گزرے برس آٹھ فروری کو بے نام و نشان جماعت کے چاہنے والوں نے بہرحال ہر مختلف نشان کی نشاندہی کر لی، انٹرنیٹ کو درپیش مشکلات کے باوجود اپنے امیدوار کو پہچان لیا، ٹھپہ لگایا اور خاموشی سے گھروں کو چل دیے۔
لیگی زعما ظہر کے بعد عصر کے قریب صورت حال بھانپ سکے۔ تب تک دیر ہو چکی تھی۔ باقی معاملات پھر نتائج کی صورت میں دیکھنے کو ملے۔
بلا چھن چکا تھا، بانی اندر، پارٹی تتر بتر، نظام بے ربط، لیکن اس سب کے باوجود ان گنت انتخابی نشانات کی شناخت ناممکن نہ ہو سکی۔ انتخابی سیاست کا یہ بڑا چمتکار تھا۔
تحریک انصاف سب سے بڑی جماعت کی صورت میں ابھر کر سامنے آئی، لیکن حکومت سازی نہ کر سکی۔ انہی نتائج کا اثر تھا کہ پارٹی مزید انقلابی سوچ پر گامزن ہوئی۔ پہلے پہل اسمبلی سے استعفوں کی صورت میں دباؤ کی ترکیب سوجھی۔ ماضی قریب میں ہوئے ایسے ہی ناکام تجربے کی وجہ سے البتہ یہ فارمولا فوراً مسترد کیا گیا۔
نو مئی کی تلخیاں ابھی باقی تھیں کہ پھر سے احتجاجی سیاست سے مینڈیٹ کی واپسی یا نئے چناؤ کے ساتھ خان کی رہائی کے لیے پلاننگ کی گئی۔ اسی بیچ 26 نومبر کے واقعات بھی دیکھنے کو ملے۔
مزید پڑھیں
-
رچرڈ گرینل اور عمران خان۔۔۔! اجمل جامی کا کالمNode ID: 883199
-
احتجاج، مذاکرات، خط اور اب گرینڈ الائنس؟ اجمل جامی کا کالمNode ID: 885491
سال بھر احتجاج سوالیہ نشانوں اور پکڑ دھکڑ کی تلخیوں سے بھرا رہا۔ احتجاج سے البتہ کایا نہ پلٹی جا سکی۔ امیدوں کا محور عدلیہ ٹھہری، اس وقت کی سپریم کورٹ میں کچھ سینیئر اور کچھ نیم سینیئر منصفین کے ریمارکس نے حرارت فراہم کی، امیدیں وابستہ کی گئیں کہ شاید عدالت سے انقلاب برپا ہوگا۔ 26ویں آئینی ترمیم نے عدلیہ سے متوقع انقلاب پر پانی پھیر دیا۔
اس عالم ویراں میں کیا انجمن آرائی
دو روز کی محفل ہے اک عمر کی تنہائی
باہر بیٹھی قیادت اور امریکی نژاد پاکستانیوں نے اپنے تئیں امریکی دباؤ کے لیے خوب کوشش کی۔ ٹرمپ کے دیس میں رائج طریقت کے ذریعے چند اہم ارکا ن کانگریس تک مدعا پہنچایا۔ گرینل اور پھر ولسن کے ٹوٹیس آنا شروع ہوئے تو پارٹی بالخصوص سوشل میڈیا کے داعیان کے لیے یہ ٹویٹس سٹریرایئڈز ثابت ہوئے، چند ہفتے خوب رونق لگی رہی۔ پارٹی کے ذمہ داران بھی ان ٹویٹس کا حوالہ دے کر حکومتی ذمہ داران کا منہ چڑاتے، پھر اچانک یہ دونوں اکاوئنٹس بھی شانت ہو گئے، ایک وقفہ آیا۔
اس بیچ سرکار اور پی ٹی آئی کی چند روز کے لیے مذاکرات کی کہانی بھی چلی۔ دو چار رابطے ہی ہو پائے تھے کہ اچانک کپتان نے سلسلہ منقطع کر دیا۔ یہ رابطہ اور اس کے نتیجے میں ہونے والی چند ایک مذاکراتی نشستیں سیاسی عدم استحکام اور افراتفری کے ہنگام خاصی مثبت ثابت ہو رہی تھیں۔

تحریک انصاف نے اپنے مطالبات کی طویل فہرست کو انتہائی محدود کر کے سنجیدگی کا پیغام دے رکھا تھا۔ پارٹی کے اندر باخبر ذرائع نے بتلایا کہ سلسلہ منقطع ہونے کے پیچھے بھی امریکہ سے ہونے والی کوششیں اور ان کوششوں کے پیچھے ذمہ داران تھے۔
