Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا کامیابی یا ناکامی کا کوئی پرفیکٹ فارمولا ہے؟ عامر خاکوانی کا کالم

مقابلے کے بعد نیرج چوپڑا نے کہا کہ آج رب ارشد کے ساتھ تھا، اس کا اشارہ قسمت کی جادوگری کی طرف تھا (فائل فوٹو: روئٹرز)
کتابیں پڑھنا میری زندگی کا بہت اہم حصہ ہے۔ کتابوں میں سے مجھے بائیوگرافی سب سے زیادہ پسند ہے۔ کسی بھی شعبہ زندگی کا فرد جب اپنی زندگی کی کہانی بیان کرتا ہے تو اس کے تجربات کا نچوڑ اور وقت کے سکھائے سبق بہت دلچسپ اور مفید لگتے ہیں۔ البتہ بعض ایسی بائیوگرافیز بھی ملتی ہیں جن میں لکھنے والا ایک فیک، مصنوعی سی تصویر بناتا ہے اور اپنے ساتھ پڑھنے والوں کو بھی دھوکہ دیتا ہے۔
کچھ بھی مختلف، منفرد یا غیر معمولی نہیں ہوتا۔ روٹین کی گِھسی پٹی باتیں اور تھکے ہوئے پامال فقرے۔ اِتنی جرات ہی نہیں ہوتی کہ وہ کُھل کر سچ بیان کر پائیں۔ ایسی درجن بھر مثالیں دے سکتا ہوں۔اگلے روز البتہ ایک بہت ہی دلچسپ اور چونکا دینے والی بائیوگرافی پڑھی۔
رام گوپال ورما انڈیا کے مشہور اور ٹرینڈ سیٹر فلم ساز ہیں۔ رام گوپال ورما کی فلم ’ستیا‘ نے بالی وڈ میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ انڈر ورلڈ، گینگ وار اور مافیاز پر اس سے پہلے اتنی موثر فلم نہیں بنائی گئی تھی۔ کون سا اچھا فلم بین ہے جس نے ’ستیا‘ نہیں دیکھی اور جو منوج باجپائی کی شاندار اداکاری سے متاثر نہیں ہوا۔منوج باجپائی کا وہ مشہور زمانہ مکالمہ ’ممبئی کا کنگ کون؟ بھیکو ماتھر۔ 
’ستیا‘ کے بعد ’کمپنی‘ (اجے دیوگن، ویویک اوبرائے) اور پھر ’سرکار‘ (امیتابھ بچن، ابھیشک بچن) جیسی فلمیں رام گوپال ورما نے بنائیں۔ ’ڈی کمپنی‘، ’اب تک چھپن‘ وغیرہ بھی رامو کی فلمیں ہیں۔دوسری طرف رنگیلا (عامر خان، اُرمیلا ماتونڈکر) ایک بالکل ہی مختلف انداز کی سپرہٹ فلم تھی، جس کے گانوں نے ہلچل مچا دی۔
 اے آر رحمان کو منفرد انداز کا میوزک دینے کا موقع رامو ہی نے دیا۔ یہی رامو کئی سُپر فلاپ فلموں کے ڈائریکٹر بھی رہے ہیں، ’داﺅد‘، ’آگ‘ (شعلے کا ری میک)، ’ڈیپارٹمنٹ‘ اور ’نشبد‘ وغیرہ۔
 رام گوپال ورما کی بائیو گرافی ’گنز اینڈ تھائز، سٹوری آف مائی لائف‘ کے نام سے ہے۔ 163 صفحات کی یہ کتاب ایسی ہے کہ آدمی کے سوچنے کا پورا پیٹرن تبدیل کر کے رکھ دے۔ رامو اتنا سفاک حد تک حقیقت پسند اور ڈاﺅن ٹُو ارتھ اور صاف گو آدمی ہوگا، اس کا مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا۔ کتاب کے بہت سے ٹکڑے اور بے شمار فقرے اس قابل ہیں کہ انہیں کوٹ کیا جائے۔
رامو دیباچے میں مشہور فلاسفر نطشے کا فقرہ کوٹ کرتا ہے، دنیا میں فیکٹس نام کی کوئی چیز نہیں، بس واقعات کی وضاحت یا تشریح ہی ہے۔ رامو کی بائیوگرافی بھی ایک طرح سے زندگی کے بارے میں اس کا نقطہ نظر اور تعبیر وتشریح ہی ہے۔ رام گوپال ورما کا ایک نظریہ بڑا دلچسپ لگا۔ وہ کہتا ہے کہ کامیابی کا کوئی پرفیکٹ فارمولا نہیں ہے بلکہ درحقیقت یہ ایک طرح سے اتفاق یعنی چانس ہی ہے۔

