ایمیگریشن آفس کے پچھلے باغیچے میں کھلاڑی اپنی کرکٹ جرسیاں جلا رہی ہیں اور پھر چھوٹے چھوٹے گروپس میں سفر کرتے ہوئے اپنے دیگر خفیہ پلان بھی بنا رہی ہیں۔
اس طریقے سے افغانستان کی 19 خواتین کرکٹرز جو کے کنٹریکٹ یافتہ تھیں انہوں نے افغانستان سے پاکستان اور آسٹریلوی کرکٹ اتھارٹیز کی مدد سے پاکستان سے آسٹریلیا کا سفر کیا۔
ویب سائٹ انڈین ایکسپریس کے مطابق حکومت کی جانب سے 2021 میں خواتین کرکٹ پر پابندی لگنے کے بعد کنٹریکٹ یافتہ 19 افغان خواتین کرکٹرز جن میں بینفشا ہاشمی بھی شامل تھیں انہیں سابق آسٹریلوی کرکٹر میل جونز کی مدد سے آسٹریلیا لایا گیا۔
مزید پڑھیں
-
افغان کرکٹ بورڈ نے اپنی کامیابیوں کا سہرا ہند کے سر باندھ دیاNode ID: 192826
-
افغانستان کرکٹ ٹیم چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان آئے گی؟Node ID: 874141
میل جونز اس داستان کے بارے میں بتاتی ہیں کہ میلبرن ہوٹل میں قرنطینہ کے دوران انہوں نے بینفشا ہاشمی سے میسج پر بات چیت کی۔
میل جونز نے فوکس کرکٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے میسج کیا کہ آپ مجھے نہیں جانتی ہوں گی لیکن کیا آپ یا دیگر خواتین کھلاڑی سمجھتی ہیں کہ آپ کی زندگی خطرے میں ہے اور آپ یہاں سے باہر نکلنا چاہتی ہیں؟‘
اس کے جواب میں بینیفشا ہاشمی نے میسج کیا کہ ’جی ہم ایسا کرنا چاہتی ہیں۔‘
فوکس کرکٹ کی رپورٹ کے مطابق میل جونز نے میلبرن میں اپنے ہوٹل کے کمرے میں بیک یارڈ ایمیگریشن آفیسر کا سیٹ اپ بنایا اور آسٹریلوی حکومت سے بات کی کہ افغان کرکٹرز کو انسانی حقوق کی بنیاد پر ویزے دیے جائیں۔
میل جونز کے مطابق یہ 19 کھلاڑیوں کی لسٹ بڑھ کر 135 ہوگئی کیونکہ ویزے لینے کے لیے کھلاڑیوں کے اہلخانہ، کوچز، انتظامیہ کے افراد اور افغانستان کرکٹ بورڈ کے لوگ بھی شامل ہوگئے۔
’یہ لسٹ بہت بڑی ہوگئی تھی۔ آسٹریلوی حکومت نے بتایا کہ اتنے افراد کو ویزہ دینا ممکن نہیں ہے تاہم آخر میں ہم 130 افراد کو وہاں سے نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔‘
میل جونز کہتی ہیں کہ کھلاڑیوں سے کہا گیا کہ وہ افغانستان سے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد جانے کے لیے جھوٹی کہانیاں بنائیں جیسا کے ہمارے خاندان میں کوئی بیمار ہے اور ہم اُن سے ملنے کے لیے جانا چاہتی ہیں۔
اسی طرح کھلاڑیوں نے پاک افغان بارڈر پر اپنی کرکٹ جرسیاں اور سامان بھی جلا دیا۔
افغان کھلاڑیوں کو اُن کے ملک سے نکالنے کے لیے وہاں موجود کچھ آسٹریلوی باشندوں نے مدد کی اور اس طرح یہ خواتین کرکٹرز چھوٹے چھوٹے گروپس کی صورت میں اسلام آباد پہنچ سکیں۔
میل جونز کہتی ہیں کہ ’یہ سب کام خفیہ طور پر کرنے پڑے۔ ہمیں مختلف اوقات میں یہ سب کرنا پڑا کیونکہ تمام لوگ ایک ساتھ بارڈر پار نہیں کر سکتے تھے۔ اُن کے پاس ٹھوس کہانی ہونی چاہیے تھی کہ وہ اسلام آباد کیوں جانا چاہتی ہیں۔‘
سنہ 2022 میں 9 افغان کرکٹرز آسٹریلیا کے دارالحکومت کینبیرا میں پہنچی جبکہ دیگر کھلاڑی میلبرن روانہ ہوئیں۔
یہ تمام 19 کھلاڑی ابھی تک آسٹریلیا میں ہیں جہاں جمعرات کو اُنہوں نے نمائشی میچ کھیلا ہے۔
سنہ 2017 میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی جانب سے افغانستان ویمنز ٹیم کو انٹرنیشنل سٹیٹس ملنے کے بعد نومبر 2020 تک افغان کرکٹ بورڈ کی جانب سے 25 خواتین کرکٹرز کو سینٹرل کنٹریکٹ جاری کیا گیا۔
افغان ویمنز ٹیم 2021 میں عمان کے خلاف اپنا پہلا انٹرنیشنل میچ کھیلنے کی تیاری کر رہی تھی کہ اس دوران حکومت تبدیل ہوگئی اور ٹیم پر پابندی لگا دی گئی۔
میل جونز نے افغانستان میں طالبان حکومت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وہاں کسی کے پاس جینے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ آپ سکول نہیں جا سکتے، وہاں تعلیم نہیں ہے۔ آپ اپنے گھر والوں کے علاوہ کسی سے بات نہیں کر سکتے۔ آپ گانا نہیں گا سکتے، آپ شاعری نہیں کر سکتے، آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ صورتحال بدترین ہو رہی ہے۔ ایک جیل جیسا ماحول ہے۔‘
میل جونز کہتی ہیں کہ ’کھلاڑیوں نے کنٹریکٹ پر دستخط کر دیے تھے۔ وہ ٹریننگ کر رہی تھیں، چیزیں ترقی کی جانب گامزن تھیں، اُن کا پہلا انٹرنیشنل میچ بہت قریب تھا۔ انہیں یونیفارم دیے گئے جس کے بعد کھلاڑی افغانستان کے جھنڈے کے نیچے کھیلنے کے لیے تیار تھیں۔‘
دوسری جانب آسٹریلیا اور افغانستان کی مینز ٹیمیں افغان خواتین ٹیم پر لگی پابندی کے باعث آپس میں باہمی سیریز نہیں کھیلتی ہیں۔ دونوں ٹیمیں صرف آئی سی سی ایونٹس میں ہی ایک دوسرے کے مدمقابل آتی ہیں۔
افغان خواتین کرکٹرز آسٹریلیا میں روزگار ڈھونڈ رہی ہیں اور مقامی کلبوں میں کھیل رہی ہیں۔
افغان ویمنز کا نمائشی میچ میلبرن کرکٹ سٹیڈیم میں جاری انگلینڈ اور آسٹریلیا ویمنز ایشز ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ میچ سے قبل کھیلا گیا۔
اس بارے میں افغانستان الیون کی کپتان ناہیدہ ساپان نے کہا کہ ’یہ میچ ہمارے لیے بہت خاص ہے، خاص طور پر افغان خواتین کے لیے کیونکہ یہ افغان خواتین کے لیے تاریخی دن ہے۔ ہم نے دکھایا ہے کہ ہم افغانستان کے لیے کھیلتی ہیں۔‘