Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فلسطینی قیدیوں نے رہائی کے بعد اسرائیلی جیل کا لباس جلا دیا

قمیضوں پر جیل کا لوگو، ستارہ داؤدی اور ’ہم نہ بھولتے ہیں نہ معاف کرتے ہیں‘ تحریر تھا۔ فوٹو اے ایف پی
اسرائیل کی جانب سے رہا کیے گئے فلسطینی قیدی سنیچر کو جیسے ہی غزہ پٹی پہنچنے والی بسوں سے اترے، کچھ نے فتح کا نشان بنایا اور جیل کا لباس اتار کر جلا دیا۔
فرانس کی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق حماس سے جنگ بندی معاہدے کے تحت رہائی سے قبل اسرائیلی میڈیا پر جاری کی جانے والی تصاویر میں فلسطینی قیدی یہ قمیضیں پہنے ہوئے تھے۔
اسرائیلی قید سے رہائی پانے والے فلسطینیوں کی ان قمیضوں پر جیل کا لوگو، ستارہ داؤدی اور عربی عبارت ’ہم نہ بھولتے ہیں نہ معاف کرتے ہیں‘ تحریر تھا۔
جنوبی غزہ  کے علاقے خان یونس میں قیدیوں کے استقبالیہ مقام پر اسرائیلی جیل کے لباس کو اتار کر زمین پر پھینکا اور آگ لگا دی گئی جس کا کالا دھواں فضا میں بلند ہو گیا۔
غزہ معاہدے کے تحت ہونے والی گذشتہ رہائیوں میں فلسطینی قیدیوں کو سرمئی رنگ کے سادہ ٹریک سوٹ میں رہا کیا گیا تھا اور اس لباس پر کوئی تحریر درج نہیں تھی۔
سنیچر کو رہا کیے گئے قیدیوں کی بڑی تعداد ان فلسطینیوں کی تھی جو اسرائیل کے ساتھ جنگ کے دوران گرفتار کیے گئے تھے۔
فلسطینی قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے فلسطینی قیدیوں کے کلب  نےبتایا ہے ’عالمی ریڈ کراس کے تعاون سے غزہ پہنچنے والے فلسلطینی فتح کے نشان بناتے ہوئے بسوں سے اترے اور استقبال کے لیے موجود جم غفیر کی جانب دیکھ کر خوشی سے ہاتھ ہلاتے رہے۔

اسرائیلی میڈیا کی تصاویر میں فلسطینی قیدی یہ قمیضیں پہنے ہوئے تھے۔ فوٹو اے ایف پی

رہائی پانے والے فلسطینیوں میں اکثر وہ تھے جو اسرائیلیوں پر حملوں کے جرم میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے، ان میں سے بعض کو رہائی کے بعد جلا وطن کر دیا گیا۔
دوسری جانب حماس اور اس کے اتحادی اسلامی جہاد نے اسرائیلی جیل سروس کی لباس کو ’نسل پرستانہ‘  قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
رہائی پانے والوں میں شامل 61 سالہ ابراہیم  نے اپنا پورا نام ظاہر نہ کرنے پر بتایا ’ وہ غزہ میں جنگ کی تباہی دیکھ کر انتہائی غمزدہ ہیں۔
ابراہیم نے کہا وہ اسرائیلی قید اور مصیبت سے باہر نکل آئے ہیں لیکن غزہ جو سالہا سال سے اسرائیلی ناکہ بندی میں ہے یہ دنیا کی سب سے بڑی جیل ہے۔

قیدیوں کی بسیں خان یونس پہنچتے ہی کئی جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے۔ فوٹو اے ایف پی

رہائی پانے والے عبد ابو زیرہ نے بتایا وہ رہائی کے لیے حماس کے شکر گزار ہیں لیکن یہ لمحہ خوشی اور فتح کے ساتھ افسوس اور غم  سے بھی بھرا ہوا ہے، میری دعا ہے جنگ کا خاتمہ ہو اور تمام قیدی رہا ہوں۔
بسوں سے اترنے والے قیدیوں کی صحت کے معائنے کے لیے وہاں موجود طبی عملے کو اپنے پیاروں سے ملنے کے لیے بے تاب رشتہ داروں کے باعث قدرے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت کے ڈائریکٹر محمد زقوت نے بتایا ’بہت سے قیدی جیل میں تشدد اور بدسلوکی کا شکار ہوئے لہذا ہر آنے والے کا طبی معائنہ ضروری ہے۔‘

 استقبالیہ مقام پر اسرائیلی جیل کا لباس اتار کر پھینکا اور آگ لگا دی گئی۔ فوٹو اے ایف پی

رہائی پانے والے رشتہ دار کے استقبال کے لیے خان یونس آئے22 سالہ طارق ھنیہ  نے بتایا ’قیدیوں کو آزاد دیکھنا بڑی خوشی کی بات ہے لیکن میرے کچھ اور رشتہ دار تاحال اسرائیلی قید میں ہیں۔
طارق ھنیہ  نے مزید بتایا میرے خاندان کے 21 افراد غزہ جنگ میں  ہلاک ہوئے ہیں جن میں میرے دور کے رشتہ دار اسماعیل ھنیہ بھی شامل ہیں۔
بسیں خان یونس پہنچتے ہی کئی جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے جب بسوں میں سوار کچھ قیدی بے حد جذباتی انداز میں کھڑکیوں کے راستے ہی اپنے رشتہ داروں سے ملنا شروع ہو گئے۔
 

 

شیئر: