4ڈھڑوں میں تقسیم رہی تو کراچی کا مستقبل کیا ہو گا، مجھے تو اندھیروں کے سوا اور کچھ سجھائی نہیں دیتا
* * * * صلاح الدین حیدر* * * *
نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے مجبوراً اس موضوع پر قلم اُٹھانا پڑا۔ ایک ایسی جماعت، جس نے 30 سال تک کراچی اور سندھ کے دوسرے شہری علاقوں پہ بلاشرکت غیرے اپنا تسلط قائم رکھا۔ اُس نے کام کیا، نہیں کیا، اچھا کیا، بُرا وہ علیحدہ بحث ہے۔ مخالفین اُسے ہر طرح کے نام سے پکارتے ہیں۔کوئی دہشت گرد کہتا ہے، کوئی قاتل، کوئی بھتہ خور، گویا جتنے منہ اُتنی باتیں،لیکن جو لوگ ایم کیو ایم کو جانتے ہیں، وہ صرف ایک ہی رائے رکھتے ہیں کہ اس کے بانی اور اُن کے ساتھیوں عظیم احمد طارق، ڈاکٹر عمران فاروق (دونوں ہی اب مرحومین ہوگئے)، ڈاکٹر فاروق ستار وغیرہ نے کراچی اور سندھ کی سیاست میں ایک انقلاب برپا کردیا تھا۔ 1986 میں یہ ظہور پذیر ہوئی، وہ بھی انتہائی غیر معمولی حالات میں۔ اس کے وجود کا سہرا تو کالج اور یونیورسٹی سے نکلے ہوئے یا فارغ التحصیل نوجوانوں کے سر ہے۔
یہ لوگ پائی پائی کیلئے سڑکوں پر بھیک مانگتے پھرتے تھے اور اس سے سابق مشرقی پاکستان سے لٹے لٹائے آئے مہاجرین کی دادرسی کرتے تھے، جو ہند سے 1947 میں ہجرت کرکے ملک کے اُس حصّے میں رہائش پذیر ہوئے اور اُسے اپنا وطن بنایا۔ اُنہیں بنگالی قومیت کی تحریک کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے اور وہ کراچی ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے لیکن اُن میں سے کسی نے بھی حکومت سے ملازمت کی بھیک نہیں مانگی، اپنا چھوٹا موٹا کاروبار شروع کیا۔ ایک بالکل پس ماندہ اور انجان علاقے اورنگی ٹائون میں، جو 1970 کے اوائل میں محض جنگل ہی کہلایا جاسکتا تھا، چوڑیاں یا ساڑھیاں بنانے کا کام شروع کیا۔
اپنی روزی خود سے کمائی اور ایک ایسے علاقے جہاں کوئی جانا پسند نہیں کرتا تھا، سڑکیں ٹوٹی بلکہ ناپید، پانی سرے سے غائب، بجلی کا نام و نشان دُور دُور تک نہیں، پھر بھی وہ لوگ عالی ہمتی کی مثال قائم کرتے ہوئے وہاں آباد ہوئے، دُکھ اور مصائب کا سامنا کیا، لیکن اُسے جنت بنا کر چھوڑا۔ آج وہ علاقہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ سڑکیں ہیں، پانی، بجلی ہے، نئے اسٹائل کے گھر بنے ہوئے ہیں۔ اسکول، اسپتال، ڈسپنسریاں، پولیس اسٹیشن سب ہی قائم ہوچکے ہیں۔ تبدیلی انسانی کاوشوں سے آتی ہے جو اُنہوں نے لاکر دِکھادی۔ بانیٔ متحدہ کراچی یونیورسٹی سے نکالے ہوئے، ایک طلباء تنظیم کے دھتکارے ہوئے تھے، جس نے اُنہیں مار بھگایا تھا۔ قصور صرف یہ تھا کہ اُنہوں نے بھی مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی بنیاد ڈالی تھی تاکہ ایک محروم طبقے کی دادرسی ہوسکے۔
بہرحال بانیٔ متحدہ، ڈاکٹر عمران فاروق، ڈاکٹر عشرت العباد، عظیم طارق نے ہمت نہیں ہاری اور اُن مہاجرین کو ایک ایک پیالہ چاول، دال، آٹا پہنچانا شروع کیا۔ یہ انسانیت کی اعلیٰ ترین مثال تھی۔ مستقبل کا مؤرخ اس پر ضرور روشنی ڈالیگا۔ بات آگے بڑھی، ان کے عزائم نے بھی نیا رنگ اپنایا۔ آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس کی بنیاد ڈالی گئی جو 1984 میں مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے اُبھری اور 1986 میں کراچی کے نشتر پارک میں موسلادھار بارش کے دوران ایک لاکھ کا مجمع کر ڈالا۔ شدید بارش کے باوجود کوئی ایک شخص عورت، مرد، بچے، بوڑھے اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ ظاہر تھا دُور اندھیروں نے بخوبی اندازہ لگالیا تھا کہ بفضل تعالیٰ کراچی کی قسمت بدلنے والی ہے۔ اندازہ صحیح ثابت ہوا اور 1987 کے میونسپل الیکشن میں ایم کیو ایم نے پوری طرح اپنا سکّہ جما کر دِکھا دیا۔ کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص، نواب شاہ، سکھر اور دوسرے علاقوں میں اسکے میئر اور میونسپل کونسلرز کا راج قائم ہوگیا اور پھر 1988 سے لیکر 2013 کے انتخابات تک ایم کیو ایم (جو بعد میں متحدہ قومی موومنٹ کے نام سے مشہور ہوئی) سیاسی میدان پر چھا گئی لیکن اِس وقت وہ ایک کرب میں مبتلا ہے۔
ایک ایسی پارٹی جس نے اصول اور اتحاد کی اعلیٰ ترین مثال قائم کی تھی، آج دھڑے بندیوں میں بٹ گئی ہے۔ پارٹی کے بانی لندن میں اپنے گنے چنے ساتھیوں کے ساتھ دوبارہ تنظیم کو بحال کرنے میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف ڈاکٹر فاروق ستار، نسرین جلیل، خالد مقبول صدیقی، عامر خان وغیرہ نے ایم کیو ایم پاکستان بناکر ایک نئی پارٹی کی بنیاد ڈالی اور بانیٔ متحدہ کی متنازع تقریر کے بعد اُن سے تمام رشتے ختم کردیے، لیکن اُس سے پہلے کراچی کے سابق ناظم مصطفیٰ کمال، اپنے کچھ اور ساتھیوں کے ساتھ ایک نیا دھڑا بنا چکے تھے۔ گو مصطفیٰ کمال کے ساتھ کئی زبردست ہستیاں جیسے ڈاکٹر صغیر، وسیم آفتاب، رضا ہارون، انیس ایڈوکیٹ، انیس قائم خانی موجود ہیں لیکن ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی وہ انتخابی سیاست میں شرکت کرنے سے گریزاں ہیں۔
اُن کے نزدیک شاید بہت کچھ کرنا باقی ہے تاکہ وہ ایک نیا انقلاب لاسکیں، لیکن مصطفیٰ کمال کراچی اور اُس کے حقوق کے بارے میں دھڑلے سے بولتے ہیں اور وزیراعلیٰ سندھ کو ایک نہیں کئی بار للکار چکے ہیں کہ ہم کراچی کو یتیم نہیں چھوڑ سکتے، نہ ہی اسے برباد ہونے دیں گے۔ وسیم اختر کراچی کے میئر منتخب ہوگئے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ پیپلز پارٹی (جو سندھ میں برسوں سے برسراقتدار ہے) اُنہیں اختیارات دینے پر راضی نہیں۔ ظاہر ہے کراچی میں ترقیاتی کام قریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایک ایسا شہر جو پورے پاکستان کے بجٹ میں 67 فیصد اور سندھ کے بجٹ میں 97 فیصد پیسے ڈالتا ہے، آج یتیمی کی حسرت بھری تصویر بنا ہوا ہے۔ سندھ کی کابینہ میں ایک بھی اُردو اسپیکنگ وزیر نہیں، سول اور پولیس سروس میں اُردو بولنے والے (جنہیں پاکستانی آئین کے تحت 40 فیصد کوٹا ملنا چاہیے) آٹے میں نمک کے برابر ہیں، پیپلز پارٹی سندھ میں صوبائیت پھیلانے میں مصروف ہے، کاش وہ اس کے نتائج سے بھی باخبر ہوتی لیکن میں پھر بھی ایک بات ضرور کہوں گا کہ ایم کیو ایم، جس نے کراچی کا نقشہ تبدیل کرنے میں بڑا کردار ادا کیا، آج خود ہی اپنے اصولوں کو بھول جانے کی وجہ سے تنزلی کا شکار ہے۔ 1990 کے بعد ایم کیو ایم کے بعض رہنماؤں نے رشوت اور پیسہ سمیٹنے کو اپنا فرض اوّلین بنا لیا تھا۔ ظاہر ہے اُس کا نتیجہ بھی بھگتنا پڑا۔
کوئی اسے جھٹلا سکتا ہے تو جھٹلائے، لیکن حقائق اپنی جگہ موجود ہیں۔ میں کسی کا نام لینا نہیں چاہتا، لیکن کئی ایسے لوگ جو ایم کیو ایم میں ٹوٹی پھوٹی چپل پہنے ہوئے شامل ہوئے، آج کروڑ پتی بلکہ ارب پتی ہیں، اتنی دولت کہاں سے آئی؟ اس کا جواب اُن کو دینا پڑے گا۔ اگر اردو بولنے والوں کا نام ایم کیو ایم نے فخر سے بلند کردیا تھا تو وہی اُن کی بدنامی کا باعث بھی بنی۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے اور میں اسے دعوے سے دہراتا ہوں، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ایم کیو ایم اسی طرح3 بلکہ 4دھڑوں میں تقسیم رہی تو اس کا اور کراچی کا مستقبل کیا ہوگا؟ مجھے تو اندھیروں کے علاوہ اور کچھ سُجھائی نہیں دیتا، لیکن اُمید کی کرن ہمیشہ ہی روشن رہتی ہے، سو رہے گی۔ ہجرت کرنے والی قومیں کبھی شکست نہیں کھاسکتیں۔تاریخ اس کی گواہ ہے، تو پھر اردو بولنے والوں پر سخت وقت ضرور آسکتا ہے، لیکن اُن کی ہمتیں جوان ہیں، عزم سے بھرپور، اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک، وہ کیسے ہتھیار ڈال سکتے ہیں لیکن دعا ضرور ہے کہ جتنی جلدی ہوسکے، ایم کیو ایم کے دھڑوں کو احساس ہوجائے کہ اُنہیں ایک ہوکر اپنے مفادات کی جنگ لڑنی ہے، غلامی کی زندگی منظور نہیں۔ ہمیں مقامی آبادی یا کسی اور سے کوئی اختلاف نہیں، لیکن خود کو مہاجر کہلانے پر فخر کرنا ہمارا حق ہے۔ ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کو چاہیے کہ بغیر کسی تاخیر کے ایک ہوجائیں اور کراچی میں ایک بار پھر اپنا سکّہ جمائیں۔ اسی میں اُن کی عافیت ہے اور اسی میں کراچی کی سربلندی۔ شہرِ قائد ملکی تاریخ میں اپنا وہی کردار ادا کرنا چاہتا ہے جو اس نے شروع سے ادا کیا ہے۔