اسرائیل کی جانب سے رہا کیے گئے فلسطینی قیدی سنیچر کو جیسے ہی غزہ پٹی پہنچنے والی بسوں سے اترے، کچھ نے فتح کا نشان بنایا اور جیل کا لباس اتار کر جلا دیا۔
فرانس کی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق حماس سے جنگ بندی معاہدے کے تحت رہائی سے قبل اسرائیلی میڈیا پر جاری کی جانے والی تصاویر میں فلسطینی قیدی یہ قمیضیں پہنے ہوئے تھے۔
مزید پڑھیں
-
-
طے شدہ منصوبے کے مطابق اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کریں گے: حماس
Node ID: 885853
-
اسرائیلی قید سے رہائی پانے والے فلسطینیوں کی ان قمیضوں پر جیل کا لوگو، ستارہ داؤدی اور عربی عبارت ’ہم نہ بھولتے ہیں نہ معاف کرتے ہیں‘ تحریر تھا۔
جنوبی غزہ کے علاقے خان یونس میں قیدیوں کے استقبالیہ مقام پر اسرائیلی جیل کے لباس کو اتار کر زمین پر پھینکا اور آگ لگا دی گئی جس کا کالا دھواں فضا میں بلند ہو گیا۔
غزہ معاہدے کے تحت ہونے والی گذشتہ رہائیوں میں فلسطینی قیدیوں کو سرمئی رنگ کے سادہ ٹریک سوٹ میں رہا کیا گیا تھا اور اس لباس پر کوئی تحریر درج نہیں تھی۔
سنیچر کو رہا کیے گئے قیدیوں کی بڑی تعداد ان فلسطینیوں کی تھی جو اسرائیل کے ساتھ جنگ کے دوران گرفتار کیے گئے تھے۔
فلسطینی قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے فلسطینی قیدیوں کے کلب نےبتایا ہے ’عالمی ریڈ کراس کے تعاون سے غزہ پہنچنے والے فلسلطینی فتح کے نشان بناتے ہوئے بسوں سے اترے اور استقبال کے لیے موجود جم غفیر کی جانب دیکھ کر خوشی سے ہاتھ ہلاتے رہے۔

رہائی پانے والے فلسطینیوں میں اکثر وہ تھے جو اسرائیلیوں پر حملوں کے جرم میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے، ان میں سے بعض کو رہائی کے بعد جلا وطن کر دیا گیا۔
دوسری جانب حماس اور اس کے اتحادی اسلامی جہاد نے اسرائیلی جیل سروس کی لباس کو ’نسل پرستانہ‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
رہائی پانے والوں میں شامل 61 سالہ ابراہیم نے اپنا پورا نام ظاہر نہ کرنے پر بتایا ’ وہ غزہ میں جنگ کی تباہی دیکھ کر انتہائی غمزدہ ہیں۔
ابراہیم نے کہا وہ اسرائیلی قید اور مصیبت سے باہر نکل آئے ہیں لیکن غزہ جو سالہا سال سے اسرائیلی ناکہ بندی میں ہے یہ دنیا کی سب سے بڑی جیل ہے۔

رہائی پانے والے عبد ابو زیرہ نے بتایا وہ رہائی کے لیے حماس کے شکر گزار ہیں لیکن یہ لمحہ خوشی اور فتح کے ساتھ افسوس اور غم سے بھی بھرا ہوا ہے، میری دعا ہے جنگ کا خاتمہ ہو اور تمام قیدی رہا ہوں۔
بسوں سے اترنے والے قیدیوں کی صحت کے معائنے کے لیے وہاں موجود طبی عملے کو اپنے پیاروں سے ملنے کے لیے بے تاب رشتہ داروں کے باعث قدرے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت کے ڈائریکٹر محمد زقوت نے بتایا ’بہت سے قیدی جیل میں تشدد اور بدسلوکی کا شکار ہوئے لہذا ہر آنے والے کا طبی معائنہ ضروری ہے۔‘
