صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ کو امریکی ’ملکیت‘ میں لینے کے بیان پر حکومتی جماعت ریپبلکن پارٹی کے اراکین نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے جس کے بعد وزیر خارجہ مارکو روبیو اور وائٹ ہاؤس کے ترجمان بھی فلسطینیوں کے مستقبل کے حوالے سے بیانات پر پیچھے ہٹ رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق امریکہ کے اتحادیوں اور ریپبلکن قانون سازوں نے بھی ٹرمپ اس تجویز کو رد کر دیا تھا جس میں انہوں نے غزہ کو امریکی ملکیت میں لینے کے خیال کا ظاہر کیا تھا۔
صدر ٹرمپ نے منگل کو غزہ کے لوگوں کو وہاں سے ’مستقل طور پر‘ نکال کر کہیں اور آباد کرنے پر زور دیا تھا جبکہ تعمیر نو کے دوران امریکی فوجیوں کی تعیناتی کی تجویز بھی پیش کی تھی۔
مزید پڑھیں
تاہم اس کے بعد وزیر خارجہ مارکو روبیو اور وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیونٹ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں (ٹرمپ) نے تعمیر نو کے دوران غزہ کے 10 لاکھ 80 ہزار رہائشیوں کو عارضی طور پر وہاں سے منتقل کرنے کا کہا ہے۔
اس تجویز پر فلسطینیوں کی جانب سے بھی تنقید ہوئی تھی، جن کو اس بات کے خدشات بھی لاحق ہیں کہ اگر ایک ان کو وہاں سے نکال دیا گیا تو پھر کبھی واپس نہیں آن دیا جائے گا۔

اسی طرح ان عرب ممالک نے بھی امریکی صدر کو نشانہ بنایا جن سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ غزہ کے لوگوں کو اپنے پاس رکھ لیں۔
سعودی عرب کی جانب سے بھی ٹرمپ کے بیان پر شدید ردعمل سامنے آیا جس میں سعودی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ ایک ’مضبوط، پختہ اور غیرمتزلزل مؤقف‘ ہے۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ’عالمی برادری کا فرض ہے کہ وہ فلسطینی عوام کی طرف سے برداشت کیے جانے والے شدید انسانی مصائب کے خاتمے کے لیے کام کرے، (فلسطینی) اپنی سرزمین پر قائم رہیں گے اور یہاں سے کہیں نہیں جائیں گے۔‘
بطور وزیر خارجہ اپنے پہلے غیرملکی دورے کے دوران مارکو روبیو نے امریکی صدر کی تجویز کو ’انتہائی فراخ دلانہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ 15 ماہ کی لڑائی کے بعد وہاں سے ملبہ ہٹانے اور تعمیر نو کے لیے اہم پیشکش ہے۔
انہوں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ’ظاہر ہے کہ اس شہر کے لوگوں کو اس وقت کہیں نہ کہیں رہنا پڑتا ہے جب آپ تعمیر نو کا کام کرتے ہیں۔‘
اسی طرح وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیونٹ نے واشنگٹن میں صحافیوں کی بریفنگ میں غزہ کی فوٹیج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ’تباہ شدہ مقام‘ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’صدر ٹرمپ نے یہ بات واضح کی ہے کہ وہاں کے لوگوں کو عارضی طور پر غزہ سے نقل مکانی کرنا پڑے گی۔‘

انہوں نے شہر کو موجودوہ حالا ت میں ’انسانوں کے لیے ناقابل رہائش‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ بہت بری بات ہو گی اگر یہ تجویز دی جائے کہ لوگوں کو انہی حالات میں وہاں رہنا چاہیے۔‘
ان دونوں اہم عہدیداروں کے تبصرے صدر ٹرمپ کی جانب سے کہی بات سے مکمل طور پر مختلف ہیں۔
انہوں نے منگل کی رات کو کہا تھا کہ ’اگر ہمیں ایک ایسا اچھا علاقہ مل جائے جہاں لوگ مستقل طور پر آباد ہوں، وہ خوش رہیں، انہیں گولی ماری جائے نہ ہی چاقو سے نشانہ بنایا جائے جیسا کہ غزہ میں ہو رہا ہے۔‘
اس موقع پر انہوں نے ’طویل مدتی ملکیت‘ کا تصور بھی پیش کیا کہ بحیرہ روم کے کنارے پر واقع اس علاقے کی تعمیر نو اور ترقی پر کام ہو سکتا ہے۔
سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے جواب میں اسرائیل نے غزہ میں بڑے فوجی آپریشن کا آغاز کیا تھا جس میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی۔
اس دوران مصر، قطر اور امریکہ ثالثی کے لیے کردار ادا کرتے رہے اور مذاکرات کے کئی ادوار کے بعد چند ہفتے قبل ہی جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا۔ جس کے بعد غزہ کے لوگوں نے اپنے گھروں کی طرف لوٹنا شروع کر دیا تھا۔
ابھی جنگ بندی کے معاہدے کے پہلے مرحلے پر کام ہوا ہے جبکہ دوسرے اور تیسرے مراحل پر بات چیت ہونا ابھی باقی ہے۔