امریکی صدارتی انتخابات کے ابتدائی پرائمری مقابلے کا انعقاد 3مئی کو رات 8بجکر30منٹ پر ریاست انڈیاناکے شہر انڈیانا پولس میں منعقد ہوا۔ ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے سینیٹر ٹیڈکروز انتہائی خوبصورت کمانیوں والا قیمتی چشمہ لگا کر شہر کے یونین اسٹیشن میں منعقد ہونے والی اس تقریب میں موجود تھے۔جس جگہ لوگوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا وہ کثیر المقاصد لگ رہا تھا۔ اس پر کسی ہوٹل اور پریس گیلری دونوں کا گمان ہورہا تھا۔ یہ اجتماع ایک گھنٹہ قبل ری پبلکن کے صدارتی امیدار کیلئے بلایا گیا تھامگر مقصد کیا تھا ۔
آخر کار جب ٹرمپ نمودار ہوئے تو سینیٹر کروز نے یوں کہتے ہوئے ان کا استقبال کیا کہ ”خدا اس ریاست پر اپنی رحمتیں نازل کرے“ان کے ارد گرد متعدد امریکی قومی پرچم لہرا رہے تھے جبکہ حاضرین میں ان کی فیملی کے ارکان اور وہ ساتھی بھی موجود تھے جو اس انتخابی مہم کے دوران گزشتہ ساڑھے چھ دنوں سے انکے ساتھ تھے۔ تقریب کا آغاز کارلی فیورینا نے اپنی دلفریب مسکراہٹ سے کیا۔یہ مسکراہٹ جتنی بھی دلفریب نظر آرہی ہوں بڑی جبری ، اغوا شدہ ، غیرحقیقی نظر آرہی تھی۔ سینیٹر کروز نے پیچھے پلٹ کر دیکھا ان کی نظر یہ جاننا چاہتی تھی کہ آخر اس اجتماع کی غرض و غایت کیا ہے؟ کیونکہ انڈیانا کی اس پرائمری میں پوری ری پبلکن پارٹی کا مستقبل داو¿ پر لگا ہواتھا۔ کروز کے چہرے سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ ٹرمپ پر ری پبلکن پارٹی کی گرفت ڈھیلی پڑتی جارہی ہے اور پھر ووٹنگ شروع ہونے سے پہلے سینیٹر کروز نے کہا کہ ”ہم آج ایک پہاڑی کے انتہائی آخری کنارے پر پہنچ چکے ہیں“۔ اور جب وہ یہ جملہ ادا کررہے تھے تو انہوں نے نیچے کی طرف دیکھنا بھی ضروری سمجھا ان کاطرز عمل زوال کی نشاندہی کررہا تھا۔
مگر تھوڑی دیر بعد کروز اس پہاڑی کے آخری کنارے پر چڑھ چکے تھے ۔ ٹرمپ کو ری پبلکن کے صدارتی امیدواری سے دور رکھنے کی آخری کوشش بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکی اور نامزدگی کا یہ مقابلہ ٹرمپ نے 36کے مقابلے میں 53ووٹوں سے جیت لیا مگر کروز اب بھی یہ سوچ رہے تھے کہ ٹرمپ کو ووٹ دینے والے افراد کیا واقعی سنجیدہ ہیں لیکن ”ٹرمپ“کے امکانی دور صدارت میں یا اس حوالے سے کسی سنجیدگی کی توقع ہی بیکار ہے۔تاہم سردست یہ بات طے ہے کہ مسقبل قریب یابعید میں جو بھی ”سائبرکا مکس“ تیار ہونگی ان میں کسی نہ کسی دن ایوانِ شہرت کے انتخابی ادارے میں داخل ہونے والے پہلے ”ووٹر“یا رائے دہندگان کے طور پر پیش کئے جائینگے ۔انڈیانا کے اس آخری ری پبلکن اجتماع میں اپنے انتخاب کے بعد جو ٹرمپ نے فاتحانہ تقریر کی اس نے سننے والوں میں سینیٹر کروز بھی شامل تھے اور تقریباً اونگھی کے عالم میں پہنچ چکے تھے کہ اچانک ٹرمپ نے ان کے کان میں ایک براہ راست بم دھماکہ یہ کرتے ہوئے کہا کہ سابق صدر جان ایف کنیڈی کے قتل سے ذرا پہلے سینیٹر کروز کے والد لی ہاروے اوسوالڈ کے ساتھ گھومتے پھرتے رہتے تھے، انکا یہ جملہ نیشنل انکوائررکی اس بے بنیاد اور مضحکہ خیز خبر کے حوالے سے تھا۔ سینیٹر کروز کے والد کے بارے میں ایسی بے سروپا باتیں کرنے کے بعد ٹرمپ کو حالات کی نزاکت کا احساس ہوا تاہم انہوں نے اپنی ہرزہ سرائی جاری رکھی اور یہ سوال اٹھا یا کہ آخر سینیٹر کروز کے والد آسوالڈ کے ساتھ کیا کرتے پھرتے تھے؟ ٹرمپ نے جو بکواس کی وہ ایک ہولناک اور خطرناک مسئلہ ہے۔ امریکی سیاست اس سے پہلے کبھی اتنی گندی اور خراب نہیں رہی ہے جس میں کسی امیدوار نے شیطان کا انداز اختیار کرلیا ہو جسے شیطان کے دوسرے جنم سے تعبیر کیا جاسکتا ہو۔ٹرمپ نے سینیٹر کروز کو بھی نہیں بخشا اور انہیں ایک صدر کے قاتل کا بیٹا تک کہہ دیا اور کہا کہ سینیٹر کروز خود بھی ایک سیریل کلر ہے۔
ٹرمپ کی اس ہرزہ سرائی پر میڈیا نے ٹرمپ کو خوب لتھاڑا اور ری پبلکن امیدوار کے خلاف سخت تبصرے کئے جبکہ کروز نے چراغ پا ہونے سے گریز کیا اور بڑے صبر و تحمل سے فیصلے کو سراہا پھر یہ کہا کہ چند دن قبل میں انہیں 4سال اور 6سال کی عمر کے 2بچے ملے تھے جنہوں نے انہیں دولفافے دئیے جن میں پیسے تھے جو انہوں نے لیموں کا شربت فروخت کرکے جمع کئے تھے اور کہا تھا کہ یہ رقم پارٹی فنڈ میں دے دی جائے۔ انتا سننے کے بعد ہجوم نے اچھا خاصا شور مچادیا کچھ دیر بعد کروز اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ بڑی تیزی سے یہ کہتے ہوئے اسٹیج سے اترگئے کہ پارٹی کی فتح کا راستہ ابھی سے بند ہوگیا۔ کروز کے حامی صورتحال سے کافی مایوس ہوگئے تھے اور انہوں نے جذباتی ہوکر چیخنے چلاتے اور ایک دوسرے سے روتے دھوتے بغلگیر ہوتے رہے ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب وہ کہاں جائیں اور کیا کریں مگر کروز کا یہ طرز عمل ری پبلکن پارٹی اور اس کی انتظامیہ کے لئے انتہائی خراب اور تباہ کن تھا۔نکسن، ریگن اور دونوں بشوں کی ری پبلکن پارٹی کے لئے ضروری تھا کہ وہ کروز کو کامیاب بناتی اور انہیں پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدار نامزد کرتی مگر پارٹی کے بعض ممتاز حلقے اور رہنماو¿ں کو اپنی بہتری(جوشاید کبھی ممکن نہ ہو) ٹرمپ کی کامیابی کی صورت میں نظر آرہی تھی۔
ٹرمپ نے یہ رات نیویارک کے ٹرمپ ٹاور سے کی گئی اپنی تعریف و توصیف کے پیغامات سننے میں گزاری۔ نواڈاکی طرح دوسری ریاستوں میں ٹرمپ بھاری تعداد میں پرائمریز جیتتے رہے۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ نائن الیون کے واقع کے بعد ایسا لگ رہا تھا کہ ری پبلکن پارٹی ہی آئندہ ہزارسال تک امریکہ پر حکمراں رہے گی۔ ایک سال قبل تک یہ ایک قومی پارٹی کے طور پر ابھررہی تھی سینیٹ کی 13نشستیں، ایوان نمائندگان کی69نشستیں اور 11ریاستوں کی گورنری اس کے پاس تھیں ۔ صدر اوباما کے دور میں بھی ریاستی لیجسلیٹو اسمبلی کی 913نشستیں ری پبلکن کے پاس رہیں۔ اب یہ پارٹی 2حصے میں بٹ چکی ہے۔ ایک کی قیادت ٹرمپ کررہے ہیں مگر لوگوں کادل ٹرمپ کے ساتھ نہیں اور امریکہ کا مستقبل بھی ٹرمپ کے ہاتھ نہیں آسکتا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہوگا۔؟