Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

موبائل فونز کی سمگلنگ، پی آئی اے نے ملوث عملے کے خلاف کیا حکمت عملی اپنائی ہے؟

حکام کے مطابق ’سمگلنگ میں ملوث پی آئی اے کے ملازمین کو ملازمت سے فارغ کیا جا رہا ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
گذشتہ سال اکتوبر میں لاہور ایئرپورٹ پر معمول کے مطابق کام جاری تھا اور شیڈول کے مطابق پروازیں آجا رہی تھیں۔ پی آئی اے کی کینیڈا سے آنے والی ایک فلائٹ پی کے 798 نے لینڈنگ کی تو عملہ مسافروں کو اُتارنے کے بعد اپنے مختص کردہ کمروں کی جانب بڑھ رہا تھا۔
اس دوران کسٹم کے ایک اعلٰی افسر نے اچانک عملے کی تلاشی لینے کا حکم دیا اور کسٹم انٹیلی جنس کے حکام نے باری باری عملے کے تمام ارکان کی چیکنگ کی۔
عملے میں شامل دو ارکان جن میں ایک ایئر ہوسٹس آصفہ ناز اور فلائٹ سٹیورڈ محمد ممتاز شامل تھے کو بھی روک کر تلاشی لی گئی۔
تلاشی کے دوران دونوں سے 11 سمارٹ فونز برآمد ہوئے جو وہ سمگل کر کے لائے تھے۔ اس کے بعد پی آئی اے کے حکام نے دونوں کو فوری طور پر معطل کرتے ہوئے انہیں شوکاز نوٹس جاری کردیا۔ 
بعد ازاں اس معاملے کی مکمل چھان بین شروع کی گئی کیونکہ یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں تھا کہ پی آئی اے کی فلائٹ کو اس کے عملے کے کچھ افراد نے سمگلنگ کے لیے استعمال کیا ہو۔
چار ماہ تک جاری رہنے والی تفصیلی انکوائری کے بعد جمعرات کو قومی ایئرلائن کے عملے کے دونوں ارکان کو سمگلنگ کا جُرم ثابت ہونے پر ملازمتوں سے برخاست کر دیا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جس روز اِن دونوں کو ملازمت سے برخاست کیا گیا ٹھیک اسی دن بیرون ملک سے ملتان آنے والی قومی ایئرلائن کی فلائٹ پی کے 222 کے عملے سے بھی سمارٹ فونز برآمد ہوئے۔
اس واقعے میں پی آئی اے کے عملے کے پانچ ارکان سے درجنوں سمارٹ فونز برآمد کیے گئے جو وہ بیرون ملک سے سمگل کر کے لائے تھے۔ 
اس دوران کسٹم کے عملے نے بالکل اسی طریقے سے اُن کی تلاشی لی جیسی تلاشی چند ماہ قبل لاہور ایئرپورٹ پر لی گئی تھی۔
فلائٹ سٹیورڈز محمد عمران، محمد خالد، فیصل پرویز جبکہ ایئر ہوسٹسز نشاط اور صدف ناصر کو فوری طور پر معطل کرتے ہوئے شوکاز نوٹس جاری کردیا گیا۔ 

’سمگلنگ روکنے کے لیے قومی ایئرلائن کسٹم حکام کے ساتھ مل کر گرینڈ آپریشن کر رہی ہے‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

اس حوالے سے ایک انکوائری کمیٹی بھی بنائی گئی ہے جو معاملے کی مکمل چھان بین کرے گی۔ پی آئی اے کے ایک اعلٰی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’سمگلنگ روکنے کے لیے قومی ایئرلائن کسٹم حکام کے ساتھ مل کر ایک طرح کا گرینڈ آپریشن کر رہی ہے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں اور نہ ہی کوئی ایسا طریقہ جس کے ذریعے ہمیں پہلے پتا چل جائے کہ کون سمگلنگ میں ملوث ہے، اس لیے ہم سنیپ چیکنگ کا سہارا لے رہے ہیں۔‘
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں ںے مزید بتایا کہ ’یہ تلاشیاں ایک مربوط طریقے سے لی جا رہی ہیں، اور یہ گرینڈ آپریشن اس وقت تک جاری رہے گا جب تک یہ لعنت رُک نہیں جاتی۔‘
 قومی ایئرلائن کے اعلٰی افسر کے مطابق ’جن ملازمین کے نام بھی اس کیس میں سامنے آرہے ہیں انہیں نوکری سے فارغ کیا جا رہا ہے، اور تیز ترین انکوائریاں کی جا رہی ہیں۔‘
اس حوالے سے جب ترجمان پی آئی اے لاہور اطہر اعوان سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’کرپشن کے خلاف ہمارے ادارے کی زیرو ٹالرنس پالیسی ہے۔‘
’یہ سخت ترین سزا ہے کہ سمگلنگ کے جُرم میں آپ کو ملازمت سے ہی ہاتھ دھونا پڑیں۔ پی آئی اے کے اندر احتساب کا عمل جاری ہے اور اپنے ملکی قوانین کی خلاف ورزی پر کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جائے گی۔‘

شیئر: