جب بھی مصیبتیں اور تکالیف پیش آتیں تو رسول کی تسلی اورقلب مبارک کو مضبوط کرنے کے لئے آیات کریمہ نازل کی جاتیں
* * * شیخ محمد علی صابونی* * *
قارئین کرام کی خدمت میںشیخ محمد علی صابونی کی کتاب’’التبیان فی علوم القرآن‘‘ کا ترجمہ پیش ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت محمدیہؐ پر اپنی معجز ( آسمانی کتابوں میں سے سب سے آخری) کتاب نازل کرکے اسے عزت بخشی، تاکہ یہ اس کے لئے دستور ِحیات، اس کے مسائل کا حل، اس کی بیماریوں اور امراض کے لئے شفا بخش مرہم اور اس امت کو مقدس ترین پیغامات الٰہی کے تحمل کے لئے چننے اور منتخب کرنے پر عظمت اورافتخار کی علامت ہوجہاں اللہ تعالیٰ نے سب سے افضل کتاب نازل کرکے ان کو عزت بخشی اور مخلوقات میں سے سب سے معزز ہستی محمد ابن عبداللہ( ) کے ساتھ انہیں وابستہ کرکے ممتاز مقام عطا کیا۔ قرآن کے نزول کے ساتھ ہی پیغامات ِسماویہ کی لڑی مکمل ہوئی اوراس نور نے پوری کائنات پرضو افشانی کی، عالم پر اس کی روشنی چمک اٹھی اور اللہ کی ہدایت مخلوق تک جاپہنچی اور یہ نزول امین السماء جبرئیل علیہ السلام کے واسطے سے ہوا، جو اسے لے کر آپ کے قلب مبارک پر اترتے تاکہ آپ علیہ السلام کو پیغام ربانی پہنچا دیں اور اسی کے متعلق اللہ جل جلالہ کا فرمان ہے: اس کو امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے آپ کے قلب پر صاف عربی زبان میں تاکہ آپ (بھی) منجملہ ڈرانے والوں کے ہوں۔ نزولِ قرآن کی کیفیت: قرآن کریم کے 2نزول ہیں :
٭ لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف( یکبارگی) شب قدر میں نازل ہونا۔
٭ آسمان دنیا سے زمین کی طرف 23 سال کے عرصہ میں ( کچھ کچھ) بتدریج نازل ہونا۔
پہلا نزول:پہلی مرتبہ اس کا نزول زمانہ کی تمام راتوں میں سب سے مبارک رات میں ہوا (جسے شبِ قدر کہا جاتا ہے)۔ اس رات میں پورا قرآن آسمانِ دنیا میں (بیت العزۃ) کی طرف نازل کیا گیا جس پر مندرجہ ذیل متعدد نصوص قرآنیہ دلالت کرتے ہیں۔ اللہ کا ارشادہے:
٭ اور قسم ہے اس واضح کتاب کی کہ ہم نے اس کو ( لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر) ایک برکت والی رات (یعنی شب قدر) میں اتارا ہے، ہم آگاہ کرنے والے تھے(الدخان3-1)۔
٭ بے شک ہم نے قرآن کو شب قدر میں اتارا ہے( شوق بڑھانے کیلئے فرمایا) اور آپ کو کچھ معلوم ہے کہ شب قدر کیسی چیز ہے؟(القدر1,2)۔ سورۃ البقرہ ،آیت185میں اللہ تعالیٰ کا قول ہے: ’’ماہ رمضان ہے جس میں قرآن مجید بھیجا گیا ہے جس کا (ایک) وصف یہ ہے کہ لوگوں کے لئے ( ذریعۂ) ہدایت ہے اور (دوسرا وصف) واضح الدلالت ہے منجملہ اُن کتب کے جو کہ (ذریعہ) ہدایت ( بھی) ہیں ، اور ( حق وباطل میں) فیصلہ کرنے والی ( بھی) ہیں۔‘‘ یہ تینوں آیات دلالت کرتی ہیں کہ قرآن ایک ہی رات میں نازل ہوا جسے’’ مبارک‘‘ سے متصف کیا جاتا ہے اور جسے شب قدر کہا جاتا ہے اور یہ ماہِ رمضان کی راتوں میں سے ایک رات ہے اور اس کا نزول اول ہونا متعین ہو جاتا ہے جو آسمانِ دنیا میں موجود بیت العزۃکی طرف ہوا، کیونکہ اگر اس سے نزولِ ثانی جو کہ آپ علیہ السلام پر ہو ا مراد ہو تو یہ نزول ایک ہی رات اور ایک ہی ماہ میں جو کہ ماہ رمضان ہے ہونا ٹھیک نہیں ہو گا کیونکہ (آپ پر)قرآن ایک طویل عرصہ میں نازل ہوا اور وہ بعثت نبوی کی23سالہ مدت ہے نیز رمضان کے علاوہ بھی بلکہ تمام مہینوں میں نازل ہوا، تو ثابت ہو گیا کہ اس سے مراد نزولِ اولیٰ ہے اور احادیث صحیحہ (بھی) اس کی تائید کرتی ہیں، مثلاً: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے 3احادیث مروی ہیں، انہوں نے فرمایا: « قرآن کو ذکر ( لوح محفوظ) سے علیحدہ کرکے آسمانِ دنیا میں موجود بیت العزۃ میں رکھا گیا چنانچہ جبرئیل امین اسے نبی اکرم پر نازل کرتے رہے(الحاکم)۔
« قرآن کو یکبار گی آسمان دنیا کی طرف نازل کیا گیا اور وہ نزولِ آیات کے وقوع کے زمانوں کے ساتھ ملا ہوا تھا اور اللہ اسے اپنے رسول() پرتھوڑا تھوڑا کرکے نازل کرتے رہے( الحاکم والبیھقی)۔ « قرآن کو ماہِ رمضان میں شب قدر میں یکبارگی آسمانِ دنیا کی طرف نازل کیا گیا، پھر بتدریج اس کا نزول ہوا۔‘‘(الطبرانی)۔ ان تینوں روایتوں کو علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’اَلِاتقان فی علوم القرآن‘‘ میں ذکر کیا ہے او رکہا ہے کہ یہ تمام صحیح روایات ہیں۔ اسی طرح علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ عطیہ بن اسود نے اْن سے سوال کیا او رکہا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد:شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن اور اس کے فرمان انا انرلنٰہ فی لیلۃ القدر نے میرے دل میں شک ڈال دیا ہے اس لئے کہ قرآن تو شوال، ذی القعدہ، ذی الحجہ، محرم، صفر، ربیع الاول کے مہینوں میں ( بھی) نازل کیا گیا ہے توحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’’اسے رمضان المبارک میں شبِ قدر میں یکبارگی نازل کیا گیا، پھر اسے قسطوں میں (مختلف مواقع میں) آرام آرام سے دنوں اور مہینوں میں نازل کیا گیا۔‘‘
حدیث مبارکہ کے عربی متن میں ’’مواقع النجوم‘‘ اور ’’رسلاً ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ: اسے متفرق طور پر تھوڑا تھوڑا کرکے اتارا گیا۔بعض حصہ بعض کے بعد آیا آہستگی اورآرام کے ساتھ۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ : ’’علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے قرآن کے لوح محفوظ سے بیت العزۃ کی طرف ( جو آسمان دنیا میں ہے ) مکمل نازل ہونے پر علما کا اجماع نقل کیا ہے۔قرآن کریم کے اس نزول کی حکمت شاید قرآن اور جس ہستی پر قرآن نازل ہوا ہے اس کی عظمت شان کو واضح کرنا مقصود ہے کہ ساتوں آسمانوں کے باسیوں کو یہ بتائے کہ: یہ آخری کتاب ہے جو آخری نبی پر بہترین امت کے لئے ہم نے اسے ان کے قریب کر لیا ہے تاکہ ہم اس کتاب کو ان پر نازل کریں۔‘‘ علامہ سیوطی رحمہ اللہ ایک اور جگہ فرماتے ہیں: ’’ اگر حکمتِ الہٰیہ اس کتاب کے لوگوں تک تھوڑا تھوڑا کرکے احوالِ حوادث کے مطابق پہنچنے کا تقاضا نہ کرتی تو اسے پہلے نازل کی گئی کتابوں کی طرح ایک ہی مرتبہ اتار دیا جاتا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے اور پہلی کتب سماویہ کے درمیان فرق کر دیا اور اس کے نزول کو 2حصوں میں تقسیم کر دیا۔ کامل نزول،پھر منزل علیہ ( محمد ) کے اعزازواکرام کی بناء پر متفرق طور پر نزول۔‘‘(الاتقان)۔ < دوسرا نزول:دوسری مرتبہ اس کا نزول آسمان دنیا سے نبی کریم کے قلب مبارک پر23 سال کے عرصہ میں تھوڑا تھوڑا کرکے ہوا اور یہ مدت بعثت نبویہ سے لے کر آپ کی وفات تک ہے اور اس نزول اور اس کے متفرق طور پر نازل ہونے پر دلیل سورۂ اسراء میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: O اور قرآن میں ہم نے جابجا فصل رکھا، تاکہ آپ اس کو لوگوں کے سامنے ٹھہر ٹھہر کرپڑھیں اور ہم نے اس کو تدریجاً اتارا۔ O اور کافر لوگ یوں کہتے ہیں کہ ان ( پیغمبر) پر یہ قرآن یکبارگی کیوں نہیں نازل کیا گیا، (جواب یہ ہے کہ) اس طرح (تدریجاً) اسلئے ( ہم نے نازل کیا) ہے تاکہ ہم اسکے ذریعے سے آپ() کے دل کو قوی رکھیں اور ( اسی لئے) ہم نے اس کو بہت ٹھہر ٹھہر کر اْتارا ہے۔
روایت میں آتا ہے کہ یہود اور مشرکین نے قرآن کے متفرق طور پر نازل ہونے کی وجہ سے آپ علیہ ا لسلام کا مذاق اڑایا اور مطالبہ کیا کہ ایک ہی مرتبہ پورا نازل کیا جائے، (یہاں تک کہ) یہود نے آپ علیہ السلام سے کہا: اے ابوالقاسم ! اس قرآن کو ایک ہی مرتبہ کیوں نازل نہیں کیا گیا جیسا کہ موسیٰ ( علیہ السلام) پر تورات کو نازل کیا گیا؟ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب اور رَد میں درج بالا2 آیتیں نازل کیں اور یہ رد امام رزقانی رحمہ اللہ کے قول کے مطابق 2امور پر دلالت کرتا ہے! اس سے پہلے کتب سماویہ پوری کی پوری یکبارگی نازل کی گئیں جیسا کہ جمہور علما کے درمیان اجماع کی حدتک مشہورومعروف ہے۔ اِن 2 امور پر دلالت کا مطلب یہ ہے کہ : ’’ اللہ تعالیٰ نے کتب سماویہ کے ایک ہی مرتبہ پورے نازل ہونے کے اس دعوے میں ان کی تکذیب نہیں کی، بلکہ انہیں قرآن کے متفرق طور پر نازل ہونے کی حکمت کے بیان کے ساتھ جواب دیا اور اگر آسمانی صیحفوں کا نزول متفرق طور پر ہوتا جیسا کہ قرآن کا ہوا تو اللہ تعالیٰ جواب میں ان کی تکذیب فرماتے اور اعلان کرتے کہ ٹکڑے ٹکڑے کرکے نازل کرنا اللہ کی پہلے انبیاء پر نازل کیے گئے صحیفوں میں (بھی عادت رہی ہے) جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر رد کیا جب انہوں نے آپ علیہ السلام پر طنز اور اعتراض کیا اور کہا (اس رسول کو کیا ہوا کہ وہ ( ہماری طرح) کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے؟) تو اللہ نے انہیں جواب میں فرمایا: اور ہم نے آپ() سے پہلے جتنے پیغمبر بھیجے سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے۔‘‘(مناھل العرفان)۔ قرآن کریم کے قسط وار نازل کرنے کی حکمت: قرآن کریم کے قسط وار نازل ہونے کی بڑی بڑی حکمتیں اور متعدد سر بستہ راز ہیں، جنہیں اہل علم جانتے ہیں اور اہل جہل ان سے نابلد ہیں اور ہم ان کا خلاصہ اور نچوڑ درج ذیل الفاظ میں کرسکتے ہیں، اور وہ حکمتیں یہ ہیں: « مشرکین کی تکالیف کے سامنے آپ کے قلب مبارک کو مضبوط کرنا اور اطمینان دلانا۔
« وحی کے نزول کے وقت نبی کریم کے ساتھ مہربانی اورنرمی برتنا۔ « احکامِ سماویہ کی قانون سازی میں بتدریج آگے بڑھنا۔
« قرآن کریم کے یاد کرنے اور سمجھنے کو مسلمانوں پر آسان کرنا۔
« حادثات وواقعات کے ساتھ چلنا اور ان کے اوقات ہی میں ان پر متنبہ اور آگاہ کرنا۔
« قرآن کریم کے سر چشمہ اور اس کے حکیم اور قابل ستائش ہستی کی طرف سے نازل ہونے کو بتانا۔ اور
آئیے! ہم اُن چند حکمتوں کی جن کاہم نے ابھی خلاصہ ذکر کیا ہے تفصیل بیان کرتے ہیں۔ پس ہم کہتے ہیں اور اللہ ہی سے ہم مدد طلب کرتے ہیں: ¤ پہلی حکمت( آپ کے قلب مبارک کو مضبوط کرنا):
آیت کریمہ میں مشرکین کے رد کے ذیل میں اس حکمت کو بیان کیا گیا ہے جب انہوں نے قرآن کے ایک ہی بارپورا نازل ہونے کا مطالبہ کیا جیسا کہ گزشتہ آسمانی کتابیں نازل کی گئی تھیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کا جواب دیا اور فرمایا: کذلک نثبت بہ فوادک ورتلناہ ترتیلا۔ اور نبی کریم کے دل کو مضبوط کرنا اللہ کی طرف سے خصوصی حمایت وتوجہ اور آپ کے دشمنوں کے آپ کو جھٹلانے اور آپ علیہ السلام اور آپ کے ماننے والوں کو سخت تکلیف دینے والوں کے سامنے ، اپنے پیغمبر کی تائید تھی۔ جب بھی مصیبتیں اور تکالیف پیش آتیں تو آپ کی تسلی، دعوت کے راستے میں آگے بڑھنے میں آپ کی ہمت کو ابھارنے اور آپ کے قلب مبارک کو مضبوط کرنے کے لئے آیات کریمہ نازل کی جاتیں۔
لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اْس چیز کے ذریعے آپ کی نگرانی اور حفاظت فرمائی، جو آپ کے مصائب اور دکھوں کوہلکا کرے، چنانچہ جب بھی تکلیف آپ پر سخت ہو جاتی تو آیات آپ علیہ السلام کی تسلی اور جو (غم) آپ کو لاحق ہوتا اس کو ہلکا کرنے کے لئے آیتیں نازل ہو جاتیں،اور یہ تسلی کبھی رسولوں اور نبیوں کے واقعات کو ذکر کرکے دی جاتی تاکہ آپ ان کے صبر اور مجاہدے میں ان کی پیروی کریں،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: « اور بہت سے پیغمبر جو آپ() سے پہلے ہوئے ہیں ، ان کی بھی تکذیب کی جاچکی ہے سو انہوں نے صبر کیا، ان کی تکذیب کی گئی اور ان کو ایذائیں پہنچائی گئیں یہاں تک کہ ہماری امداد ان کو پہنچی۔
« تو آپ() صبر کیجئے جیسے ہمت والے پیغمبروں نے کیا۔ « اور آپ() اپنے رب کی تجویز پر صبر سے بیٹھے رہئے کہ آپ() ہمار ی حفاظت میں ہیں۔‘‘ باری تعالیٰ نے انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات کو بیان کرنے کی حکمت بیان فرمائی ہے، چنانچہ ارشاد پاک ہے:اور وہ کہنے والوں میں سب سے سچے ہیں۔ ’’ اور پیغمبروں کے قصوں میں سے ہم یہ سارے قصے آپ() سے بیان کرتے ہیں جن کے ذریعے سے ہم آپ() کے دل کو تقویت دیتے ہیں اور ان قصوں میں آپ ()کے پاس ایسا مضمون پہنچا ہے جو خود بھی راست ہے اور مسلمانوں کے لئے نصیحت ہے اور یاددہانی ہے۔‘‘ تسلی کبھی مدد کے وعدہ اور نبی کریم کی تائید سے دی گئی، جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے:
« اور اللہ آپ() کو ایسا غلبہ دے گا جس میں عزت ہی عزت ہے۔
« اور ہمارے خاص بندوں وپیغمبروں کے لئے ہمارا یہ قول پہلے ہی سے مقرر ہو چکا ہے کہ بے شک وہی
غالب کئے جاویں گے اور ( ہمارا تو قاعدہ ہے کہ ) ہمارا ہی لشکر غالب رہتا ہے۔ کبھی تسلی نبی کریم کے دشمنوں کی شکست اور ہارنے کی خبر دے کر ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد میں ہے:
« عنقریب ( ان کی) یہ جماعت شکست کھاوے گی اور پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔ « آپ() ان کفر کرنے والوں سے فرما دیجئے کہ عنقریب تم ( مسلمانوں کے ہاتھ سے) مغلوب کئے جاؤ گے اور ( آخرت میں)جہنم کی طرف جمع کرکے لیجائے جاؤ گے اور وہ ( جہنم) ہے برا ٹھکانہ۔ اسکے علاوہ بھی رسول کریم کے قلب مبارک کو تسلی دینے اور حوصلہ افزائی کرنے کے طریقوں کے مختلف انداز ہیں۔ (ترجمہ :شیخ ولی خاں المظفر۔کراچی)
(جاری ہے)