’ہر کوئی کہتا تھا کہ ’ستیا‘ فلم فلاپ ہوگی، اِن تھکے ہوئے چہروں کو دیکھنے کون آئے گا؟ لیکن ’ستیا‘ ہٹ ہوئی‘ (فائل فوٹو: آئی اے این ایس)

رامو کے مطابق کوئی خاص فارمولا ہوتا تو انسان زندگی میں کبھی ناکام ہی نہ ہوتا۔ ہر انسان ہر امتحان، ہر چیلنج میں کامیاب ہوتا۔اس کے حساب سے تہلکہ خیر کامیابی، سپرہٹ، بلاک بسٹر، پھٹے چک فتح وغیرہ سب الفاظ ہی ہیں۔
اس کا تعلق چونکہ فلم سے رہا ہے، وہ اس لیے زیادہ تر مثالیں فلموں کی دیتا ہے، مگر اس نے اپنی زندگی سے بھی بعض مثالیں دیں۔ وہ کہتا ہے کہ بعض اوقات آپ غلطی کرتے ہیں، مگر کسی طرح وہ کام کر جاتی ہے اور نتائج حسبِ توقع نکل آتے ہیں، لوگ اسے کامیابی قرار دیتے ہیں، درحقیقت وہ غلطی تھی مگر قسمت نے اسے کامیابی میں بدل دیا۔
رامو لکھتا ہے کہ میں نے فلم ’رنگیلا‘ بنائی تو ہر ایک نے تنقید کی کہ اُرمیلا ماتونڈکر ایک نئی اداکارہ ہے، اسے کیوں ہیروئن بنا رہے ہو؟ اسی طرح عامر خان بھی تب بڑا اداکار نہیں بنا تھا۔ہر ایک کا خیال تھا کہ یہ کامیاب نہیں ہوگی۔ رام گوپال ورما نے فلم ’روجا‘ کا میوزک سن کر اے آر رحمان کو چانس دیا۔سب نے کہا کہ پیسے برباد کر رہے ہو۔ ’رنگیلا‘ مگر سپرہٹ ہوئی۔
اُرمیلا کی خُوب صورتی اور رقص نے تہلکہ مچا دیا، عامر خان کا سٹائل انڈیا بھر کا ٹرینڈ بن گیا جبکہ اے آر رحمان انڈیا کا سب سے مشہور موسیقار بن گیا۔
رامو اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ ’رنگیلا‘ کے بعد میں نے ’داﺅد‘ بنائی ۔ ہر ایک نے کہا کہ کیا زبردست آئیڈیا ہے۔ سنجے دت کھل نائیک جیسی سُپرہٹ فلم کے بعد پہلی بار کسی فلم میں آرہا تھا، اُرمیلا اپنی فلم ’رنگیلا‘ کے بعد مشہور ہوچکی تھی، اے آر رحمان کا میوزک تھا۔ سب کچھ بہترین تھا۔

رامو لکھتا ہے کہ ’فلم ’رنگیلا‘ میں ارمیلا ماتونڈکر کو ہیروئن لینے پر ہر ایک نے تنقید کی‘  (فائل فوٹو: پِنٹرسٹ)