یہ عناصر سمجھتے تھے کہ ٹرمپ آ چکا، ماحول بن چکا، ٹویٹس دھڑا دھڑ آ ر ہے ہیں، جلد امریکا سے ایسا دباؤ آسکتا ہے جو کپتان کی رہائی کو یقینی بنا سکتا ہے۔ ان کی منطق تھی کہ اس متوقع دباؤ کے ہوتے ہوئے مذاکرات کے نام پر بچھی بساط پارٹی کے بیانیے کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ تاثر جائے گا کہ ہم نیویں ہو گئے تھے۔ پارٹی قیادت سے غلطی یہ ہوئی کہ وہ اس جذباتی تاثر میں وقتی طور پر بہہ نکلی۔
جیسے ہی اس امر کا احساس ہوا قیادت نے فوراً جنوری میں تشکیل دی گئی چار رکنی خارجہ امور کی کمیٹی تحلیل کر دی۔ اس بیچ پارلیمان ہو یا سڑکیں عدالت ہو یا کوئی اور ایوان، کہیں سے بھی خاطر خواہ پلاننگ اور موثر حکمت عملی کے ذریعے انگیجمنٹ کا اہتمام نہ ہوسکا، تاہم علی امین اور بیرسٹر گوہر مسلسل ربط کی کوشش میں مصروف رہے۔
مطلوبہ نتائج البتہ موصول نہ ہو سکے۔ مسئلہ کوشش اور سوشل میڈیا پر جاری پرچار کے بیچ تضاد کا تھا۔ چند روز پہلے اسی خلیج کو پاٹنے کے لیے پھر سے سرگرمیاں شروع ہوئیں۔ گنڈا پور ہوں یا بیرسٹر گوہر، اپنے تئیں یہ پھر سے حرکت میں آئے۔ اعتماد سازی کے لیے پہلا قدم مذکورہ کمیٹی کی تحلیل تھی، دوسرے مرحلے میں آفیشل ہینڈلز پر نشر مواد کی نگرانی تھی۔
ابھی دو چار روز پہلے امریکہ سے ولسن کی ایک اور کوشش کے نتیجے میں پاکستان بارے ایک بل متعارف کروانے کی خبر نشر ہوئی۔ صبح کے چار بجے کے آس پاس کا وقت تھا، اسی وقت اطلاع ملی کہ سپہ سالار کی والدہ محترمہ اس دنیا میں نہیں رہیں۔ احباب تعزیت میں مصروف تھے کہ ولسن کے ٹویٹ کے بعد آفیشل ہینڈل سے ہارڈ سٹیٹ کے بیانیے پر مبنی تلخ ٹویٹ سامنے آ گئی، لیکن اسی روز شام سے پہلے یہ ٹویٹ ڈیلیٹ ہو چکی تھی اور پی ٹی آئی آفیشل اکاؤئنٹ سے تعزیتی ٹویٹ شائع کی گئی۔ یقیناً یہ ایک انتہائی مناسب اور ذمہ دار حکمت عملی تھی۔

آزمائے گئے کسی بھی فارمولے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے تو پارٹی کے اندر سنجیدگی سے یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ کیوں نہ پالیسی ہی بدل کر دیکھ لی جائے۔ مولانا کے ساتھ ربط اور اپوزیشن اتحاد کی تشکیل اس سلسلے کی ایک سیاسی اپروچ ہے۔
خارجہ امور کے لیے قائم کمیٹی کی تحلیل سے لے کر تلخ ٹویٹ کے ڈیلیٹ ہونے تک کا معاملہ اسی اپروچ کی دوسری کڑی ہے۔ اسلام آباد بیٹھے علی امین گنڈا پور انہی ثبوتوں کے ساتھ کسی معنی خیز ربط کی کوشش میں مصروف ہیں۔
یہ بھی کارگر نہ ہو تو پھر تبدیلی پارٹی کو یقیناً شاہ محمود پر تکیہ کرنا ہوگا کہ ڈومیسٹک کھیلے بغیر جب کسی کھلاڑی کو نیوزی لینڈ جیسی باؤنسی پچوں پر آزمایا جائے تو نتیجہ وہی نکلتا ہے جو حالیہ ٹی20 سیریز میں نکلا۔
آزمائے ہوئے تجربہ کار کھلاڑی کریز بھی سنبھالتے ہیں اور باؤنسرز بھی ویل لیفٹ کر لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہی آزمودہ کھلاڑی سیاست کے میدان میں پرانی شناسائیوں اور پچ کی بروقت شناخت کے کارن بہر حال پارٹنر شپ لگانے میں کامیاب ہو ہی جاتے ہیں، ضرورت صرف موقع دینے کی ہے۔