے آسان قرضے دیے جائیں، فصلوں کی انشورنس کا بھی انتظام ہو مگر کم پریمیئم کے ساتھ۔
کھاد کی بلیک ہر حال میں روکی جائے اور کھاد کے لیے عجیب وغریب پیکیجز کے بجائے حکومت براہ راست کھاد سستی کرے۔ جعلی سپرے کی فراہمی بھی روکی جائے۔ کپاس کے لیے مقامی سطح پر جدید بیج تیار کرائیں۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ کسانوں کو پولیس اور پٹوار کے ظالمانہ، استحصالی نظام سے نجات دلائی جائے۔ عام کسان سب سے زیادہ ان دو طبقات سے تنگ اور نالاں ہے۔