رامو کے بقول اس نے اپنی زندگی میں جن تین فلموں پر سب سے زیادہ وقت لگایا، بہت محنت کی اور سب سے زیادہ سرمایہ بھی خرچ کیا، ان میں سے ایک فلم ’داﺅد‘ بھی تھی۔ ’داﺅد‘ دراصل رامو کی چند سال پہلے سُپرہٹ ہونے والی تیلگو فلم ’کشانہ کشانم‘ کا ہندی ری میک تھا، تیلگو فلم میں سری دیوی نے کام کیا تھا۔ سب کچھ بہت اچھا لگ رہا تھا مگر فلم سُپر فلاپ ہوئی۔ بُری طرح ناکام۔
رامو نے اس کے فوری بعد ’ستیا‘ بنائی۔ یہ ایسی فلم تھی جس میں گینگسٹرز کو دکھایا گیا، بڑھی ہوئی داڑھی، پسینے میں بھیگے جسم، ممبئی کی حبس آلود گرمی اور اوسط درجے کے غنڈوں موالیوں کا لائف سٹائل وغیرہ۔ ہر کوئی کہتا تھا کہ یہ فلم فلاپ ہوگی، اِن تھکے ہوئے چہروں کو دیکھنے کون آئے گا؟ وغیرہ وغیرہ۔ ’ستیا‘ ہٹ ہوئی، نہ صرف ہٹ بلکہ اسے کلٹ فلم سمجھا جاتا ہے۔
رام گوپال ورما نے دلچسپ مثال دی کہ اگر کامیابی ناکامی کا کوئی خاص فارمولا ہوتا تو اشوتوش گواریکر جیسا ہدایت کار جس نے ’لگان‘ (عامر خان کی کرکٹ میچ پر بنائی گئی فلم) جیسا شاندار شاہکار بنایا، جسے آسکر ایوارڈ کے لیے بھی نامزد کیا گیا، وہی گواریکر ’بازی‘ جیسی تھکی ہوئی فلم کیوں بناتا؟
یہی مثال اس نے اوم پرکاش مہرا کے بارے میں دی جس نے ’عکس‘ جیسی سپر فلاپ فلم بنائی اور پھر ’رنگ دے بسنتی‘ جیسا ماسٹر پیس بھی اسی کا ہے۔رامو کے مطابق بہت سے لوگ بیک وقت اچھا اور بُرا کام کرنے کا پوٹینشل رکھتے ہیں۔

رامو کے مطابق ’بعض اوقات آپ غلطی کرتے ہیں، مگر کسی طرح وہ کام کر جاتی ہے اور نتائج حسبِ توقع نکل آتے ہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

فرق یہ ہے کہ اچھے یا اعلٰی کام میں سب چیزیں فٹ فاٹ بیٹھتی ہیں، کسی خاص جادوئی طریقے سے ہر کل پرزہ اپنے بہترین انداز میں کام کرتا ہے اور نتیجہ شاندار کامیابی کی صورت میں نکلتا ہے۔اسی طرح وہ کہتا ہے کہ بعض اوقات غلطیاں بھی اچھے نتائج لے آتی ہیں۔
فلموں میں آنے سے پہلے نوجوان رامو نے ویڈیو کیسٹس کی دکان شروع کی جسے وہ ویڈیو لائبریری کا نام دیتا ہے۔ اس کے گھر والوں کا خیال تھا کہ رامو جیسا نالائق کاروبار نہیں کر سکتا۔ وہ 800 روپے ماہانہ تنخواہ پر ملازم تھا، اسے چھوڑ کر دکان کھولی۔ دکان زبردست کامیاب ہوئی اور پہلے ماہ سے اس نے 20 ہزار روپے ماہانہ کمائی کی۔
رامو کہتا ہے کہ میرا پروجیکٹ کامیاب ہوا، مگر میری پلاننگ غلط اور فضول تھی۔ میرے 20 دوستوں کے پاس وی سی آر تھا، وہ روز فلم کرائے پر لیتے تھے، میں نے سوچا کہ وہ مجھ سے روز فلم لیں گے تو 200 روپے روزانہ اور 600 روپے ماہانہ آمدنی ہوگی۔
رامو کے مطابق اس کا اندازہ غلط نکلا، ان دوستوں نے کبھی اس سے فلم کرائے پر نہیں لی، اگرچہ دُور دُور سے لوگ آیا کرتے۔ میری منصوبہ بندی ناکام ہوئی، مگر نتیجہ ایسا زبردست کہ میرے والد کو پہلی بار مجھ پر فخر ہوا۔
رامو کی کتاب پڑھتے ہوئے مجھے مشہور انگلش بلے باز ڈیوڈ گاور کی بات یاد آئی۔ گاور نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’بہترین اننگز کا کوئی فارمولا نہیں ہوتا، بہت بار لارڈز گراﺅنڈ میں نہایت خوش گوار موسم ہوتا ہے، چمکتی دھوپ میں اچھے موڈ کے ساتھ بیٹنگ کرنے جاتے ہیں، ارادہ ہوتا ہے کہ ایک لمبی اننگز کھیلیں گے اور پہلی گیند ہی ایسی پڑتی ہے کہ آؤٹ ہو کر پویلین میں واپس۔‘

 رام گوپال ورما کی بائیو گرافی ’گنز اینڈ تھائز، سٹوری آف مائی لائف‘ بہت دلچسپ کتاب ہے (فائل فوٹو: بالی وڈ ہنگامہ)

وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ’کئی بار ایسا ہوا کہ موسم خراب ہے، گیلی پچ، گیند ہوا میں سوئنگ کر رہی ہے، بیٹنگ کرنا بہت دُشوار ہو چکا۔ یہی لگتا ہے کہ ابھی آؤٹ ہوئے، ابھی گئے، مگر جب واپس پویلین جاتے ہیں تو سکوربورڈ پر سینچری ناٹ آؤٹ کا ہندسہ جگمگا رہا ہوتا ہے۔‘
 مجھے جیولین تھرو میں اولمپک گولڈ میڈل جیتنے والے ارشد ندیم کا کھیل یاد آیا۔ اس نے یقینی طور پر بہت زیادہ محنت کی ہے، مگر یہ حقیقت ہے کہ فائنل راﺅنڈ میں یکایک تمام چیزیں اس کے حق میں یوں فِٹ ہوئیں کہ اس نے اپنی بیسٹ پرفارمنس دی۔ نیا اولمپک ریکارڈ بھی بن گیا اور پچھلے آٹھ برسوں میں پہلی بار وہ موجودہ ورلڈ چیمپئن نیرج چوپڑا کو شکست دینے میں بھی کامیاب رہا۔
مقابلے کے بعد پریس کانفرنس میں نیرج چوپڑا نے اپنے مخصوص ہریانوی لہجے میں کہا کہ میں 2016 سے ارشد کے مقابلے میں ہمیشہ جیتتا آیا ہوں، آج رب اس کے ساتھ تھا، وہ جیت گیا۔ نیرج کا مقصد ارشد ندیم کی محنت کا انکار نہیں تھا، اس نے یہ بات تسلیم بھی کی، اس کا اشارہ مگر قسمت کی جادوگری کی طرف تھا۔
رام گوپال ورما نے کتاب کے شروع میں لکھا ہے کہ میری کئی باتیں آپ کو مجھ سے نفرت کرنے پر مجبور کریں گی، مگر مجھے فرق نہیں پڑتا۔ یہ میری وہ آرا ہیں جنہیں میں ہمیشہ بیان کرتا رہوں گا۔ وہ کہتا ہے کہ ایک بار اس کی اہلیہ نے اسے اپنی سالگرہ کی وجہ سے فلم کی شوٹنگ پر جانے سے روکا۔

رامو سری دیوی کا بہت بڑا فین رہا ہے، اداکارہ کی حیثیت اس کے نزدیک دیوی دیوتاﺅں جیسی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

شوٹنگ دوسرے شہر میں تھی، جانا ضروری تھا۔ رامو نے روکنے کی وجہ پوچھی اور جب پتا چلا کہ سالگرہ کی تقریب ہے تو وہ جھنجھلا کر بولا، تمہاری پیدائش میں تمہارا کیا کمال ہے؟ تمہارے اس پر جشن منانے کی کیا بات ہے؟ کامیابی یا جشن تو زندگی میں کسی بڑی کامیابی پر منانا چاہیے، پیدا ہونے پر کاہے کا جشن؟رام گوپال ورما آگے جا کر لکھتا ہے کہ ’سالگرہ منانا پرلے درجے کی حماقت ہے، ویسے بھی ایسا ہر موقع انسان کو یہ احساس دلاتا ہے کہ اس کی عمر ایک سال مزید بڑھ گئی اور زندگی ایک سال کم ہو گئی ہے۔‘
کتاب میں بہت کچھ ایسا ہے جس پر بات ہو، مگر پہلے ہی کالم طویل ہوچکا۔ کتاب کا انتساب دلچسپ ہے۔ رامو نے لکھا کہ ’میں یہ کتاب میڈ میگزین، آئن رینڈ (روسی نژاد امریکی فلاسفر خاتون)، اُرمیلا ماتونڈکر، بروس لی، امیتابھ بچن کے نام کرتا ہوں، کیونکہ میری زندگی میں مختلف انداز سے ان کا بہت اہم اور گہرا حصہ ہے۔‘ 
رامو نے انتساب تو نہیں کیا، مگر کتاب میں اس نے بتایا کہ وہ سری دیوی کا بہت بڑا فین رہا ہے اور فلم انڈسٹری میں آنے سے قبل گھنٹوں اس کے گھر کے باہر ایک جھلک دیکھنے کے لیے کھڑا رہتا تھا۔ سری دیوی کی حیثیت اس کے نزدیک دیوی دیوتاﺅں جیسی ہے، وہ بونی کپور کو کبھی معاف نہیں کر پایا کہ جس نے سری دیوی جیسی حسینہ کو ایک عام ہاﺅس وائف بنا دیا تھا۔

شیئر: