یہ سیاہی زلفوں کی نہیں، بیوہ کے آنچل کی ہے
مسز پی جے تو حساب بے باق کر دے گی مگر اُن کا حساب کون بے باق کرے گا؟
شہزاد اعظم۔جدہ
شہر کراچی کی ثقافت بلا شبہ ہمیشہ سے ایک دھنک کی مانندرہی ہے کیونکہ وطن عزیز کے چپے چپے سے آنے والے لوگوں نے اس شہر کو اپنا مسکن بنایااور تن من دھن سے اسی کے ہو رہے۔اس شہرِ عظیم میں ایک سحر تھاجو لوگوں کو مسحور کرتا تھا، ایک کشش تھی جوہر ذی روح کو اپنی جانب کھینچتی تھی۔ پاکستان کے ”شہروں کی دلہن“کا خطاب پانے والاکراچی ”دلہنوں کا شہر“ ہوا کرتا تھا۔یہ راتوں کو سوتا نہیں تھااسی لئے یہاں آنے والا شب بیداری کا عادی ہوجاتا تھا۔پان کی دکانیں، چائے کے ہوٹل، تفریح گاہیںاور مشروبات کی دکانیں ساری رات کھلی رہتی تھیں، بسیں اور ویگنیںدن رات سڑکوں پررواں دواں رہتیں۔کہیں لوگ ان کے پیچھے بھاگتے نظر آتے اور کہیں وہ لوگوںکا تعاقب کرتی دکھائی دیتی تھیں ۔موجوں سے گلے مل کر فرار ہونے والی نمناک ہوائیں دن رات شہر بھر میں اٹکھیلیاںکرتی پھرتی تھیں۔ کہیں کسی پیکرِ جمال کے چہرے سے نقاب سرکا دیتیں توکبھی کسی حسین رخسار پر زلف بکھراجاتیں اور کبھی کسی کی یادوں میں جلتے شعلوں کو بھڑکا جاتیں۔لوگ راتوں کو بھی تفریحی مقامات کا رخ کیا کرتے جن میں ہل پارک، کلفٹن، کیماڑی اور شہر کے دیگر پارکس اور فوڈ اسٹریٹس شامل ہوتی تھےں۔یوں تفریح گاہوں میں لوگوںکا آناجانا رہتا اور رونقیں بحال رہتیں۔
ہم شہر کے مصروف علاقے صدر کی کسی گلی سے گزرتے تو رسیلی زبانوں کے سریلے الفاظ کانوں میں وطنیت کا نغمہ چھیڑتے محسوس ہوتے۔ کوئی کہتا”توہنجو نالو چھا آھے“، جواب ملتا”خادم نوں جوید کہندے نیں“۔کہیں سے آواز آتی ”ہیکڑی گَل بدھایوں“ جواب ملتا”ہاں ہاں بول کیاکہتاہے؟“کہیں سے یوں سننے کو ملتا کہ”پہ مخا دے خا“، جواب ملتا”ویل ڈیئر، سی یو آن ٹومارو۔“شہر کے مختلف علاقوں کے نام ایسے کہ لوگ کئی کئی برس گزرنے کے باوجود انہیںیاد نہیں کر سکے مثلاً”ایلفنسٹن اسٹریٹ“، دھورا جی، چاکی واڑہ، نیٹی جیٹی، ہاکس بے، سینڈزپٹ، صفوراگوٹھ اور چنیسرگوٹھ۔کوئی شخص کراچی کا دورہ کر کے جب واپس اپنے شہرجاتا تو کئی کئی روز تک نہ وہ کسی کو منہ لگاتااور نہ کوئی اُس سے بات کرنے کی ہمت کر پاتا تھا۔
ہم 70ءکی دہائی میں طویل عرصہ کراچی میں قیام کرنے کے بعد لاہور گئے۔ وہاںپرویز جمال سے ہماری ملاقات ہوئی جسے محلے بھر میں پیار سے ”پے جی“ کہا جاتاتھا۔ وہ چوک میں چشمہ لگائے کھڑا تھا جس کی کمانی پر اس کا اسٹیکر جھول رہا تھا۔گلے میں لال مفلر ، فلیٹ کی اونچے کالر والی قمیص اور فلیپر پہنے وہ ہر آنے جانے والے کو سیاہ شیشوں کے پیچھے سے تاڑ رہا تھا۔ ہم نے قریب جاکر کہا ”اوئے پے جی! کی حال ایہہ؟“ اس نے جوش و جذبے سے عاری انداز میںمصافحے کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا ”سر جی! پے جی نئیں بولیں، میں ”پی جے“ ہوں، کل ہی کراچی سے آیاہوں، وہاں میرے دوستوںنے میرا نام بدل کر”پی جے“ رکھ دیا تھا۔“ ہم نے کہا کہ اتفاق ہے، ہم توآج ہی کراچی سے آئے ہیں۔“ یہ سن کر وہ ہم سے اس طرح بغلگیر ہوا جیسے پردیس میں طویل عرصے کے بعد اتفاقاً کوئی پاکستانی ہم وطن دکھائی دے جائے۔ وہ ہمیں چائے پلانے کے لئے ہوٹل لے گیا جہاں ایک گھنٹے تک اس نے ہم سے کراچی کی باتیں کیں، وہاں کے لوگوں کی مہمان نوازی ، شہر کی رونقیں، ٹریفک، روشنیاں، اداروں کانظام و انصرام، سڑک پر رواں دواں ٹرام،نان نہاری، شب بیداری، پان سپاری،بندر روڈ پر چلنے والی وکٹوریہ،فٹ پاتھوں پر غریبوں کا بستر بوریہ،اسے سب یاد آ رہے تھے۔ اس نے ہمیں بتایاکہ میں نے یہ چشمہ ”ایلفسٹنسریٹ سے لیا تھا،چے کواڑہ اورسیمپٹ بھی میں ہو کے آیا ہوں۔ میں کریچی کے تقریباً علاقے گھوم چکا ہوں۔ وہیں نوکری کے لئے کوشش کر رہا ہوں،ہوٹل میں۔ میںنے ایک ریسیپشنسٹ سے دوستی کر لی تھی، بڑی پیاری اردو بولتی ہے۔ اس نے کہا ہے کہ میں تمہاری نوکری کا بندوبست کرتی ہوں، تم یہیں آجاو۔ سر جی! میں نے پکا ارادہ کر لیاہے ، میںاس ہوٹل میں نوکری کروں گا اور اس ریسیپشنسٹ سے شادی کر کے وہیں رہوں گا۔”پی جے“ نے پھر ایسا ہی کیا۔
کراچی اپنے اندر واقعی مقناطیسی کشش رکھتا تھا۔ہر کسی کو بلاتا تھا اور اسے اپنے دل میں جگہ دے کراپنا بنا لیتا تھا۔پھر وہ واپس جانا نہیں چاہتا تھا۔ یہ کشش آج بھی ہے، کراچی آج بھی لوگوں کو بلاتا ہے، اسے جگہ دے کر اپنی خاک کا پیوند بنا لیتا ہے، وہ واپس جانا چاہے بھی تو نہیں جا سکتا۔کراچی میں آج بھی کسی گنجان آباد علاقے یا مصروف بازار سے گزریں تو رسیلی زبانوں کے دردیلے الفاظ کانوں میں بے بسی کا رونا روتے محسوس ہوتے ہیں۔ کوئی نسوانی آواز یہ پوچھتی سنائی دیتی ہے کہ ”لوگو! میرے بچے کو کہیں دیکھا ہے تم نے،یہ بتاوریسکیو والوں نے مارے جانے والے کا نام کیا بتایا تھا؟“اسے کوئی جواب ہی نہیں دے پاتا۔کہیں سے صدا آتی ہے کہ ”سائیں! ہیکڑی گَل بدھایوں“ تو جواب ملتا ہے کہ”میں تو خود سوالی ہوں تو کسی اور سے پوچھ لے۔“
شہر میں ہوائیں آج بھی چلتی ہیں مگر ان میں اب گولیاں تیرتی ہیں جو گالوں پر بکھرنے والی زلفوں کو خون سے تر بتر کر دیتی ہیں۔ جو مقتول کو بے نقاب کر کے یہ نقاب قاتل کے منہ پر ڈال دیتی ہیں۔
واقعی شہر کراچی کی ثقافت ایک دھنک تھی اور آج بھی ہے ،اس میں سبھی رنگ شامل ہیں۔ماضی اور حال کی دھنک میں فرق اتناہے کہ آج بھی اس میں سفیدی تو ہے مگر صبح روشن کی نہیں بلکہ اپنوں کے خون کی ۔اس میں سرخی ہے توہے مگرگلشنِ حیات کے گلابوں کی نہیں بلکہ مقتول کے خون کی ۔ آج بھی اس میں سیاہی ہے مگروہ کسی پیکرِ جمال کے شانوں پر بکھری زلفوں کی نہیں بلکہ بیواوں کے آنچل کی سیاہی ہے۔
عروس البلاد کے مختلف مقامات پر آج بھی رونقوں کے ”پہرے“ ہیں مگر یہ رونقیں اب تفریحی مقامات پر نہیں بلکہ قبرستانوں میں ہیں جہاں اپنے پیاروں کی نعشیں دفنانے والوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل ہم کراچی کے ایک متوسط مگرمعروف علاقے کی دکان سے کچھ خرید رہے تھے کہ دکاندار نے ایک بڑھیاکو سودا ادھار دینے سے انکار کیا۔ اس نے التجا کے انداز میں دکاندار سے کہا کہ وہ اسے سودا دینے سے انکار نہ کرے، پیسے وہ دو روز تک دے جائے گی۔ اس کے جانے کے بعد دکاندار نے رجسٹر کھول کر اس بڑھیا کا نام لکھا”مسز پی جے۔“ہم نے اس دکاندار سے پوچھا یہ کون تھی؟اس نے کہا کہ اس کا میاں پرویز جمال تھا جسے چند ماہ قبل نامعلوم افراد نے قتل کر کے بوری میں بند کر کے پھینک دیا تھا۔ اب وہ کپڑے سی کراپنا اور بچوں کا پیٹ پالتی ہے۔اس کی دماغی صحت بھی متاثر ہو چکی ہے۔وہ اکثرکہتی ہے کہ فکر نہ کر، پی جے آئے گا تو سارا حساب بے باق کر دوں گی۔“ ہمیں خیال آیا کہ مسز پی جے تو حساب بے باق کر دے گی مگر مسز پی جے کا حساب کون بے باق کرے گا؟