افتخار حسین راہب کے اعزاز میں ’’بزمِ اردو ادب الاحساء ، الخبرسوشل فورم اور بزمِ ادراک ‘‘کا الوداعیہ
* * * *بشیر احمد بھٹی ۔ الخبر* * * *
ایشیائی ممالک کے باشندے آنکھوں میں سنہری مستقبل کے خواب سجا کر مختصر سے زادِ سفر کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں پر دن رات محنت کر کے ایک ایک پائی وطن روانہ کرتے ہیں تاکہ خاندان کے اچھے دن آجائیں۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ سیاہ بالوں کے ساتھ وطن کی خاک کو خیرباد کہہ کر نکلنے والے جب برسوں بعد زادِ سفر سمیٹ کر واپسی کی تیاری کرتے ہیں تو بالوں میں چاندی اترچکی ہوتی ہے۔وہ کئی محلے داروں کے نام بھول چکے ہوتے ہیں۔ منطقہ شرقیہ کے ممتاز شاعر اور بے باک نقاد افتخار حسین راہب نے بھی وطن لوٹنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ ’’بزمِ اردو ادب الاحساء ، الخبرسوشل فورم اور بزمِ ادراک ‘‘نے مشترکہ پلیٹ فارم پر افتخار حسین راہب کے اعزاز میں الوداعی تقریب کا الاحساء کے ریستوران میں اہتمام کیا۔ تقریب کی صدارت کہنہ مشق شاعر ’’شام کی زد میں‘‘ کے خالق ’’اوورسیز پاکستانی رائٹرز فورم ‘‘کے روحِ رواں اور خاکہ نگار اقبال احمد قمر نے کی۔
مہمانِ خصوصی کی نشست پر افتخار حسین راہب جلوہ افروز تھے۔ مہمانانِ اعزاز ی کی نشستوں پر منفرد لہجے کے شاعر حکیم اسلم قمر اور ادب نواز شخصیت اور ریستوران کے ایم ڈی رانا امجدپرویز موجود تھے۔ ریستوران کے منیجر محمد سلیم کے مثالی تعاون کے بغیر یہ تقریب ممکن ہی نہیں تھی۔ نظامت کے فرائض منفرد اسلوب کے شاعر ، فکاہ نگار و افسانہ نگار محمد ایوب صابر نے ادا کئے۔یہ الوداعیہ2حصو ں پر مشتمل تھا۔ پہلے حصے میں افتخار حسین راہب کے فن اور گزرے ہوئے حسین لمحات پر روشنی ڈالی گئی جبکہ دوسرے حصے میں شاندار محفلِ مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا۔
تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت ِ کلامِ پاک سے ہواجس کی سعادت حکیم اسلم قمر نے حاصل کی۔ اس کے بعد رانا امجدپرویز نے بزم ِ اردو ادب، الاحساء کی جانب سے افتخار حسین راہب کی شال پوشی کی ۔حکیم اسلم قمر نے بزمِ اردو ادب، الاحساء کی جانب سے ـافتخار حسین راہب کے فن کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ــ’’سندِ سپاس ‘‘ پیش کی۔ سرفراز حسین ضیاء نے الخبر سوشل فور م کی جانب سے افتخار حسین راہب کو تحائف پیش کئے۔ محمد ایوب صابر نے بزمِ ادراک کی جانب سے افتخار حسین راہب کو تحائف اوراعترافِ فن میں ’’سندِ سپاس ‘‘ پیش کی۔ وقار ضیا نے تنویر احمد تنویر کی جانب سے تحائف پیش کئے۔ صدرِ مجلس اقبال احمد قمر نے تنویر احمد تنویر کی تحریر کردہ نظم’’ افتخار حسین راہب کے نام‘‘ کی رنگوں سے مزین تختی پیش کی۔ جلال الدین حسامی نے افتخار حسین راہب کے فن پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ افتخار ایک ایسے شاعر ہیں جن سے ہم سب نے استفادہ کیا ۔ اِن کی محبت اور شفقت ہمارے لئے سرمائے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اِن کی شعر گوئی کا انداز کون بھول پائے گا۔
جاوید طالب نے کہا کہ افتخار راہب کی شاعری میں ایسا لطف اور چاشنی ہے کہ ہم سب اِن کو سن کر محظوظ ہوتے ہیں۔سید منصور شاہ نے کہا کہ افتخار راہب سے میری ملاقات سوشل میڈیا کے ذریعے ہوئی تھی۔ افتخار راہب مشاعروں سے بے نیازرہے ہیں۔ وہ اپنے انداز میں شعر کہتے ہیں اور کسی ستائش کی طلب نہیں رکھتے ۔ ایسے سادہ طبیعت شاعر سے مل کر کون متاثر نہیں ہو گا۔ ولی حیدر لکھنوی نے کہا کہ میرے اور افتخار راہب کے درمیان برسوں کی رفاقت ہے۔ مجھے آج بھی وہ پہلی ملاقات یاد ہے جب ایک مشاعرے میں افتخار راہب میرے ہاں آئے تھے۔ اِن کی تشریف آوری ایسی تھی جیسے میرتقی میر لکھنو آئے ہوں۔
اِس کے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ طویل ہوتا گیا اور جان پہچان، دوستی میں تبدیل ہو گئی۔ سرفراز حسین ضیاء نے کہا کہ جذبات کا اظہار لکھ کر کرنا مشکل ہے ۔ افتخار راہب کی محبتوں نے مجھے اپنا اسیر کر لیا۔ میں نے جب بھی افتخار حسین سے شاعری میں رہنمائی حاصل کی تو مجھے ایسا لگا کہ اِن سے بہتر رہنمائی کو ئی اور نہیں کر سکتا ۔ میری ساری شاعری افتخار راہب کی مرہونِ منت ہے۔ محمدایوب صابر نے اپنے مقالے میں کہا کہ افتخار راہب کا شمار اُن شعراء میں ہوتا ہے جو شعر کہنے کے بعد اُسے سنانے کے لئے موقع کی تلاش میں نہیں ہو تے بلکہ ادبی محفل میں اپنے شعر سنانے سے زیادہ لطف دوسروں کی شاعری سننے سے حاصل کرتے ہیں ۔ میں نے افتخار راہب سے زیادہ دادو تحسین سے بے نیاز آج تک کسی شاعر کو نہیں دیکھا۔ اِن کی شاعری میں ایسے بے شمار اشعار ہیں جن کوایک دفعہ سننے اور پڑھنے سے تشنگی باقی رہ جاتی ہے۔ عام طور پر شاعر، شعر تخلیق کرنے کے بعد ہوائوں میںاُڑنا شروع کر دیتے ہیں اِس کے برعکس افتخار راہب منفرد اسلوب کی شاعری تخلیق کرنے کے بعد بھی اِس قدر کسرِنفسی سے اپنی شاعری کا تذکرہ کرتے ہیں جیسے انہوں نے معمولی ساکام کیا ہے حالانکہ اِ ن کی شاعری غیر معمولی ہے۔
حکیم اسلم قمر نے کہا کہ افتخار حسین راہب ایک ایسے شاعر ہیں جن پر اہلِ الاحسا ء کو ہمیشہ فخر رہا ہے۔ شعری نزاکتوں کا ذکر ہو یا شعر کی اثرپذیری کی بات چلے، افتخار راہب اپنے آپ میںبے مثال ہیں۔ میں اِس محفل میں برملا اظہار کررہا ہوں کہ افتخار راہب میرے لئے استاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کے ہندوستان واپس جانے پر ایسا لگ رہا ہے کہ ہماری محافل ویران ہو جائیں گی۔ تنویر احمد تنویر نے منظوم خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اپنی نظم ’’افتخار حسین راہب کے نام‘‘ میں کہا:
وہ اک فنکار ِ کامل ہے جو سوز و ساز کا ماہر مغنی ہے
سخنور ہے ، مقرر ہے، مصور ہے، وہ کاتب ہے، وہ راہب ہے
سخن فہمی ،سخن گوئی، سخن کی پاسدار ی ختم ہے اُس پر
وہ ہم طفلانِ مکتب کا معلم ہے، محاسب ہے ، وہ راہب ہے
اِس موقع پر افتخار حسین راہب نے تمام احباب کا شکریہ ادا کیا جو دور دراز سے سفر کر کے اُن کی عزت افزائی اور شرفِ ملاقات کے لئے آئے تھے۔ انہوں نے احباب کے ساتھ گزرے ہوئے خوبصور ت لمحات کا بھی ذکر کیا اور احباب کے ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعے رابطے میں رہنے کا عہد کیا ۔ اقبال احمد قمر نے صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ افتخار حسین راہب کی شخصیت اور فن کے کئی پہلوہیں۔ موسیقی ،خطاطی اور شاعری کے ہر پہلو میں انہیں کمال حاصل ہے۔
فنِ عروض پر افتخار راہب کو عبور حاصل ہے اور الاحساء میں کئی شعراء نے اِن سے استفادہ کیا ہے۔ اِن کے اشعار میں ایسی گہرائی ہے کہ پڑھنے یا سننے والا بے ساختہ داد دینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اب یہ اپنے وطن جا رہے ہیں تو ہم سب یقینا ان کی کمی محسوس کریں گے ۔ ہماری دُعا ہے کہ افتخار راہب اپنے وطن میں پُر سکون اور خوشحال زندگی گزاریںاور اگر یہ واپس سعودی عرب آئیں تو ہم دل کی گہرائیوں سے اِنہیں خوش آمدید کہیں گے۔ دوسرے دور میں شعری نشست کا آغاز ہوا۔ شعراء اپنی بیاض سے منتخب اشعار پیش کر رہے تھے۔ ہر طرف داد و تحسین کی آوازوں کا لامتناہی سلسلہ جاری تھا۔
شعر داد کی شکل میں اپنا خراج وصول کر رہے تھے۔جلال الدین حسامی، محمد طالب جاوید، اعجاز الحق، دائود اسلوبی، مسعود جمال، غزالہ کامرانی، سلیم حسرت، وقار ضیا، جاوید سلطان پوری، ولی حیدر لکھنوی، سرفراز حسین ضیا،ایوب صابر، تنویر احمد تنویر، حکیم اسلم قمر، افتخار راہب اور اقبال احمد قمر نے اپنا کلام پیش کیا۔ تقریب میں امجد بٹ، عابد بھٹی، جہانگیر بٹ، شاہد مقبول، ناصر علی، میاں امتیاز اور حاجی ممتاز حسین نے خصوصی شرکت کر کے محفل کو چار چاند لگا دئیے۔ شعراء کے کلام سے نمونے کے طور پر اشعار قارئین کی نذر:
٭٭
اعجاز الحق:
یار میرے، میرے بارے بدگمانی چھوڑ دے
اِس سے پہلے کہ مجھے یہ زندگانی چھوڑ دے
تیرے احسانوں نے میرا جینا مشکل کر دیا
اُس سے کہہ دو مجھ پہ کرنا مہربانی چھوڑ دے
٭٭
جلال الدین حسامی:
رہنما کون ہے راہبر کون ہے
ڈھونڈ لے اُس کو ایسی نظر کون ہے
یہ بتا ئے کوئی با اثر کون ہے
وادیٔ دہر میں معتبر کون ہے
٭٭
داؤد اسلوبی:
جب تک خیالِ یار کی وہ روشنی نہ تھی
اتنی تو دلفریب کبھی زندگی نہ تھی
تنہائیوں کا کرب تھا ہر گام پہ داؤد
ہر سُو اُداسیاں تھیں، کہیں دلکشی نہ تھی
٭٭
سید منصور شاہ:
بگڑی بنی سو بات ، ارے باپ کیا کروں
جَڑ گئی کمر پہ لات، ارے باپ کیا کروں
کہتے ہیں چاند میرا اُفق پر نہ آئے گا
دکتورِ فلکیات ، ارے باپ کیا کروں
٭٭
مسعود جمال:
وحشت کے سائباں تلے پَل کر جواں ہوئے
بچے ہمارے عہد کے آتش فشاں ہوئے
فصل ِ بہار میں چلی آندھی عجیب سی
حدِ نگاہ تک جو چمن تھے، خزاں ہوئے
٭٭
غزالہ کامرانی:
میری موجِ نفس میں تم ہی تم
زندگی بڑھتی جارہی ہے اب
اتنا سنّاٹا ہے مرے اندر
خامشی بڑھتی جا رہی ہے اب
٭٭
سلیم حسرت:
بیتے ہوئے لمحوں کا سماں ڈھونڈ رہا ہوں
کھویا ہوا بچپن کا زماں ڈھونڈ رہا ہوں
اک خواب حویلی کا لئے گھر سے چلا تھا
اب شہر میں چھوٹا سا مکاں ڈھونڈ رہا ہوں
٭٭
وقار صدیقی:
میں جانتا ہوں یہ روشن جہان میرا ہے
زمیں نہیں ہے مگر آسمان میرا ہے
مرا یہ جسم کسی کا اسیر ہو تو رہے
مرا ضمیر مگر پاسبان میرا ہے
٭٭
جاوید سلطان پوری:
ہم اپنے پاس بھی رکھتے تھے آن بان کبھی
وہ حکم ہوتا تھا، کھلتی تھی جب زبان کبھی
جنہیں سمیٹ دیا وقت کے تقاضوں نے
انہی پروں میں فلک بوس تھی اڑان کبھی
٭٭
سرفراز حسین ضیا:
آئے بچھڑا یاد جب ہر بات پر
پھر کہاں قابو رہے جذبات پر
آنکھ میں بس ہے وہی ٹھہرا ہوا
نیند کو شکوہ رہا ہے رات پر
٭٭ولی حیدر لکھنوی:
حسرت سے یاس سے کبھی نمناک آنکھ سے
در دیکھنا کبھی، کبھی دیوار دیکھنا
یہ بات کُھل کے سامنے آئے گی ایک دن
وہ عشق میں ہے کس کے گرفتار دیکھنا
٭٭
محمد ایوب صابر:
میں نے غربت میں گزارا ہے زمانہ سارا
میں تہی دستوں کے جذبات سمجھ لیتا ہوں
٭٭
حکیم اسلم قمر:
اب تلخیٔ آلام کو دھویا نہیں جاتا
ہر غم کو تبسم میں پرویا نہیں جاتا
اے چارہ گرو تم سے ہی کچھ ہو تو کرو اب
مجھ سے تو مرے حال پہ رویا نہیں جاتا
٭٭
افتخار راہب :
منظر نہ رک سکیں گے یہ سیلابِ چشم میں
تصویر اِن کی دل میں کہیں کھینچ لیجئے
راہب پہنچ چکے ہیں سرِ دار ہم بخیر
قدموں سے اب ہمارے زمیں کھینچ لیجئے
٭٭
اقبال احمد قمر:
عجیب صورتِ حالات میں گھرا ہوا ہے
یہ شہر کیسے مضافات میں گھرا ہوا ہے
نہیں ملے ہیں جوابات آج تک جن کے
بشر کچھ ایسے سوالات میں گھرا ہوا ہے