ابہا - - - - -الجزیرہ چینل کی نشریات اور سوشل میڈیا نے یمن فوج نہ بھیجنے کا قطری معاہدہ جھٹلا دیا۔قطر میں ایک طرف تو حکام یمن فوج نہ بھیجنے کے دعوے مسلسل دہرا رہے ہیں ۔ دوسری جانب سوشل میڈیا اور الجزیرہ چینل کی 80گھنٹے سے زیادہ کی پرانی نشریات قطری حکام کے اس دعویٰ کی نفی کر رہی ہیں ۔ علاوہ ازیں سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، مصر اور لیبیا کے سیکیورٹی اداروں نے بھی قطری حکام کی دروغ بیانیوں کیخلاف بے شمار دلائل کا انبار لگا دیا ہے ۔ تفصیلات کے مطابق قطر کے وزیر مملکت برائے امور دفاع خالد العطیہ نے ماہِ رواں کے شروع میں الجزیرہ چینل پر انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ یہ دعویٰ کیا کہ قطری فوج یمن نہیں بھیجی گئی ۔ قطر جنوبی سرحدوں پر سعودی افواج کے 7ٹھکانوں پر تعینات تھیں۔مأرب ان میں شامل نہیں تھا اور وہ سعودی افواج کی حفاظت پر مامور تھیں ۔ وزیر مذکور2برس قبل 6ستمبر 2015ء کو خود الجزیرہ چینل پر یہ اعلان کر چکے تھے کہ قطری فوج مأرب میں داخل ہو چکی ہے ۔ اس موقع پر الجزیرہ چینل نے مأرب میں موجود اپنے رپورٹر عبدالمحصی سے براہِ راست رپورٹ بھی نشر کی تھی ۔رپورٹر سے دریافت کیا گیا تھا کہ مأرب پہنچنے والی افواج کے بارے میں تفصیلات سے ناظرین کو آگاہ کیا جائے ۔ رپورٹر نے بتایاتھا کہ ایک ہزار سے زیادہ قطری فوجی بھاری اور درمیانی درجے کے ہتھیاروں سے لیس یہاں موجود ہیں ۔ ترقی یافتہ میزائل اورراکٹ لانچر بھی یہاں ہیں ۔ 200بکتر بند گاڑیاں اور ترقی یافتہ کمیونیکیشن سسٹم سے بھی آراستہ ہیں ۔ قطری فوج الودیعہ بری سرحدکے راستے یمن میں داخل ہوئی اور مأرب کا رخ کر رہی ہے ۔ امارات کے سیاسی تجزیہ نگار ضرار الفلاسی نے الوطن اخبار کو بتایا کہ قطری وزیر کا بیان تضادات کا حصہ ہے ۔ امارات کے پاس ان کے بیانات کیخلاف شواہد موجود ہیں ۔ مناسب وقت پر سامنے لائے جائیں گے ۔ الوطن اخبار نے اس حوالے سے قطری عہدیداروں کے جھوٹے دعوئوں کے خلاف الجزیرہ کی نشریات اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے قطری شہریوں کے بیانات 6اگست 2017ء کے شمارے میں تفصیل سے شائع کئے ہیں ۔