Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اور ملال بھی نہیں‘، جون ایلیا، ایک ’لااُبالی‘ مگر ’فلسفی‘ شاعر

جون ایلیا تلاطم خیز جیون بتانے کے بعد 8 نومبر 2002 کو کراچی میں چل بسے (فائل فوٹو: ایلیائی فیس بُک)
ریاستِ اودھ غیرمنقسم ہندوستان میں فن و ادب کا ایک اہم مرکز رہا ہے۔ نواب واجد علی شاہ کے اقتدار کا سورج غروب ہوا تو یہ خطہ متحدہ صوبہ جات میں ضم ہو گیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد اُترپردیش کو نیا نام ملا مگر اس خطے کے لوگ کبھی اپنے ماضی کو فراموش نہیں کر سکے۔
اسی ریاست میں امروہہ نام کا ایک چھوٹا سا شہر ہے جو آموں کی پیداوار کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس شہر سے اُردو کے بے مثل شاعر جون ایلیا کو وہی نسبت ہے جو دینہ کو گلزار سے ہے۔
بات جون ایلیا کی ہو تو ایک ایسے شاعر کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے جو زندگی سے بے پروا اپنی ہی دُھن میں مگن، اپنے ہی شعروں پر جُھومتا مشاعرے لُوٹ لیا کرتا تھا اور رواں ہزاریے کی پہلی دہائی میں جب سوشل میڈیا آیا تو جون ایلیا کا ایک نیا جنم ہوا اور اُن کے شعر اُن لوگوں کی وال پر بھی نظر آنے لگے جن کی اُردو شاعری میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی۔
جون ایلیا 14 دسمبر 1931 کو امروہہ میں پیدا ہوئے۔ اُن کا نام سید سبطِ اصغر نقوی تھا۔ والد سید شفیق حسن ایلیا عالم اور شاعر تھے۔ بڑے بھائی رئیس امروہوی، سید محمد تقی اور سید محمد عباس کے نام بھی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔
رئیس امروہوی ایک یگانہ روزگار شاعر تھے تو سید محمد تقی فلسفی اور صحافی کے طور پر جانے گئے۔ وہ طویل عرصہ تک روزنامہ جنگ کے ایڈیٹر رہے۔ تقسیم کے وقت یوں تو سارا خاندان پاکستان آگیا مگر جون ایلیا امروہہ میں ہی مقیم رہے اور 1956 میں پاکستان آئے۔ یہ ہجرت کا زخم ساری زیست اُن کے ساتھ رہا۔
یہ ایک ایسے شاعر کی زندگی و فن کا بیاں ہے جس کی شاعری کا پہلا مجموعہ اُس وقت شائع ہوا جب شاعر تقریباً 60 سال کی عمر کو پہنچ چکے تھے۔ اُن کی چھوی ایک ایسے شاعر کے طور پر پیش کی جاتی ہے جو معمول کی زندگی جینے کے فن سے عاری تھے۔ جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں،
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
’سب رنگ‘ کے شکیل عادل زادہ جون ایلیا کے قریب ترین دوستوں میں سے ایک تھے۔ وہ جون ایلیا کے اس لااُبالی انداز کو ’ڈرامے‘ سے تعبیر کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’جون ایلیا میں ایک تھوڑا سا ڈرامہ بھی تھا۔ میں اُن سے یہ کہتا تھا کہ اس ڈرامے کی کیا ضرورت ہے جب کہ آپ اتنے اچھے شعر کہتے ہیں کہ آپ کو تو بے نیاز ہو جانا چاہیے تو وہ مسکرا دیتے تھے۔‘
انہوں نے اُردو ادب کی مشہور ویب سائٹ ’ریختہ‘ سے بات کرتے ہوئے اُن کی زیست کے اس پہلو کو واضح کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’آپ (جون ایلیا) رات کے وقت ایک مشاعرے میں شرکت کر رہے ہیں اور گرمی کا موسم ہے تو اُس میں آپ اوور کوٹ میں آرہے ہیں اور چشمہ لگا کر آرہے ہیں رات کے مشاعرے میں۔یہ ڈرامہ صادقین بھی کرتے تھے۔‘

جون ایلیا کا کہنا تھا کہ ’اگر زاہدہ اور میری محبت ناکام ہو سکتی ہے تو کسی کی بھی ہو سکتی ہے‘ (فائل فوٹو: ایلیائی فیس بُک)

صادقین کا ذکر ہوا تو یہ بتاتے چلیں کہ اس بے مثل مصور کا تعلق بھی امروہہ سے ہی تھا۔
دلچسپ بات مگر یہ ہے کہ جون ایلیا کی شاعری ہو یا صادقین کے فن پارے، اُن میں اُن کی زندگی کا یہ لااُبالی پن نظر نہیں آتا۔
جون ایلیا نے غزل کی روایت سے انحراف کیا اور ایسے موضوعات اپنی شاعری میں پروئے جو روایتی غزل کے معیار پر پورا نہیں اُترتے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اُن کی جیون کتھا کی طرح  اُن کی شاعری بھی غیر روایتی ہے۔ 
وہ اپنی حقیقی زندگی میں ’باغی‘ تھے تو شاعری میں بھی وہ اپنی اس باغیانہ روش پر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔
اُردو کے ممتاز نقاد اور اُستاد ڈاکٹر ناصر عباس نیئر نے اس بارے میں اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جون ایلیا ہماری اُردو شاعری کی روایت میں منفرد شاعر ہیں۔ ایک شاعر اُس وقت ہی اپنا نام پیدا کر سکتا ہے جب وہ روایت سے انحراف کرے۔ 
’یہ انحراف اُن کی شخصیت اور فن دونوں میں نظر آتا ہے۔ دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ وہ بہ ظاہر غیرسنجیدہ دکھائی دیتے تھے مگر اُن کی شاعری سادہ ہوتے ہوئے بھی اپنے معنوں اور مفہوم میں بہت گہری ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’غزل میں دو طرح کے شاعر ہیں، ایک وہ جو غالبؔ کی روایت کو لے کر آگے چلے جب کہ دوسرے وہ جنہوں نے غزل کو جدید رجحانات سے متعارف کروایا۔‘
’جون ایلیا کی شاعری میں یہ دونوں رجحانات موجود ہیں۔ انہوں نے غزل کو نیا آہنگ دیا۔ اُن کی شاعری میں پُرکاری ہے اور یہی اُن کی انفرادیت ہے۔‘
بات جون ایلیا کی ہو تو ان کی زیست کو اُن کے فن سے جدا کرنا ممکن نہیں۔ یہ نہیں ہے کہ وہ ایک دن اُٹھے اور شعر کہنے لگے۔ انہوں نے پہلا شعر آٹھ برس کی عمر میں کہا جب وہ پہلی بار محبت کے جذبے سے متعارف ہوئے۔

جون ایلیا اور ان کی اہلیہ زاہدہ حنا میں آٹھ سال تک رفاقت قائم رہی (فائل فوٹو: فلِکر)

وہ یہ شعر مگر اپنی محبوبہ کے روبرو کبھی نہ سنا پائے کیوں کہ اُن کا خیال تھا کہ محبت کا اظہار کرنا مناسب نہیں۔ یہ وہ دن تھے جب وہ امروہہ میں رہ رہے تھے، جہاں ’میَں‘ کا نہیں بلکہ ’ہم‘ کا صیغہ استعمال کیا جاتا تھا جو تہذیب یافتہ ہونے کی علامت تھا۔
جون ایلیا کو بہت سی زبانوں پر عبور حاصل تھا جن میں عربی اور فارسی بھی شامل ہیں جب کہ وہ سنسکرت اور عبرانی بھی جانتے تھے۔
 وہ مغربی اور مشرقی فلسفوں، مذاہب اور ثقافتوں کے بارے میں گہرائی سے علم رکھتے تھے جس کا اظہار اُن کے انشائیوں اور نظموں میں جابجا ہوتا ہے جن پر بات کرنے سے قبل جون ایلیا کی شاعری کے اُس پہلو پر بات کرنا ازبس ضروری ہے جس کے باعث وہ سوشل میڈیا پر غیرمعمولی طور پر مقبول ہوئے۔ 
ڈاکٹر ناصر عباس نیئر کے نزدیک اس کی وجہ اُن کی شاعری کا عام فہم ہونا ہے تو معروف شاعر اور استاد ڈاکٹر ضیاالحسن اس کی وجہ اُن کی شاعری میں موجود رومانویت کو قرار دیتے ہیں۔ 
انہوں نے اس بارے میں اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اُن کی شاعری ایک جانب فلسفیانہ موضوعات کا احاطہ کرتی ہے تو دوسری جانب اس میں رومانویت بھی ہے۔
یوں کہہ لیجیے کہ اُن کی شاعری رومان میں گندھی ہوئی ہے چاہے اُن کے اشعار رومانوی ہیں یا نہیں۔ وہ Taboos کو توڑتے ہیں، اُن تصورات کو بہت شدت سے توڑتے ہیں جنہیں ہمارے معاشرے میں تقدس کا پیراہن پہنا دیا گیا ہے جس کے باعث وہ انفرادیت کے حامل قرار پاتے ہیں۔‘
معروف محقق عقیل عباس جعفری برطانوی نشریاتی ادارے کے لیے لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں کچھ یوں رقم طراز ہیں کہ ’یہ فیس بک کا کمال ہے کہ جون ایلیا اس وقت اردو کے مقبول ترین شاعر بن چکے ہیں۔‘

جون ایلیا نے ایسے موضوعات اپنی شاعری میں پروئے جو روایتی غزل کے معیار پر پورا نہیں اُترتے (فائل فوٹو: فلِکر)

’نوجوان ان کی شاعری پڑھتے ہیں اور فارورڈ کرتے ہیں۔ ایس ایم ایس، واٹس ایپ کے ذریعے آگے بڑھاتے ہیں اور ان کی سالگرہ اور برسی ایک ایونٹ کے طور پر مناتے ہیں۔‘
سماجی میڈیا پر جون ایلیا کی مقبولیت سے قطعٔ نظر اپنی زیست میں ہی جون ایلیا کی ایک شاعر کے طور پر شہرت مستحکم ہو چکی تھی اور سال 1991 میں جب اُن کی شاعری کا پہلا مجموعہ ’شاید‘ شائع ہوا تو وہ ادبی حلقوں کا ایک جانا پہچانا نام بن چکے تھے۔
جون ایلیا اپنی شاعری کی طرح روزمرہ تکلم میں بھی برجستگی لیے ہوئے تھے۔ شکیل عادل زادہ نے اس بارے میں ریختہ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جون ایلیا ایک بہت اچھے فقرے باز تھے اور اُن کے بہت سے فقرے مثلاً  ’یار! سنا ہے، پہلے زمانے میں بیویاں مر بھی جایا کرتی تھیں‘، تو اس قسم کے وہ فقرے بولتے تھے۔‘
ڈاکٹر ضیاالحسن کہتے ہیں کہ جون ایلیا کی غزلوں کا تو بہت ذکر ہوتا ہے مگر وہ نظم کے بھی ایک عمدہ شاعر تھے۔
اور یہ درست بھی ہے کیوں کہ جون ایلیا کی ایک اہم کتاب ’راموز‘ دراصل اُن کی طویل نظم پر مشتمل ہے جسے مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جیسے کہ ’لوحِ کتاب‘، ’لوحِ رجز‘ اور ’لوحِ آمد‘ وغیرہ۔
ممتاز نقاد ڈاکٹر سحر انصاری اس کتاب میں شامل اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’جون ایلیا کی اس طویل نظم کے کئی حصے ہیں۔ان میں مضامین اور موضوعات کا تنوع ہے۔ البتہ لفظوں کا آہنگ، لفظیات، شکوۂ الفاظ اور لہجہ خاص سطح پر نمایاں ہوتا ہے اور شروع سے آخر تک قائم رہتا ہے۔ اس سے قبل کئی سال پہلے جون ایلیا ’دو آوازیں‘ کے نام سے اسی آہنگ میں ایک نظم لکھ چکے تھے۔‘
جون ایلیا نے یہ نظم ’نئی آگ کا عہد نامہ‘ کے عنوان سے لکھنا شروع کی تھی جسے ازاَں بعد تبدیل کر کے ’راموز‘ کر دیا۔
جون ایلیا شاعری میں ایسا ڈُوبے کہ ان کی نجی زندگی تلاطم کا شکار ہو گئی۔ یہ ایک ناکام محبت کی کہانی ہے۔

شکیل عادل زادہ کہتے ہیں کہ ’جون اور زاہدہ میں جو خط و کتابت ہوئی ہے، وہ ایک پڑھنے کی چیز ہے‘ (فائل فوٹو: فلِکر)

عرفان جاوید روزنامہ جنگ کے لیے اپنے ایک مضمون میں محبت کی اس کہانی کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں، ’ایک سکول کے مشاعرے میں انہوں (جون ایلیا) نے سکول کی کارکن، زاہدہ حنا کو دیکھا۔ زاہدہ تعلیم کے ساتھ ملازمت بھی کر رہی تھیں اور گھر بھی دیکھ رہی تھیں۔‘
وہ اس مضمون میں مزید لکھتے ہیں کہ ’سانولی، خوش چہرہ، خوش قامت اور خوش شعار زاہدہ ان بہت سی لڑکیوں سے مختلف تھیں جن سے جون کا واسطہ ہوا تھا یا رہا تھا۔‘
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’زاہدہ حنا سے پہلی ملاقات کے بعد بات بڑھتی گئی۔ زاہدہ کی مصروفیات کی وجہ سے ملاقاتیں تو کم کم ہوتی تھیں، فون اور خطوط یہ کمی دور کر دیتے تھے۔ دونوں جانب سے خطوط کا سلسلہ معمول بن گیا تھا۔‘
’جن چند قریب ترین احباب نے یہ خطوط پڑھے ہیں، اُن کی رائے ہے کہ اُردو میں گنتی کے خطوط کے مجموعوں میں زاہدہ اور جون کے خطوط بیش قیمت اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بہ وجوہ ان کی اشاعت ممکن نہیں۔‘‘
شکیل عادل زادہ اس بارے میں کہتے ہیں کہ ’دونوں میں جو خط و کتابت ہوئی ہے، وہ ایک پڑھنے کی چیز ہے۔ اور وہ کتاب محفوظ ہے۔ اُن لوگوں نے ایڈٹ کر کے رکھی ہوئی ہے۔ لیکن کچھ ایسے معاملات ہیں اُس میں کہ مناسب نہیں اُس کا چھپنا۔ تو دیکھیے کب چھپتی ہے، کب اُس کا وقت آئے گا۔
جون ایلیا اور زاہدہ حنا میں آٹھ سال رفاقت رہی۔ اس دوران زاہدہ حنا نے عالمی ڈائجسٹ میں ملازمت اختیار کر لی تھی جس کے لیے وہ ترجمے کرتیں اور مضامین لکھا کرتیں۔ وہ دونوں سال 1970 میں رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔
یہ رشتہ مگر کامیاب نہ ہو سکا۔جون ایلیا نے اس بارے میں کہا تھا، ’اگر دنیا میں زاہدہ اور میری محبت ناکام ہو سکتی ہے تو کسی کی بھی ہو سکتی ہے۔‘
کچھ برس قبل جون ایلیا کی بڑی صاحب زادی فینانہ فرنام نے ایک طویل مضمون میں اس شادی کی ناکامی کی وجوہات اور اپنے جذبات کا کچھ یوں اظہار کیا۔

جون ایلیا کی صاحب زادی نے ایک مضمون میں والدین کی شادی ناکام ہونے کی وجوہات کا ذکر کیا ہے (فائل فوٹو: فلِکر)

’ابو نہ تو خود امی کو قبول کر سکے اور نہ ان کے خاندان نے امی کو کبھی قبول کیا اس لیے کہ امی امروہہ کی نہیں تھیں، دونوں کا فرقہ بھی الگ تھا۔ ان باتوں کی وجہ سے امی ابو میں وہ فاصلے پیدا ہو گئے جو وقت کے ساتھ بڑھتے چلے گئے۔‘
وہ لکھتی ہیں کہ ’ابو سے یہ بات ہضم کرنا بھی مشکل ہوتا چلا گیا کہ وقت کے ساتھ امی کی شہرت میں اضافہ ہو رہا تھا، وہ ایک بہت پڑھے لکھے انسان تھے اور ان سے ایسی سوچ کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔‘
جون ایلیا اپنی نجی زندگی میں جیسے بھی رہے ہوں مگر وہ دنیا بھر میں اُردو پڑھنے والوں کے محبوب ترین شاعر ہیں مگر اُن کی شاعری میں اُن کی نثر کہیں کھو گئی جس سے اُردو پڑھنے والے اُس وقت متعارف ہوئے جب جون ایلیا کے دوست خالد انصاری نے اُن کے مختلف مضامین اور انشائیے ’فرنود‘ میں یکجا کیے۔ 
ان انشائیوں میں جون ایلیا نے متنوع موضوعات پر لکھا۔ کبھی وہ سیاست پر بات کرتے ہیں اور کبھی تجریدی موضوعات جیسا کہ تنہائی اور جہالت پر بات کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
 ان انشائیوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ وہ عہدنامہ قدیم و جدید، قرآن حکیم کے علاوہ معتزلہ فلسفے سے ہی کماحقہ واقف نہیں تھے بلکہ کانٹ، نطشے اور سارتر جیسے فلسفیوں سے بھی انہوں نے بھرپور استفادہ کیا تھا۔
ڈاکٹر ناصر عباس نیئر کہتے ہیں کہ ’جون ایلیا کی نثر پڑھ کر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ وہ بہت زیادہ صاحبِ علم انسان تھے اور اپنے اردگرد کی معروضی سچائیوں سے الگ تھلگ نہیں تھے۔
’اُن کے انشائیوں میں جابجا اُن کی انسانیت پسندی کا اظہار ہوتا ہے جس کی جھلک اُن کی شاعری میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے شاندار نثر تخلیق کی مگر وہ ان کی شاعری کے نیچے دب گئی۔‘

ڈاکٹر ضیاالحسن کہتے ہیں کہ ’جون ایلیا کی غزلوں کا تو بہت ذکر ہوتا ہے مگر وہ نظم کے بھی عمدہ شاعر تھے‘ (فائل فوٹو)

’شاید‘ وہ واحد شعری مجموعہ تھا جو جون ایلیا کی زندگی میں شائع ہوا۔ اس کے دیپاچے میں جون ایلیا یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ’یہ میرا مجموعۂ کلام یا شاید پہلا اعترافِ شکست ہے جو انتیس، تیس برس کی تاخیر سے شائع ہو رہا ہے۔ 
’یہ ناکام آدمی کی شاعری ہے۔یہ کہنے میں بھلا کیا شرمانا کہ میں رائیگاں گیا۔ مجھے رائیگاں ہی جانا بھی چاہیے تھے۔ جس بیٹے کو اس کے انتہائی خیال پسند اور مثالیہ پرست باپ نے عملی زندگی گزارنے کا کوئی طریقہ نہ سکھایا ہو بلکہ یہ تلقین کی ہو کہ علم سب سے بڑی فضیلت ہے اور کتابیں سب سے بڑی دولت ہیں تو وہ رائیگاں نہ جاتا تو اور کیا ہوتا۔‘‘
جون ایلیا ایک تلاطم خیز جیون بتانے کے بعد آج ہی کے روز 8 نومبر 2002 کو کراچی میں چل بسے۔ یہ تذکرہ کرنا بہرحال ازبس ضروری ہے کہ اُن کی زیست پر بہت بات کی جاتی ہے، اُن کا بوہیمین طرزِ زندگی موضوع بحث رہتا ہے اور اُن کی حسِ مزاح پر بھی بات ہوتی ہے مگر اُن کی شاعری پر سرِدست سنجیدہ نوعیت کا تنقیدی کام کیے جانے کی ضرورت ہے جو اس لیے آسان نہیں ہو گا کہ اُن کی شاعری اور نثر پر تنقید کے لیے اُن سا صاحبِ علم  ہونا ضروری ہے۔
جون ایلیا کے شعری مجموعے ’گمان‘، ’لیکن‘ اور ’گویا‘ اُن کی وفات کے بعد آٹھ برس کے عرصے میں شائع ہوئے جنہیں اُردو پڑھنے والوں کی جانب سے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔
جون ایلیا کی آج 22 ویں برسی ہے۔ وہ ایک ایسے شاعر ہیں جنہوں نے ہمیشہ زندۂ جاوداں رہنے والا ادب تخلیق کیا۔ جان کیٹس کی طرح جون ایلیا بھی درد سے رومانس کرنے والے شاعر تھے کیوں کہ جون ایلیا نے اُن کا گہرا اثر قبول کیا تھا۔
جاتے جاتے جون ایلیا کا ایک شعر آپ کی نذر:
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں

شیئر: