Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سینیٹ کا ہنگامہ خیز اجلاس: حکومت کو دھچکا، سٹیٹ بینک ترمیمی بل پر شکست

اپوزیشن نے ڈپٹی چیئرمین پر دباؤ بڑھایا تو انہوں نے اجلاس کو منگل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دیا (فوٹو: سینیٹ فیس بک)
سینیٹ میں سٹیٹ بینک ترمیمی بل کی ووٹنگ کے دوران حکومت کو بڑا دھچکا لگا جب حکومتی مخالفت کے باوجود بل کے حق میں زیادہ ووٹ آ گئے، یہاں تک کہ بعض حکومتی ارکان نے بھی بل کی حمایت کر دی۔
تاہم قائم مقام چیئرمین سینیٹ سیدال خان ناصر نے ووٹنگ کے نتائج کا اعلان کرنے سے انکار کرتے ہوئے اجلاس ملتوی کر دیا۔
پیر کو قائم مقام چیئرمین سینیٹ سیدال خان ناصر کی زیر صدارت اجلاس ہوا۔ اجلاس کے دوران سینیٹر محسن عزیز کے بل کے حق میں ووٹ آنے پر قائم مقام چیئرمین سینیٹ نے ووٹنگ کے نتائج کا اعلان کرنے سے انکار کردیا۔ جس پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا۔
اجلاس کے دوران پارلیمنٹیرینز کی تنخواہوں اور الاؤنسز میں ترمیمی بل اور اینٹی ریپ تحقیقات و ٹرائل ترمیمی بل بھی منظور کر لیے گئے۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے سخت ریمارکس اور اپوزیشن کے احتجاج نے اجلاس کو مزید گرما دیا، جبکہ حکومت کو مسلسل دباؤ کا سامنا رہا۔
حکومت کے لیے مشکل گھڑی، ڈپٹی چیئرمین کا نتائج کے اعلان سے انکار
سینیٹ میں سٹیٹ بینک ترمیمی بل پر ووٹنگ کے دوران اس وقت غیر متوقع صورتحال پیدا ہو گئی جب حکومتی بینچوں سے بھی کچھ ارکان نے اپوزیشن کا ساتھ دیا۔ تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹرز نے ڈپٹی چیئرمین سے مطالبہ کیا کہ وہ ووٹنگ کے نتائج کا فوری اعلان کریں، کیونکہ حکومت کو کم اور اپوزیشن کو زیادہ ووٹ ملے ہیں۔
تاہم ڈپٹی چیئرمین سیدال خان ناصر نے نتائج کے اعلان سے انکار کرتے ہوئے سخت لہجے میں کہا کہ ’یہ واو واو، وو وو نہیں چلے گا، رولز کے مطابق چلیں گے۔ آپ کے دباؤ کا مجھ پر ایک فیصد اثر نہیں ہوگا۔ میں ووٹنگ کے نتائج کا اعلان نہیں کروں گا۔‘
ان کے اس بیان پر اپوزیشن بینچوں میں شور مچ گیا، اور پی ٹی آئی کے ارکان نے سینیٹ کے چیئرمین ڈائس کے سامنے آ کر احتجاج کیا، ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں، اور حکومت پر دھاندلی کا الزام لگایا۔
حکومت کی پسپائی، اپوزیشن کی مزاحمت
ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے کچھ ارکان نے بل کے حق میں ووٹ دیا، جبکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے دیگر سینیٹرز نے مخالفت کی۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ پیپلز پارٹی کے بعض ارکان نے ایک ہی وقت میں حمایت اور مخالفت، دونوں میں ووٹ ڈال دیے، جس پر اپوزیشن نے اعتراض اٹھایا اور حکومت پر دباؤ ڈالنے کا الزام عائد کیا۔
اعظم نذیر تارڑ نے اپوزیشن سے درخواست کی کہ وہ بل کو فی الحال موخر کر دیں تاکہ وزیر خزانہ سے اس پر مزید مشاورت ہو سکے، لیکن اپوزیشن اس پر رضامند نہیں ہوئی۔

اعظم نذیر تارڑ نے اپوزیشن سے درخواست کی کہ وہ بل کو فی الحال موخر کر دیں (فوٹو: سینیٹ فیس بک)

جب اپوزیشن نے ڈپٹی چیئرمین پر دباؤ بڑھایا تو انہوں نے اجلاس کو منگل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دیا، جس پر اپوزیشن نے ’فارم 45‘ کے نعرے لگاتے ہوئے حکومت پر دھاندلی کے الزامات لگائے۔
تنخواہوں اور الاؤنسز میں ترمیمی بل منظور
ایوانِ بالا میں اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور الاؤنسز سے متعلق ترمیمی بل بھی منظور کر لیا گیا۔ اس ترمیم کے بعد اب ان مراعات کی منظوری ایوان کی فنانس کمیٹی دے گی۔ بل پہلے قومی اسمبلی نے ترامیم کے ساتھ واپس بھیجا تھا، جس کے بعد سینیٹ نے اسے دوبارہ منظور کر لیا۔
بل کے حق میں حکومتی ارکان نے ووٹ دیا جبکہ اپوزیشن کے کچھ ارکان نے مخالفت کی کوشش کی، مگر اعظم نذیر تارڑ نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ جو اراکین اضافی تنخواہ نہیں لینا چاہتے، وہ سینیٹ سیکریٹریٹ کو تحریری طور پر آگاہ کر سکتے ہیں۔
اینٹی ریپ تحقیقات اور ٹرائل ترمیمی بل کی منظوری
سینیٹ نے اینٹی ریپ تحقیقات اور ٹرائل سے متعلق ایک اہم ترمیمی بل بھی منظور کر لیا جسے سینیٹر ہمایوں مہمند نے پیش کیا۔ اس بل کے مطابق اب ہر پولیس افسر ریپ سے متاثرہ شخص کا ٹیسٹ حکومت کی تسلیم شدہ لیبارٹری سے کرانے کا پابند ہوگا، اور ڈی این اے سیمپل 72 گھنٹوں کے اندر لیا جائے گا۔ اگر پولیس اپنے فرائض میں ناکام رہی تو متعلقہ افسر کو تین سال قید اور جرمانے کا سامنا کرنا ہوگا۔

 

شیئر: