Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکی ریاستوں میں صدر ٹرمپ کی پالیسیوں اور یو ایس ایڈ کی بندش کے خلاف مظاہرے

صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف مظاہروں میں ڈیموکریٹ جماعت کے اراکین کانگریس نے بھی شرکت کی۔ فوٹو: اے پی
امریکہ کے مختلف شہروں میں امدادی ادارے یو ایس ایڈ کی بندش اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ احکامات بشمول امیگریشن، ٹرانسجینڈر کے حقوق اور فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کے  خلاف مظاہرے ہوئے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق فلاڈیلفیا، کیلیفورنیا، مشیگن، ٹیکساس، وسکانسن، انڈیانا سمیت دیگر ریاستوں میں بھی مظاہرین نے صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف ریلی نکالی
مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جس پر امیر ترین شخص ایلون مسک اور ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے تیار کردہ سیاسی تجاویز پر مشتمل ’پراجیکٹ 2025‘ کی مخالفت میں الفاظ درج تھے۔
پروجیکٹ 2025 دراصل وفاقی حکومت کو نئی شکل دینے اور دائیں بازو کی پالیسیوں کے حق میں ایگزیکٹو کے اختیارات پر سے کسی قسم کے چیکس ہٹانے کا ایک سیاسی اقدام ہے۔
دارالحکومت واشنگٹن میں، ڈیموکریٹک قانون سازوں اور سینکڑوں دیگر افراد نے کیپیٹل ہل کے باہر امریکی امدادی ادارے یو ایس ایڈ کو بند کرنے کے احکامات کے خلاف احتجاج کیا۔
 مظاہرے میں شامل ڈیموکریٹ رکن کانگریس سارہ جیکبز نے کہا یو ایس ایڈ کو بند کے کے اقدامات کے حوالے سے کہا ’یہ غیر قانونی ہے اور یہ بغاوت ہے۔‘
احتجاجی ریلی سے خطاب میں ڈیموکریٹ سینیٹر کرس وان ہالن نے صدر ٹرمپ، ان کے حمایتی ایلون مسک اور یو ایس ایڈ کی بندش کے خلاف اقدامات پر تنقید کی۔
کیپیٹل ہل کے باہر مظاہرین نے صدر ٹرمپ کو جیل میں ڈالنے کے حوالے سے ’اس کو لاک کرو‘ کے نعرے لگائے۔ 
ریاست اوہائیو میں مظاہرے میں شامل خاتون مارگریٹ ولمت نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’گزشتہ دو ہفتوں میں جمہوریت کے حوالے سے ہونے والی تبدیلیوں پر میں شدید غصے میں ہوں لیکن یہ سب دراصل بہت پہلے سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ میں اس کے خلاف مزاحمت میں اپنا حصہ ڈالنے آئی ہوں۔‘
امریکی ریاستوں میں ہونے والے مظاہرے سوشل میڈیا پر چلنے والی تحریک کے نتیجے میں منعقد ہوئے ہیں۔

مظاہرین نے امیگریشن اور دیگر حالیہ احکامات کے خلاف احتجاج کیا۔ فوٹو: اے پی

سوشل میڈیا پر مزاحمت کی ترغیب دینے اور 50501 کے نام سے ہیش ٹیگز کے تحت تحریک چلائی گئی تھی جس میں امریکی شہریوں کو تمام 50 ریاستوں میں ایک ہی دن میں 50 مظاہرے کرنے کا  کہا گیا تھا۔
مختلف ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ’فاشزم کو مسترد کریں‘ اور ’ہماری جمہوریت کا دفاع‘ کے پیغامات کے ساتھ شہریوں کو صدر ٹرمپ کے احکامات کے خلاف مزاحمت کرنے کا کہا گیا ہے۔
ریاست مشیگن کے دارالحکومت لینسنگ میں سینکڑوں افراد انتہائی سردی میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے سڑکوں پر نکلے۔
مظاہرے میں شامل کیٹی میگلیٹی نامی خاتون نے کہا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس کے مالک ایلون مسک کو محکمہ خزانہ کے ڈیٹا تک ملنے والی رسائی انتہائی تشویشناک ہے، ’اگر ہم نے یہ سب نہیں روکا اور کانگریس کو ایکشن لینے پر مجبور نہیں کیا تو یہ جمہوریت پر حملہ ہوگا۔‘
اکثر مظاہرین نے ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی اور اس کے سربراہ ایلون مسک کے خلاف پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔
مظاہرین نے ایلون مسک کو شہریوں کے ذاتی ڈیٹا اور سوشل سکیورٹی سے متعلق معلومات تک دی گئی رسائی پر تنقید کی۔
کانگریس اراکین نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی کی حکومت کے ادائیگیوں کے نظام میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے اور کہا ہے کہ اس سے سکیورٹی خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی منصب سنبھالتے ساتھ ہی تجارت، امیگریشن، ماحولیاتی تبدیلیوں اور دیگر معاملات پر  صدارتی حکمنامے جاری کیے جن کے خلاف اپوزیشن جماعت ڈیموکریٹس نے بھرپور آواز اٹھائی ہے اور اس کے ساتھ ہی مظاہروں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

مظاہرین نے ایلون مسک کو دیے گئے اختیارات پر بھی تنقید کی۔ فوٹو: اے پی

مینیسوٹا شہر میں بھی ہزاروں کی تعداد میں شہریوں نے احتجاجی ریلی میں شرکت کی۔ مظاہرے میں شامل 28 سالہ ہیلی پارٹن کا کہنا تھا کہ وہ اس خوف کے باعث باہر نکلی ہیں کہ ’اگر ہم سب نے کچھ نہ کیا تو ہمارے ملک کے ساتھ کیا ہو گا۔‘
صدر ٹرمپ کے احکامات کے بعد یو ایس ایڈ کے زیادہ تر اخراجات کو منجمد کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے اور ادارے کے واشنگٹن میں ہیڈ کوارٹر سے زیادہ تر اہلکاروں کو ملازمت سے ہٹا دیا گیا ہے۔ تاہم  یہ واضح نہیں ہے کہ حکومت ہزاروں کی تعداد کے عملے اور ان کے اہل خانہ کی اچانک منتقلی کا انتظام اور اس کی ادائیگی کیسے کرے گی۔

 

شیئر: